خان بیگم کے دو بیٹوں نے نجی سکول سے پڑھائی تب چھوڑ دی جب اُن کے شوہر بم دھماکے میں جاںبحق ہو گیا تاہم اب دونوں بچے گاؤں کے سرکاری سکول میں پڑھنے کے لئے جاتے ہیں۔ گھر کے تمام ضروریات خان بیگم اپنے ہاتھ کے مشقت سے ہی پورا کرتی ہے اور گاؤں کے دوسرے غریب خواتین کے طرح قریب پہاڑوں سے مزری کے پتے لاکر گھر میں اپنے دو بیٹوں کے مدد سے رسیاں، جھاڑو اورخشک روٹیاں رکھنے کے لئے مختلف اشیاء تیار کرتے ہیں۔ شوہر کے موت کے بعد زندگی انتہائی مشکل سے گزررہی ہے کیونکہ گھرکے اخراجات آسانی سے پورے نہیں ہوتی۔اپنے محنت مزدوری سے چائے، چینی، آٹا اور سبزی کے اخراجات بمشکل پوری ہوجاتی ہے تاہم جب کوئی گھر میں بیمار ہوجاتا ہے تو ہمسایوں سے قرض لیکر ڈاکٹر سے علاج کرواتے ہیں۔
"اب بھی کریانہ دوکان کے چھ ہزار جبکہ بچی سخت بیمار تھی اور جب علاج کے لئے گئے تو پیسے نہیں تھے تو ڈاکٹر نے کھاتے میں پندرہ سوروپے لکھ دی۔ دو نوں بیٹاں پڑھتی تھی لیکن شوہر کے وفات کے بعد میں اُن کے اخرجات برادشت نہیں کرسکتی تو مجبورا سکول بھیجنے سے منع کردی جس کا مجھے بہت ہی دکھ ہوتا ہے لیکن مجبوری ہے کیا کریں "۔
یہ کہانی صرف خان بیگم کی نہیں بلکہ پانچ ہزار آبادی پر مشتمل شاہ حسن خیل گاؤں جوکہ خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع لکی مروت کے مرکزی شہرسے 21 کلومیڑدور جنوب مشرق میں واقع ہے 120بیواخواتین کی کہانی ہے۔ یکم جنوری 2010 کو سہ پہر گا ؤں کے بیج واقع کھیل کے میدان میں ولی بال میچ کے دوران خودکش بم حملہ ہوا جس میں 127افراد جابحق ہوگئے تھے۔ شاہ حسن خیل گاؤں ترقی کے لحاظ سے انتہائی پسماندہ علاقہ ہے۔ یہاں پر کچے گھر، ریت اور مٹی سے بھرے راستوں پر چلتے ہوئے آپ کو بوڑھے مرد یا بچے ہی نظر آئینگے۔
عمررسید ہ یوسف جانہ گھر میں تیار کردہ رسیاں ہاتھوں میں لی ہوئے کریانہ سٹور سے اُن کے عوض میں گھر کے ضروریات کیلئے چیزیں لینے جارہی ہے۔ اوہ بم دھماکے میں دو نوجوان بیٹوں کو کھو چکی ہیں۔ بڑے بیٹے شیر محمد جن کے دو بیٹے اور چاربیٹیاں جبکہ چھوٹے بیٹے دین محمد کے دو بیٹے،تین بیٹیاں اور اُن کے بیوائیں رہ چکے ہیں۔یوسف جانہ، شوہر اور ایک بیٹا تینوں بیمار ہیں جس کے وجہ سے ان کے زندگی انتہائی مشکلات کا شکار ہے۔
” دونوں بیٹوں نے جلدی سے گھرمیں عصر کے نما ز کی تیاری کی اور کہا کہ مسجد میں نماز پڑھنے کے بعد والی بال میچ دیکھنے کے لئے جائینگے۔میں نے گھر میں جیسے ہی نماز ختم کیں تو زودار دھماکے کی آواز سنی تو میرا دل ہل گیا۔ جلدی سے گھر کے باہر کھیل کے میدان کی طرف بھاگی تو دیکھا کہ لاشیں ہی لاشیں پڑے تھے۔ ہر ایک اپنوں کو تلاش کررہے تھے۔ میرے شوہر بیٹے اور ہمسایوں نے بہت کوشش کی لیکن شیرمحمد اور دین محمد کی لاشیں نہیں ملے۔ موت تو حق ہے لیکن اُن کے لاش نہ ملنے کا غم ہمیشہ اُداس کرتی ہے۔کم ازکم لوگوں کو تو اپنے پیاروں کی کوئی نہ کوئی نشان تو ملا جائے لیکن ہمیں کچھ نہیں (روتی ہوئی اُن کے سانسیں روک گئے)”
گاؤں کے سابق ناظم عبدالمالک کے مطابق تقریبا 120بیوہ خواتین تین کلومیڑدورپہاڑ سے، مزری، گھاس سروں یا گدھوں پر لاکر گھروں میں اُن سے مختلف اشیاء تیار کرکے اُس کو مقامی دوکانداروں یا باہر سے کوئی آکر انتہائی کم ریٹ پر خرید لیتا ہے جس سے ان کے گھروں کے چولہے جلتے ہیں۔
"ہمارے گاؤں میں تو گھروں میں خواتین ذہنی مریض بن چکے ہیں کیونکہ ایک تو وہ گھر کی اخراجات، بچوں کے تعلیم، صحت اور دوسرے ضروریات پورا کرنے کے لئے سخت محنت کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف وہ اپنے پیاروں کو ابھی تک بھول نہیں پائے۔تمام متاثرہ خاندانوں کو بس صرف تین تین لاکھ معاوضہ دیا جا چکا ہے لیکن اُس کے بعد کسی نے ان کی کوئی مدد نہیں کی”۔
گاؤں میں کوئی سرکاری طبی مرکز موجود نہیں اور لوگ دو سے تین کلومیٹر دور دوسرے گاؤں میں علاج کے لئے جاتے ہیں لیکن وہاں پر دن کے2بجے تک ہی سہولت موجود ہوتا ہے۔یہاں پر لڑکیوں کے ایک پرائمری اور ایک مڈل سکول ہے جبکہ آٹھویں جماعت کے بعد لڑکیاں سہولیات کے نہ ہونے کی وجہ سے اپنی تعلیمی سلسلہ ادھورہ ہی چھوڑ دیتے ہیں۔خواتین دور دور سے سر یا گدھوں پر پینے کے لئے پانی لاتے ہیں۔ کھانا پکانے اور دوسرے ضروریات کیلئے قریبی پہاڑ میں لکڑی کاٹ کر گھر لاکر جلاتے ہیں۔
خان بیگم نے آخری دن بھی شوہرکو امن کے خراب صورتحال کے بناء پر گھر سے باہر جانے سے روکنے کی کوشش کی لیکن اُن کو جواب ملاکہ پوری دن کے تھکاوٹ دورکرنے کے لئے کھیل دیکھنا اُن کا شوق ہے۔
"گاؤں میں جب طالبان کے خلاف امن کمیٹی بنی تو اُس دن سے میرے دل میں ایک خوف پید ا ہوا اور ایک دن جب سارے لوگ لشکر کشی کے لئے جمع ہوئے تو میں نے شوہر کو ایک کمرے میں بند کرکے کمیٹی والوں کو جھوٹ بولا کہ وہ گھر میں نہیں۔ لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ ایک دن والی بال میچ دیکھنے کے لئے جاکر ہمیشہ کے لئے ہمیں چھوڑ کر چلے جائینگے "۔
عبدالمالک کے مطابق شاہ حسن خیل میں خواتین، بچے اور بوڑھے ذہنی مریض بن چکے ہیں اور کئی ایسے افراد جو کہ معذور ہو چکے ہیں یا اُن کے جسم میں بم کے ذرات آج بھی موجود ہیں جس کے علاج کے لئے کو ئی انتظام نہیں اور آج تک حکومتی سطح پر کوئی اقدام نہ ہوسکا۔اُنہوں نے کہاکہ80 سے زیادہ ایسے خاندان ہیں جن کے کفالت کے ذمہ داربیوہ خواتین ہیں جبکہ کسی اعلیٰ حکومتی عہدیدارنے بھی اُن کے حالت زار کے بارے میں نہیں پوچھا ہے۔
نبیلہ خانم جنوبی اضلاع میں خواتین کے حقوق کے لئے مصروف عمل ہے، اُنہوں نے کہا کہ 9/11کے بعد خطے میں بدامنی کے لہر میں سب زیادہ خواتین اور بچے متاثر ہوئے ہیں اور انتہائی مشکل زندگی گزار رہے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ آکثرخاندانوں کے کفیل بم دھماکوں، ٹارگیٹ کلنگ اور یا لاپتہ افراد میں شامل ہیں جس کے وجہ سے اُن کے خاندان کے لوگ انتہائی مشکل زندگی گزار رہے ہیں جس کے بحالی کے لئے حکومت نے کوئی مناسب منصوبہ بندی نہیں کیاہے۔
خان بیگم جیسے بیوہ خاتون کی مشکل زندگی صرف اس اُمید پر جی رہی ہے کہ ایک دن اُن کے چھوٹے بچے اعلی تعلیم حاصل کرکے وہ سکون کی زندگی گزارئینگے۔
بہترین موضوع ہے۔ واقعی شاہ حسن اب بیواؤں اور یتیموں کا گاؤں ہے۔
شاہ حسن خیل *