
محمد یونس
عیدالاضحیٰ کے موقع پر جب ملک بھر میں گھروں میں قربانی کی خوشبو، قہقہے اور میل ملاپ کی روایتی رونق دکھائی دے رہی تھی،قبائلی ضلع خیبر کے پہاڑی علاقے باڑہ میں ایک خاندان ضلعی ہسپتال کے گرم فرش پر راتیں گزار رہا تھا۔ سولہ ماہ کی ایک بچی، جسے بخار، کھانسی اور بدن پر ابھرنے والے دھبوں نے نڈھال کر رکھا تھا، وینٹی لیٹر پر زندگی کی جنگ لڑ رہی تھی۔ اس کے والد، پینتالیس سالہ ساقب خان، ہسپتال کے ایک کونے میں نم آنکھوں کے ساتھ بیٹھے یہ سوچ رہے تھے کہ اگر صرف ایک ویکسین لگ جاتی، تو شاید حالات مختلف ہوتے۔
یہ واقعہ خسرہ کے ان درجنوں کیسز میں سے ایک ہے، جو حالیہ مہینوں میں خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں سامنے آئے ہیں۔ ضلعی محکمہ صحت کے مطابق سال 2025 کے ابتدائی چھ ماہ میں صرف ضلع خیبر میں بارہ سو سے زائد خسرہ کے مشتبہ کیسز رپورٹ ہوئے۔ یہ اعداد و شمار نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسز کی اُس رپورٹ سے مطابقت رکھتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ جنوری تا مئی 2025 کے دوران ملک بھر میں خسرہ کے کیسز میں چالیس فیصد سے زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
ساقب خان کا کہنا ہے کہ ان کے گاؤں میں ویکسینیشن ٹیمیں باقاعدگی سے آتی رہی ہیں۔ تاہم، جس روز ان کی بیٹی کی ویکسین لگنی تھی، وہ گھر پر موجود نہیں تھے اور بچی یہ اہم حفاظتی ٹیکہ لگوانے سے محروم رہ گئی۔ ان کے بقول، "ہم نے سوچا کہ اگلی بار لگوا لیں گے، لیکن خسرہ نے ہمیں موقع ہی نہ دیا۔”
خیبر کے دور افتادہ علاقوں میں ویکسینیشن کے عمل کو نہ صرف جغرافیائی مشکلات کا سامنا ہے بلکہ سماجی اور نفسیاتی چیلنجز بھی درپیش ہیں۔ باڑہ میں تعینات ایک ہیلتھ ورکر خالد نے بتایا کہ بعض اوقات مقامی افراد ویکسینیشن ٹیموں پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہیں، اور افواہوں یا ذاتی سانحات کی بنیاد پر ویکسین سے انکار کرتے ہیں۔ "اکثر ہمیں دروازے بند ملتے ہیں۔یہاں بہت سے والدین ویکسین کی اہمیت نہیں سمجھتے ۔جب ہم واپس پہنچتے ہیں، تو بعض اوقات بچے خسرے کا شکار ہو چکے ہوتے ہیں،” انہوں نے کہا۔ویکسین لگانے میں غفلت نےعید کی خوشیاں چھین لئے۔
پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں بچوں کے امراض کے شعبے کے سربراہ، ڈاکٹر محمد حسین کے مطابق، خسرہ صرف ایک عام انفیکشن نہیں بلکہ ایک ایسا مرض ہے جو بچوں کی قوتِ مدافعت کو مکمل طور پر تباہ کر دیتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کئی ایسے کیسز ان کے پاس لائے گئے جن میں بچے محض اس لیے جانبر نہ ہو سکے کیونکہ انہیں وقت پر ویکسین نہیں لگائی گئی۔
دوسری جانب، صوبائی محکمہ صحت نے "بڑی بازیافت مہم” کے تحت ایسے بچوں کی نشاندہی کا عمل شروع کر رکھا ہے جنہیں حفاظتی ٹیکے نہیں لگے۔ مئی 2025 تک خیبر ضلع میں آٹھ ہزار سے زائد ایسے بچوں کا ڈیٹا نیشنل الیکٹرانک ویکسینیشن رجسٹر کے ذریعے حاصل کیا جا چکا ہے۔ تاہم، ڈائریکٹر جنرل صحت، ڈاکٹر ثمینہ افتخار کے مطابق، جنوبی وزیرستان اور تیراہ کے بعض دیہات اب بھی ٹیموں کی رسائی سے باہر ہیں۔ ان کے بقول، "یہ صرف اعداد و شمار کی جنگ نہیں، بلکہ والدین کے اعتماد کی بھی آزمائش ہے۔”
اس وبا کے تناظر میں سب سے اہم بات یہی سامنے آئی ہے کہ صحت عامہ کی کسی بھی مہم کی کامیابی محض ویکسین کی دستیابی پر منحصر نہیں بلکہ اس میں مقامی آبادی کا اعتماد اور مؤثر آگاہی بھی کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
حکومت خیبرپختونخوا اس جون میں ایک بڑی مہم "Big Catch-Up” شروع کر رہی ہے، جس کے ذریعے چھوٹے بچوں کی شناخت اور ویکسینیشن میں تیزی لائی جائے گی۔ نیشنل الیکٹرانک امیونائزیشن رجسٹر (NEIR) جیسے ڈیجیٹل نظام بھی متعارف کروائے جا چکے ہیں۔
ساقب خان، جنہوں نے خسرہ کے خلاف اس جدوجہد کو ذاتی مشن بنا لیا ہے، اب اپنے گاؤں میں ویکسین کے حوالے سے آگاہی پھیلانے میں پیش پیش ہیں۔ وہ والدین کو سمجھاتے ہیں کہ ایک چھوٹی سی سوئی کیسے ایک بڑی مصیبت سے بچا سکتی ہے۔ ان کے بقول، "میری خاموشی ایک غلطی تھی، میں چاہتا ہوں کہ کوئی اور والد میری طرح پچھتاوے کا شکار نہ ہو۔”