پچاس سالہ حاجی سرتاج پچھلے پچیس سالوں سے سعودی عرب میں محنت مزدوری کررہا ہے۔ انہوں نے اس دوران بہت سے نشیب و فراز دیکھے ہیں خواہ وہ سعودی عرب کے چند سال پہلے معاشی حالت ہو یا کرونا وائرس کے وجہ سے لا ک ڈاؤن لیکن پھر بھی انہوں نے ہر وقت اپنے خاندان کے بہتر مستقبل کے لئے سوچا تھا۔ سرتاج کہتے ہے کہ وہ پچھلے پچیس سالوں سے سعودی عرب میں محنت مزدوری کررہا ہے اور جب اپنے گھر پاکستان چھٹی پر آتے تھے اور جو پیسہ وہاں کماتے تھے اس کو یہاں خرچ کر کے چار مہینے بعد واپس جاتے تھے اور یہی اس کے پچیس سالوں سے طریقہ کار تھا۔

اس کے ساتھ اس کے خاندان کے دیگر افراد بھی سعودی عرب میں محنت مزدوری کرتے ہیں اور ان کا بھی یہی معمول ہے۔ لیکن اس نے اپنے خاندان کے لئے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس پر اس کو فخر ہوں۔ اس لئے انہوں اپنے خاندان کے افراد سے مشورہ کیا اور باہمی مشورے سے یہ فیصلہ کیا کہ کوئی ایسا کام کرے کہ اس سے نہ صرف ان کے خاندان کو بلکہ علاقے کے لوگوں کو بھی فائدہ ہوں اور اس جذبہ کے تحت انہوں نے باجوڑ ماڈل سکول اینڈ کالج کے نام سے ایک تعلیمی ادارہ بنا یا۔ کیونکہ ضلع باجوڑ ایک پسماندہ علاقہ ہے اس کی آبادی مردوم شماری کے مطابق چودہ لاکھ ہے۔ یہاں تعلیم کے سہولیات کی کمی ہے او ر روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔

میرداد خان حا جی سرتاج کا بھتیجا ہے اور خود ماسٹر ڈگری ہولڈر ہے جو باجوڑ ماڈل سکول اینڈ کالج میں بحیثیت پرنسپل ڈیوٹی سرانجام دے رہا ہے نے بتایا کہ اس کا سکول K Gسے لیکر انٹر لیول تک ہے۔ موجودہ وقت میں اس کے سکول میں 300 سو میل اور فی میل بچے پڑ ھ رہے ہیں۔ جبکہ انٹر سیکشن میں 40 چالیس طلباء نے داخلہ لیا ہے جبکہ مزید اداخلے لے رہے ہیں۔ باجوڑ ماڈل سکول اینڈ کالج جیسا کے نام سے ظاہر ہے کہ یہ ایک ماڈل ادارہ ہے۔ اس میں جدید سائنس لیب، کمپیوٹر لیب اور لا ئبریری موجود ہے جس سے طلباء مستفید ہو رہے ہیں۔

باجوڑ میں چونکہ طویل لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے جس کے وجہ سے طلباء کے پڑھائی پر منفی اثرات مرتب ہورہی ہے تو اس مسئلہ کے مستقل حل کے لئے انہوں نے اپنے ادارے میں بلا تعطل بجلی کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے سولر سسٹم نصب کیا ہے۔ میرداد نے اپنے ادارے کے سٹاف اور فیسوں کے بارے میں بتایاکہ اس کے ساتھ 14اساتذہ ہیں جو ہائی کوالیفائیڈ ہیں جبکہ انٹر کلاسوں کے لئے وزیٹنگ پروفیسرز کا بھی بندوبست کیا گیاہیں۔ جبکہ نان ٹیچنگ سٹاف میں ایک کلاس فور اور ایک چوکیدار موجودہیں۔ سکول کا شرح فیس باجوڑ میں موجود تمام پرائیویٹ سکولوں کے مقابلے میں کم ہے اور اس کم فیس پر ہم معیاری تعلیم دے رہے ہیں اور اللہ کا فضل ہے کہ میٹرک کے امتحان میں ہمارے سکول کے طلباء نے1100 سو میں 1000 ہزار سے اوپر نمبرز لیے تھے۔

ہم سبلینگ فی کنسیشن بھی کر تے ہیں اور اس کے علاوہ ہم ارفن سکالرشپ،مدارس کے طلباء سکالرشپ اور میرٹ سکالر شپ بھی دے رہے ہیں۔ میرداد خان نے مزید بتایا کہ ان کے چچا حاجی سرتاج اور والد صاحب کے طرف سے ان کو ہدایت ہے کہ سکول میں تعلیم کے معیار پر کوئی سمجھوتہ نہ کریں خواہ اس سے ہمیں کوئی مالی فائدہ بھی نہ ہوں۔ اور ہم نے یہی اصول اپنائیں ہیں۔

محمد ادریس ایف ایس سی کا طالبعلم ہے اور اس نے باجوڑ ماڈل سکول اینڈ کالج میں فرسٹ ایئر میں داخلہ لیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے رواں سال میٹرک کا امتحان پاس کیا ہے اور گورنمینٹ کالجز میں ہائی میرٹ کے وجہ سے اس کو داخلہ نہیں ملا تو نہ صرف وہ بلکہ ان کے خاندان کے دیگر لوگ بھی بہت پریشان ہوگئے تھے کہ اب میرا تعلیم ادھورہ رہ جائے گا۔ اورباجوڑ سے باہر میرے لئے تعلیم حاصل کرنا ممکن نہیں تھا کیونکہ میں ایک متوسط خاندان سے تعلق رکھتا ہوں اور تعلیم کے لئے باہر جانا اور اس کے اخراجات برداشت کرنا ہماری بس کے بات نہیں۔

لیکن اب نہ صرف میں بلکہ میرا پورا خاندان بہت خوش ہے کیونکہ اب باجوڑ ماڈل سکول اینڈ کالج قائم ہونے سے میرا تعلیم حاصل کرنے کی خواہش کی تکمیل ہوگی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ میرے کئی دوست اور کلاس فیلو زجو سرکاری کالجزمیں داخلوں سے رہ گئے تھے انہوں نے بھی یہاں پر داخلہ لیا ہے اور ہم انشاء اللہ باجوڑ ماڈل سکول اینڈ کالج سے ایف ایس سی کر کے ڈاکٹربنیں گے۔ کیونکہ باجوڑ ماڈل سکول اینڈ کالج میں قابل اور خوش اخلاق سٹاف موجود ہے جو طلباء سے بہت تعاون کر رہے ہیں۔

قاصد اللہ پچھلے آٹھ ماہ سے باجوڑ ماڈل سکول اینڈ کالج میں بطور استاد اپنے خدمات سرانجام دے رہا ہے انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے اس نے دوسرے پرائیویٹ سکولوں میں ٹیچنگ کی ہے لیکن جب سے باجوڑ ماڈل سکول اینڈ کالج میں ٹیچنگ شروع کی ہے تو اس کا ضمیر مطمئن ہے کیونکہ وہ بنیادی طور پر ایک سپورٹس مین بھی ہے اور اس سکول میں پہلے دن سے پرنسپل صاحب نے اس کو ٹیچنگ کے ساتھ سپورٹس کے زمداریاں بھی سونپ دی ہے جس میں وہ بہت خوش ہے۔کیونکہ انہوں نے تعلیم کے ساتھ ساتھ سپورٹس سے متعلق بھی کئی سرٹیفیکیٹس حاصل کئے ہیں خصوصی طور پر کرکٹ میں اور اس کو اس میں کافی تجربہ ہے۔

قاصد باجوڑ میں تعلیم کے فروع کے لئے ایک سفیر کے حیثیت سے بھی کام کررہا ہے اور وہ بتاتے ہیں کہ ان کے اردگرد جتنے بھی سٹریٹ چلڈرن ہے وہ اس کو سکولوں میں داخل کرانے کے لئے ان کے والدین سے بات کرتے ہیں تاکہ کوئی بچہ تعلیم سے محروم نہ رہے۔اس میں باجوڑ ماڈل سکول اینڈ کالج کے پرنسپل ان کے ساتھ بھر پور تعاون کررہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اس میں کافی حد تک کامیاب ہوا ہے اور کئی بچوں کو سکولوں میں داخل کرا چکا ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ضلع باجوڑمیں اور بھی امیر لوگ رہتے ہیں اور سعودی عرب اور دوسرے ممالک میں بھی باجوڑ کے کچھ لوگ خوب پیسے کما رہا ہے لیکن کسی نے تعلیمی میدان میں سرمایہ کاری نہیں کی۔ لیکن حا جی سرتاج اور ان کے خاندان نے باجوڑ ماڈل سکول اینڈ کالج قائم کر کے نہ صرف اپنے خاندان کے مستقبل کے لئے ایک اچھی شروعات کی ہے بلکہ باجوڑ کے نئی نسل پر احسان کیا ہے۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے International Labour organizationa(ILO)کے دستاویزات کے مطابق پاکستان کے ایک کروڑ دس لاکھ رجسٹرڈ لوگ بیرونی ممالک میں روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں جس کی اکثریت خلیجی ممالک میں ہے۔ اس بارے میں کوئی رجسٹرد دیٹا موجود نہیں کے ضلع باجوڑ کے کتنے لوگ سعودی عرب میں محنت مزدوری کرتے ہیں۔ لیکن اوور سیز پروموٹر ایسوسی ایشن ضلع باجوڑکے صدر اضغرخان کے مطابق وہ پچھلے 20سالوں سے اوورسیز پرموٹر یعنی ٹریول ایجنسی کے شعبہ سے وابستہ ہے اور انہوں نے خود تقریبا 15000 ہزار لو گ سعودی عرب بھیجے ہیں۔

اضغر خان کے مطابق ایسا کوئی مخصوص ادارہ نہیں جس میں یہ ڈیٹا موجود ہوں کے باجوڑ کے کتنے لوگ سعوی عرب میں موجود ہے لیکن انہوں نے اپنے دیگر علاقوں کے اوورسیز پروموٹرز ایسوسی ایشنز سے جو اعداد و شمار حاصل کئے ہے اس کے مطابق ضلع باجوڑ کے موجود وقت میں تقریبا 25000 ہزار کے لگ بھگ لوگ سعودی عرب میں روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں۔ جس میں اکثریت تحصیل سلا رزوں، برنگ، چارمنگ اور ماموند کے ہیں۔

سال 2013 سے لوگوں کا سعودی عرب جانے میں اضافہ ہوا ہے۔ اور وہ خودہر ہفتہ اوسطا 5 سے7 سات لوگوں کو سعودی عرب بھیجتے ہیں۔ باجوڑ میں اس کے اسو سی ایشن کے ساتھ 20ٹریول ایجنسیز رجسٹرڈ ہے اورہر ٹریول ایجنسی والے 3 تین سے 4 چار لوگوں کو ہفتہ کے حساب سے سعوی عرب بھیجتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس میں اکثریت نوجوانوں کے ہوتی ہیں جس کے عمریں 18 سال سے لیکر25سال کے درمیان ہوتی ہے۔ جبکہ کبھی کبھی 50سال کے لوگ بھی ویزا لینے کے لئے آتے ہیں۔ اضغر خان نے کہا کہ ان کے پاس جتنے بھی لوگ آتے ہیں وہ زیادہ تر غیر ہنرمند ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ لیبر زکے ویزے پر جاتے ہیں۔

اس کے پاس بھی زیادہ تر لیبرز کے ویزے ہوتے ہیں کیونکہ یہ ویزے سستے ہوتے ہیں اور اس کے شرائط بھی آسان ہو تی ہے جبکہ شاذونادر ہنر مند لوگوں کے ویزے یعنی ڈیمانڈ ہوتی ہے لیکن باجوڑ میں ہنر مند لوگو ں کی کمی ہے اس لئے وہ ویزے وہ یا تو واپس کر تے ہیں اور یا اس پر دوسرے علا قوں کے لوگ بھیجتے ہیں۔اور دوسری بات یہ ہے کہ ہنر مندوں کے ویزے لیبرز ویزے کے مقابلے میں مہنگے ہو تے ہیں اور اس کے طریقہ کار بھی مختلف ہو تی ہے لیکن ان کی تنخواہیں اچھی ہوتی ہے۔

حاجی سرتاج کے مطابق جب انہوں نے سکول شروع کی تو اس کے ایک رشتہ دار نے ان کے ساتھ اس میں سرمایہ کاری کی لیکن چند مہینے بعد وہ ان سے الگ ہوا اور اس کو اکیلا چھوڑا جس کے وجہ سے ان کو کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری اور اللہ کے فضل سے ان مشکلات پر قابو پایا اور اب باجوڑ ماڈل سکول اینڈ کالج ترقی کے طرف گامزن ہے۔ حاجی سر تاج نے کہا کہ جب انہوں نے سعودی عرب میں اپنے دوستوں کوبتایا کہ اس نے اپنے علاقے میں ایک تعلیمی ادارہ بنایا ہے تو وہ اس سے بہت متاثر ہوئے اوراس کے دوستوں اور دیگر لوگوں نے بھی اپنے اپنے علاقوں میں اسی طرح کے کاموں کے بارے میں سوچنا شروع کیا ہے جس سے نہ صرف ان کو فائدہ ہوگا بلکہ علاقے کے عوام کو بھی فائدہ ہوگا۔ انہوں نے مزیدبتایا کہ باجوڑ ماڈل اسکول اینڈ کالج کے قیام کے بعد اب اس کا عزم اور بھی پختہ ہو ا ہے کہ اس طرح کے کاموں کو مزید وسعت دی جائے۔

سرتاج کا کہنا ہے کہ تعلیم کی اہمیت کا اندازہ مجھے ہوا ہے کہ ایک تعلیم یافتہ انسان اور ایک ان پڑھ انسان میں کتنا فرق ہے۔ ہمارے علاقے کے زیادہ تر لوگ سعودی عرب میں روزانہ کے اجرت پر کام کرتے ہیں کیونکہ اس کے پاس نہ تعلیم ہوتی ہے اور نہ ہنرجبکہ دوسرے ملکوں کے لوگ اپنے تعلیم اور ہنر کے وجہ سے اچھی اچھی نوکریوں پر ہے جس کے لاکھوں میں تنخواہیں ہو تی ہیں۔ سرتاج کے مطابق اب انہوں نے اپنی پوری توجہ تعلیم کے فروع پر مرکوز کر رکھی ہے اور اب وہ باجوڑ ماڈل سکول اینڈ کالج کے طلباء کے سہولت کے لئے ایک ہاسٹل بنانے کا اردہ رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ پروفیشنل تعلیم کے لئے بھی ایک ادارہ بنانے کا منصوبہ بنایا ہے جس پر بہت جلد کام شروع ہوگا۔

اس میں میڈیکل سے متعلق جتنے بھی کورسسز ہیں وہ اس میں ہونگے کیونکہ اگر ایک طرف ہمارے علاقے ضلع باجوڑ میں اس کی ضرورت ہے تو دوسری طرف سعودی عرب میں بھی ایسے پروفیشنل لوگوں کے لئے بہت سے مواقع موجود ہیں۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ چند سال بعد انشاء اللہ باجوڑ کے لوگ بھی سعودی عرب میں اچھے نوکریوں پر ہونگے۔

شاہ خالد شاہ جی
شاہ خالد شاہ جی کا تعلق قبائلی ضلع باجوڑ سے ہے۔ اور پچھلے 15 سالوں سے صحافت سے وابستہ ہے۔ وہ ایک ایوارڈ ہافتہ تحقیقاتی جرنلسٹ ہے اور مختلف نیوز ویب سائٹس، اخبارات، جرائد اور ریڈیوز کے لئے رپورٹینگ کا تجربہ رکھتا ہے۔ شاہ جی زراعت، تعلیم، کاروبار۔ ثقافت سمیت سماجی مسائل پر رپورٹنگ کررہا ہے لیکن اس کا موسمیاتی تبدیلی ( کلائیمیٹ چینج ) رپورٹنگ میں وسیع تجربہ ہے۔ جس کے زریعے وہ لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کی کوششوں میں مصرف ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں