پنتتالیس سالہ سید بادشاہ ضلع باجوڑ کے مرکزی شہر خار میں سٹیشنری کا چھوٹا دکان چلا کر اپنے گھر کے اخراجات پوری کررہے ہیں لیکن مہنگائی کے دور میں گھر کے اخراجات پوری کرنا بہت مشکل ہے۔ مالی مسائل اور بیٹے کے بہتر مستقبل کے خاطراُنہوں نے دسویں جماعت میں زیر تعلیم اپنے چھوٹے بیٹے یونس کو لیبیا کے راستے یورپ بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن بدقسمتی سے پچھلے سال 25اگست سے وہ لیبیا کے ایک جیل میں دیگر سینکڑوں غیرقانونی تارکین وطن کے ساتھ قید ہے۔اُنہوں نے بتایاکہ اس سے پہلے بھی اُن کے دوبیٹے ایران کے راستے غیرقانونی طریقے سے یورپ جانے کے کوشش میں نہ صرف قید ہوکر لاکھوں روپے خرچ کرنا پڑے بلکہ جان لیواء سفر طے کرنے ہونے کے بعد جب دونوں واپس آئے تو بڑے بیٹے نے غیر قانونی طریقے سے باہر نہ جانے کا فیصلہ کرلیا لیکن چھوٹا بیٹا اس بات کو بالکل ماننے کے لئے تیار نہیں تھا۔ اُنہوں نے کہاکہ بیٹے نے گھر میں بتایاکہ آگر آپ لوگ مجھے علاقے کے دیگر نوجوانوں کے ساتھ لیبیا کے راسے یورپ نہیں بھیجے دینگے تو میں دوبارہ ایران کے راستے چپکے سے چلا جاؤنگا یا خود کشی کرلونگا۔ ان سارے مسائل کے بناء پر علاقے میں ایک ایجنٹ کے ساتھ اٹلی تک پہنچانے کے لئے 26لاکھ روپے پر بات طے کرکے 10مئی کو پاسپورٹ کے ساتھ پانچ لاکھ روپے نقد دئیے۔ اُن کے بقول 17مئی کو لاہور ائیرپورٹ سے دبئی اور وہاں مصرکے بعد دو دن میں لیبیا پہنچ گیا۔طویل انتظار کے باجود 25اگست 2023 کو لیبیا سے سمندر کے راستے کشتی میں اٹلی تک سفر کے دوران لیبیا کے حکام نے پکڑ کر ترابلس جیل منتقل کردیا تاہم اب تک اُن کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہوسکاہے۔
غیر قانونی تارکین وطن پر تحقیق کرنے والے محقیق اور صحافی مجاہد حسین نے کہاکہ پاکستان سمیت دیگر ہمسایہ ممالک کے افراد غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے کے لئے دو راستے استعمال کرتے ہیں جن میں ایک صو بہ بلوچستان سے ایران اورترکی سے ہوتے ہوئے یورپ جاتے ہیں تاہم یہ سفر گاڑی یہ پیدل طے کرنا ہوتاہے۔ اُن کے بقول اس راستے کو پاکستان کے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے لوگ زیادہ تعداد میں استعمال کرتے ہیں جبکہ دوسرا راستہ پاکستان سے ہوائی جہا ز کے ذریعے دبئی اور مصر سے ہوتے ہوئے لیبیا تک پہنچ کر وہاں سے سمندر کے راستے یونان سے ہوتے ہوئے اٹلی تک جانے کی کوشش کیا جاتاہے۔اُن کے بقول اس راستے پر سفر کے لئے لیبیا تک قدرے محفوظ سمجھاجاتاہے جبکہ پنجاب اورکشمیرکے لوگ اکثریت اس راستے کو استعمال کرتے ہیں جبکہ پچھلے کچھ عرصے سے خیبر پختونخوا کے نوجوانوں کا بھی اس اس راستے پر سفر کرنے کا رجحان بھی شروع ہوچکا ہے۔
سیدآغا (فرضی نام) پاکستان سے انسانی سمگلنگ کا غیر قانونی دھندے کررہاہے۔اُنہوں نے کہاکہ 14جون کو لیبیا سے اٹلی جانے والی کشتی یونان کے قریب سمندر میں الٹ جانے کے واقعہ کے بعد پاکستان سمیت لیبیا میں بھی تارکین وطن کے روک تھام کے خلاف اقدمات اُٹھنا شروع ہوئے جن میں بڑی تعداد میں لیبیا میں موجود پاکستانیوں کے ساتھ دیگر ممالک کے لوگ جوکہ سمندر کے راستے غیر قانونی طور پر یورپ جانے کے انتظار میں تھے کی گرفتاری شروع ہوئی ہے۔ اُن کے بقول سینکڑوں کے تعداد میں پاکستانی لیبیا میں قید ہے تاہم اُن کے رہائی میں کافی زیادہ مسائل موجود ہے۔
23جون2023 کو سابق وزیر داخلہ رانا نثاء اللہ نے قومی اسمبلی کو بتایا تھا کہ چار سو کے گنجائش والے کشتی میں سات سو افراد کو سوار کیے گئے تھے جن میں 350پاکستانی تھے۔ اُن کے بقول یہ سارے لوگ غیر قانونی طورپر اٹلی جارہے تھے کہ سمندر میں یونان کے قریب کشتی حادثے کے شکار ہوئے۔ اُنہوں نے بتایاتھا کہ متاثر افراد کے خاندانوں کے معاونت کے لئے قائم ڈیسک سے ملک کے مختلف علاقوں سے281خاندانوں نے رابطہ کیاتھا۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے کے مطابق خیبر پختونخوا نے رواں سال انسداد انسانی سمگلنگ کے 408 واقعات ہوئے ہیں جن میں 76کو عدالت کے طرف سے سزائیں ہوئیے۔ ادارے کے مطابق 15ویزہ فراڈ، 4چار انسانی سمگلنگ، 90جعلی اسناد بنانے، 11انسانی سمگلنگ کے مقدمات کا اندراج اور 212کو ائیرپورٹ یا سرحدی مقامات پر اپ لوڈ کردئیے گئے۔ جون میں لیبیا سے جانے والے کشتی یونان کے قریب سمندری حدود میں ڈوبنے سے ہلاک افراد کے شناخت کے بعد واقعہ میں ملوث افراد کے خلاف ملک بھر میں ایف آئی اے کے طرف سے کاروئیوں شروع ہوئی جوکہ اب تک جاری ہے۔ ادارے کے مرکزی دفتر سے خیبر پختونخوا ایف آئی اے کے انسداد انسانی سمگلنگ کے شاخ کو پانچ افراد کے نام اور معلومات بھیج دئیے گئے جوکہ اس واقعہ میں ہلاک ہوچکے تھے۔ اس حوالے سے ایک عہدایدار نے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہاکہ ان میں ایک کا تعلق پشاور کے بجگی روڈ سے تھا جبکہ اُن کے بارے میں معلوم ہوا کہ ان کا پورا خاندان یہاں سے کئی سال پہلے پنجاب کے شہر گجرات منتقل ہوچکا ہے تو اس وجہ سے اس پر مزید کاروئی نہیں ہوئی۔اُنہوں نے کہاکہ ایک کا تعلق نوشہر ہ سے ہے تاہم اُن کا ایجنڈ ترکی میں تھا جبکہ تین کا تعلق باجوڑ سے بتایا گیا تھا۔ اُن کے بقول باجوڑ میں اپنے گھر میں سلامت موجود تھا جبکہ دونوں جوانوں کے خاندان نے ایجنٹ کے بارے میں کسی قسم کے معلومات دینے سے گریز کرکے موقف اپنایا کہ اُنہیں معلوم نہیں کہ اُن کے بچے کس ایجنٹ نے بیرون ملک بھیج دئیے تھے جس کے وجہ سے اس کیس میں بھی کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔
لیبیا میں کشتی کے واقعے کے خلاف خیبر پختونخوا میں ایف آئی اے کے کسی بھی دفتر میں متاثر افراد کے جانب سے کوئی شکایت درج نہیں کرائی گئی جس سے اندازہ ہوتاہے کہ واقع میں خیبر پختونخوا کے لوگ کم تھے۔
بیرونی ممالک میں قید پاکستانیوں کے قانونی مدد اور تحفظ کے لئے کام کرنے والے غیر سرکاری تنظیم جسٹس پروجیکٹ پاکستان(جے پی پی )نے گزشتہ روز عالمی یوم تارکین وطن پر جار ی کردہ اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں 14ہزار پاکستانی قیدہے تاہم 20 جولائی 2023 میں وزارت خارجہ نے قومی اسمبلی کو بیرونی ممالک میں قیدوں کی تعداد بارہ ہزار بتایا گیا تھا۔ حکومت اور غیر سرکاری اعداد شمار میں لیبیا میں قید پاکستانیوں کے تفصیلات موجود نہیں جن کے حوالے سے جے پی پی کے ڈائریکٹر سارہ بلال سے کئی بار رابطے کی کوشش کی لیکن اُن کے طر ف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوسکا۔
ضلع باجوڑ کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے سو کے قریب خاندان ایسے ہیں جن کے ایک یا دو نوجوان جون 2023کے بعد لیبیا میں قید ہے۔ ان میں ایک تاج محمد کا اٹھارہ سالہ بھائی علام قادر بھی ہے جوکہ سکینڈ ائیر کا طالب عمل تھا۔ تاج محمد خود باجوڑ میں ایک سروس سٹیشن میں محنت مزدری کررہاہے تاہم اپنے بھائی کو یورپ بھیجنے کے لئے گھرکے تمام قیمتی سامان فروخت کرکے اور لوگوں سے قرض لیکر ساڑھے پانچ ہزار ڈالر ایجنٹ کے کہنے پر ایک بندے کے ساتھ امانت رکھ دی۔ اُنہوں نے کہاکہ علاقے میں نوجوانوں کا غیرقانونی طریقے سے یورپ جانے کے رحجان کافی بڑھ چکا ہے اور تاج محمد بھی کئی بار اس بات کا اظہار کرچکے تھے کہ اُن کو بھی بھیج دیا جائے ورنہ ایران کے راستے چپکے سے چلا جاؤنیگا۔ اُنہوں نے کہاکہ کئی بار دفتر خارجہ اور دیگر اعلی حکام کے ساتھ اپنے پیاروں کے رہائی کے ملاقاتیں ہوئی ہے لیکن رہائی تو دور کی بات ہے اب تک رابطہ تک نہیں کرا سکا۔
جے پی پی کے 2010 سے 2023 تک بیرونی ممالک میں 183 پاکستانیوں کو سزائے موت دی گئی۔ ادارے کا موقف ہے کہ بیرونی ممالک میں قید پاکستانیوں کے رہائی اور قانونی مدد کے لئے ادارے کے ویب سائٹ پرضروری مواد موجود ہونگے۔اعداد شمار کے مطابق دسمبر 2023 تک کم از کم 5 ہزار 292 پاکستانی شہری متحدہ عرب امارات کے جیلوں میں قید ہیں جن میں 235 افراد منشیات، 48 چوری وڈکیتی، 46 افراد غیر اخلاقی سرگرمیوں جبکہ 21 اور 13 بالترتیب قتل اور ریپ کے الزمات پر جیلوں میں قید ہیں۔ معلومات کے مطابق گزشتہ ستمبر میں متحدہ عرب امارات میں تقریباً 1600 پاکستانی قید تھے تاہم اس دسمبر تک یہ تعداد بتدریج بڑھ کر 5 ہزار 292 تک جا پہنچی۔ پاکستان کا متحدہ عرب امارات کے ساتھ قیدیوں کی منتقلی کا معاہدہ ہے، لیکن زیادہ تر پاکستانی شہریوں کو ’اپنے قانونی حقوق تک مکمل رسائی نہیں۔ سعودی عرب کی جیلوں میں کم از کم 3 ہزار 100 پاکستانی قیدی ہیں جن میں سے 691 منشیات جبکہ 180 افراد چوری اور ڈکیتی کے الزامات میں قید ہیں۔اس کے علاوہ سعودی عرب میں رواں سال 4 افراد کو سزائے موت دی گئی۔
دفتر خارجہ کے اعلی عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کے شر ط پر بتایاکہ لیبیا میں حکومت کے ناقص انتظامات کی وجہ سے وہاں پر پاکستانی تارکین وطن کو درپیش مسائل کے حل میں کافی زیادہ مسائل کاسامنا کرنا پڑ رہا ہے۔اُن کے بقول لیبیا کے جیلوں میں پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش، مصراور لیبیائی باشندے بڑی تعداد میں قید ہے جوسمندر کے راستے یونان سے ہوتے ہوئے اٹلی جانے کی کوشش میں گرفتار ہوچکے ہیں۔ عہدیدار نے کہاکہ جون میں کشتی ڈوبنے کے واقع کے بعد نہ صرف لیبیا بلکہ یونان سمیت دیگر ممالک پر بھی تارکین وطن کے روک تھا م کے حوالے سے عالمی دباؤبڑھنے کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ گرفتار کیں جاچکے ہیں۔ رہائی اور قانونی مد د کے سوال پر اُنہوں نے کہاکہ پاکستان اس حوالے سے عالمی اداروں کے ساتھ رابطے میں ہے اور اُمید ہے کہ اس میں جلد کوئی پیش رفت ہوسکے۔
بیورو آف ایمگریشن اینڈاورسیز اپملنٹ کے مطابق راوں سا ل یعنی 2023 نومبر تک میں قانونی طریقے 8لاکھ 5ہزار 88فراد بیرونی ممالک جاچکے ہیں
مجاہد حسین کاکہنا ہے ڈنکی کے ذریعے بیرونی ممالک بھیجنے والے بڑے ایجنٹس پاکستان کے بجائے روس، تاجکستان، دبئی، ایران اور یونان میں ہوتے ہیں جبکہ اُن کے نمائندے یہاں پر پاکستان کے مختلف علاقوں میں لوگوں تک رسائی کے لئے سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال کرتاہے۔ اُن کے بقو ل گاؤں میں ایک نوجوان کسی طریقے سے بیرونی ملک جانے کے لئے ایجنٹس کے ساتھ رابطہ قائم ہوجاتاہے تو وہ علاقے کے دیگر نوجوانوں کوبھی اس طرف لے آتے ہیں۔اُنہوں نے کہاکہ ایجنٹس نیٹ ورک کے صورت میں کام کرتے ہیں، ایک بندہ کوئٹہ میں وصول کرکے ایرانی سرحد بھیج دیتے ہیں جبکہ سرحد پر مو جود دیگر ایجنٹس ایران میں اپنے بندوں کے حوالے کردیتاہے اور اسطرح ترکی سرحد تک جگہ جگہ ان کے لوگ موجود ہوتے ہیں۔
جیل کی زندگی اور مسائل رابطہ
تاج محمدکاکہنا ہے کہ بوڑھے والدین اور دیگر راشتہ دار ہروقت علام قادر کے بارے میں بھی پوچھتے تاہم اُن کے بیماریوں اور درد کو محسوس کرتے ہوئے کئی مہینے گزرجانے کے باوجود بھی اب تک اُن کے گرفتار ی کے بارے میں نہیں بتایا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ آخری بار اپنے بھائی کے ساتھ پچھلے سال دس اگست کو تب ہات ہوئی تھی جب اُن کو جیل منتقل کیاجارہاتھا۔اُن کے بقول کافی کوششوں کے باوجودبھی اُن سے کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے جبکہ مختلف ذرائع سے حاصل کی گئی معلومات کے مطابق بتایاگیاکہ جیل کے حکام کو رشوت دیگر قیدوں کا اپنے راشتہ داروں کے ساتھ رابطہ کرایا جاسکتاہے جبکہ وہاں پر کھانے پینے کا کوئی حاصل انتظام موجود نہیں جبکہ سب سے بڑا مسئلہ جلدی امرض ہے جوکہ لیبیا میں جنگ کے دوران کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے بعد کافی شدت اختیا رکرچکاہے۔ اُن کے بقول رہائی کے لئے متاثر خاندانو ن کے پاس لاکھوں روپے نہیں ہے تاہم وہ چاہتے ہیں کہ کھانے پینے اور علاج کے لئے اپنے پیاروں کو کچھ پیسے بھیج دیں لیکن رہنمائی کے لئے بھی کوئی نہیں ہے۔اُنہوں نے حکومت سے پاکستانیوں کے رہائی میں مدد کی اپیل کردی۔
گرفتار افراد کے رہائی کے حوالے سے ایجنٹ کا مواقف
سید آغانے کہاکہ اُن کے بھیجے گئے سو سے زائد افراد لیبیا میں قید ہے تاہم اب تک وہ خود یا اُن کا کوئی بندہ اس خوف کی وجہ سے جیل نہیں گیاہے کہ ایسانہ ہوکہ وہ خود گرفتار ہوجائے۔ اُنہوں نے کہاکہ لیبیا میں خانہ جنگی کے بعد حکومتی نظام میں کرپشن اور دیگر مسائل بڑھ چکے ہیں۔ اُنہوں نے کہاکہ کچھ مقامی بااثر افراد ایسے ہیں جوکہ دس سے پندرہ لاکھ روپے لیکر آگے متعلقہ حکام کے ساتھ بات کرکے بندے رہا کرکے واپس پاکستان بھیج دیتے ہیں۔ اُنہوں نے کہاکہ جن افراد کو پاکستان سے لیبیا لیکر گئے تو اُن کے راشتہ داروں سے پانچ لاکھ نقد وصول کرچکے ہیں جبکہ باقی رقم ایک بندے کے ساتھ موجود ہے اور وہ تب ملی جب بندے اٹلی تک پہنچ جائے۔اُنہوں نے کہاکہ گرفتار افراد کے خاندان والوں کے طرف سے اپنے بندوں کے رہائی کے لئے کافی زیادہ دباؤ ہے لیکن رہائی کے لئے درکا رقم کوبھی یہ لوگ تیار نہیں۔
سیدبادشاہ نے کہاکہ اپنے بیٹے اور دیگر گرفتار نوجوانوں کے رہائی کے حوالے ایجنٹ تاریخ پر تاریخ دیتا ہے تاہم کئی مہینے گزرجانے کے باوجود بھی اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ اُنہوں نے کہاکہ اپنے بیٹے کے رہائی کے سلسلے میں ایجنٹ آٹھ لاکھ روپے مانگ رہے ہیں تاہم پہلے لوگوں سے قرض پیسے لیکر واپس نہیں کیں ہے تو مزید اتنے بڑی رقم کہا سے کریں۔ اُن کے بقول مقامی سطح پر مسائل کے حل کے لئے موجود جرگے کے مدد سے بھی ایجنٹ کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لئے بات چیت کررہے ہیں لیکن ممکنہ حل دکھائی نہیں دیں رہاہے۔