آئزہ زاہد سٹاری نائٹ فاؤنڈیشن پاکستان(Starry Night foundation)  کے بانی و ایگزیکٹیو ڈائریکٹر  ہے وہ  پاکستان میں آلودگی کے ایک ایسے قسم  کے روک تھام پر کام کررہی ہے جس  میں پاکستان کے آبادی کے امیر اور غریب سب لوگ کسی نہ کسی شکل میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے لیکن کسی کو بھی  اس آلودگی کی طرف زرا بھی خیال نہیں ہے کہ وہ اپنے اس آلودگی پھیلانے سے نہ صرف تمام جانداروں کی زندگی خطرے میں ڈال رہے ہیں بلکہ اس سے آسمان پر ستاروں کے جگہمگاتے جھرمٹوں کے خوبصورتی بھی ماند پڑ ھ رہی ہے۔ اس آلودگی پرقابو پانا دوسرے آلودگیوں کے نسبت آسان ہے لیکن اس کی طرف توجہ مبذول کرانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ آلودگی بلب یا روشنی کے بلا ضرورت اور بے ترتیب استعمال سے پیدا ہوتی ہے جس کو لائٹ پالوشن ( روشنیوں) کی آلودگی کہتے ہیں۔

آئزہ پاکستان کی پہلی نوجوان خاتون ہے جس نے پاکستان میں لائٹ پالوشن  کے نقصانات اور اس پر قابو پانے کے حوالے سے  لوگوں میں شعور پیدا کرنے کے لئے نو ماہ پہلے سٹاری نائٹ فاونڈیشن کی پاکستان میں بنیاد رکھی اور اس سے لائٹ پالوشن کے روک تھام کے لئے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا۔ انہوں نے لائٹ پالوشن  کے روک تھام  کے حوالے سے بتایاکہ  ان کو بچپن ہی سے آسمان پر ستاروں کے  چمک دمک نظر نہیں آرہی تھی اور اس کو یہ تشویش لاحق ہوئی تھی کہ کہی اس کی آنکھوں کی بینائی کمزور ہے اس لئے اس کو رات کی وقت آسمان پر ستاروں کے جھرمٹ اور کہکشاں نظر نہیں آرہی ہے۔ لیکن آہستہ آہستہ جب اس کی عمر بیس سال ہوگئی تو ان کو معلوم ہوئی کہ یہ مسئلہ تو آنکھوں کا نہیں بلکہ یہ سب کچھ تو لائٹ پالوشن ( روشنیوں ) کی آلودگی کی وجہ سے ہے جس کے وجہ سے آسمان پر ستاروں کی قدرتی حسن ماند پڑگئی ہے۔ تو اسی دن سے انہوں نے اس لائٹ پالوشن پر قابو پانے کے لئے اقدامات کا آغاز کیا اور رواں سال مارچ میں سٹاری نائٹ  فاؤنڈیشن پاکستان کی بنیاد رکھی۔

سٹاری نائٹ فاؤنڈیشن کی کام کرنے کے طریقہ کار کے حوالے سے  آئزہ نے کہا  کہ ان کے ساتھ موجودہ وقت میں پچاس  مرد و خواتین رضاکارانہ سٹاف کام کررہا ہے جس میں ہر شعبہ ہائے زندگی سے لوگ شامل ہیں۔  یہ سب اس کام کو ایک فریضے کے طور پر کررہے ہیں کیونکہ وہ سب لائٹ پالوشن کے  نقصانات سے آگاہ ہوچکے ہیں ۔ ان کی مطابق  لوگوں میں لائٹ پالوشن کے حوالے سے وہ مختلف طریقوں سے آگاہی پھیلا رہے ہیں جس میں وہ وقتا فوقتا آن لائن آگاہی وبینارز کا انعقاد کراتے ہیں جس میں پاکستان سمیت بیرونی ممالک سے بھی سینکڑوں کی تعداد میں لوگ شرکت کرتے ہیں اورلائٹ پالوشن کے  ماہرین کے  پریزینٹیشن ( لیکچرز ) سنتے  ہیں پھر ان سےلائٹ پالوشن کے حوالے سے  مختلف سوالات پوچھتے ہیں جس کے ماہرین جوابات دیتے ہیں۔

اس کے علا وہ سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارمز پر سٹاری نائٹ فاؤنڈیشن کے  پیجز اور اکاونٹس بنائے گئے ہیں جس کے کم عرصے میں ہزاروں کے  تعداد مین فالورز ہے جس سے بھی مختلف آگاہی پوسٹس کرائے جاتے ہیں  تاکہ لوگوں کے پاس جب بھی فارغ وقت ہوں تو وہ  ان پوسٹس سے  مستفید ہو سکیں اور اس کو دوسرے لوگوں کے ساتھ بھی شیئر کر سکیں۔ تو ابھی تک سوشل میڈیا پر بھی ان کو بہت اچھی رسپانس آرہی ہے۔ جس سے یہ اندازہ  لگانا مشکل نہیں کے لوگ لائٹس پالوشن کے حوالے سے   معلومات جاننے میں کتنے دلچسپی رکھتے ہیں ۔

سٹاری نائٹ فاونڈیشن کے فراہم کردہ  معلومات کے مطابق  لائٹ پالوشن کے حوالے سے سنگاپور ، چائینہ ، امریکہ اور قطر سب سے زیادہ آلودہ ممالک میں شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ دوسرے ترقیافتہ ممالک میں بھی لائٹ پالوشن کا مسئلہ بڑھتا جارہا ہے اور اب اس میں پاکستان سمیت دوسرے ترقی پذیر ممالک بھی شامل ہور ہے ہیں۔ کیونکہ جتنے بھی نئے نئے تعمیرات ہورہے ہیں تو اس میں لائٹس کا بے جا اور بے ترتیب استعمال ہورہا ہے۔ اس فرہم کردہ اعدادو شمار کے مطابق دنیا بھرمیں ہر سال لائٹ پالوشن میں 10 فیصد اضافہ ہورہا ہے ۔ جس پر کنٹرول کرنا بہت ضروری ہے۔

پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی کے مختلف اقسام پرتحقیق اور مختلف فورمز پر لوگوں میں آگاہی ا جاگر کرنے والے ڈاکٹر لطیف اللہ خٹک نے  لائٹ پالوشن کے  روک تھام کے حوالے سے سٹاری نائٹ فاؤنڈیشن کے  کوششوں کو سراہا اور کہا کہ پاکستان میں پہلی بار  لائٹ پالوشن کے حوالے سے خصوصی طور پر کا م کا آغاز کیا ہے جو قابل تحسین ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ بھی ستاری نائٹ فاؤنڈیشن کے وبینارز میں لائٹ پالوشن کے تحقیق کار کے حیثیت سے شرکت کرتا ہوں اور  اپنے لیکچرز / پریزنٹیشن کے زریعے لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔ انہوں نے لائٹ پالوشن کے نقصانات کے حوالے سے  ہمارے ساتھ تفصیل سے  گفتگو کی اور اس کے جانداروں اور ماحول پر نفی اثرات کے مختلف پہلوں کو بیان کیا۔

ڈاکٹر لطیف کے مطابق لائٹ پالوشن کے حد سے زیادہ استعمال سے ایکو سسٹم ، اور انسانی صحت پر مضر اثرات کرتی ہے۔ لائٹ پالوشن سے روشنی اور تاریکی کے قدرتی ماحول کی ترتیب متاثر ہوتی ہے جس کی نمایاں  اثرات ہمیں شہری علاقوں میں زیادہ دیکھائی دیتی ہے۔

لائٹ پالوشن کے چند اہم وجوہات :لائٹ پالوشن کے کئے وجوہات ہیں جس میں سٹریٹ لائٹس، بیل بورڈز،گاڑیاں، بلڈینگز سمیت چنددیگر چھوٹے زرائع بھی شامل ہے۔

لائٹ پالوشن کے اقسام

1-  گلیر یا چکا چوند:   روشنی یا لائٹس کے زیادہ چمک جو دیکھنے  کے عمل میں خلل کا باغث بنتی ہو۔  اور یہ اکثر  عمارتوں سے باہر ناقص ڈ یزائن شدہ روشنیوں یعنی لائٹس کی وجہ سے ہوتی ہے۔

2- سکائی گلو یا  آسمانی چمک: یہ لائٹ پالوشن وہ قسم ہے جس میں  رات کے وقت  گنجان آباد علاقوں میں حد سے زیادہ چمک  جس سے ستاروں  اور دوسرے آسمانی  جسموں کو دیکھنے کی قوت میں کمی واقع ہوتی ہے ۔

3- لائٹ ٹریس پاس یا روشنی کے خلاف ورزی:  ناپسندید یا مداخلت کرنے والی روشنی  یا ایسے علاقوں کی روشنی جہاں اس کی ضرورت نہ ہو لیکن اس کو وہاں پر  جلایا یعنی لگایا گیا ہوں۔ جیسے کے بیڈروم کے کھڑکی میں جلایا گیا لائٹ وغیرہ۔

4- کلٹر یا بے ترتیبی: روشنیوں یا لائٹس کا ایسا گروپ جو بے ترتیب ہوں۔ یہ اکثر شہری علاقوں میں پایا جاتا ہے جو الجھن اور بے چینی پیدا کرتا ہے۔

لائٹ پالوشن کے مضر اثرات :  لائٹ پالوشن کی وجہ سے انسانوں ، جانوروں،  جنگلی حیات اور فلکیات پر  جو مضر اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔ جن میں چند کا ذکر  کرنا یہاں پر  لوگوں کے آگاہی کے لئے میں ضروری سمجھتا ہوں ۔

1-انسانی صحت پر اثرات:  زیادہ روشنی یعنی لائٹ پالوشن کی وجہ سے دماغ میں موجود  اندرونی گھڑی جو محتاط رہنے اور نیند کو کنٹرول کرتی ہے اس میں خلل پڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے  ذہنی دباؤ میں اضافہ ہوتا ہے اور پچیدہ بیماریوں جسے موٹاپا اور کینسر کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔اور ان بیماریوں سے سالانہ اموات کے شرح میں اضافے کی ایک وجہ لائٹ پالوشن بھی ہے۔

2- جانوروں / جنگلی حیات پر اثرات:  رات کے وقت زیادہ روشنی سے جانوروں /جنگلی حیات اور حشرات کے   زندگیوں کے عادات جیسے کے مائیگریشن، سفر، شکار اور آفزائش کے عمل میں مداخلت ہوتی ہے جس سے اس پر برے اثرات مرتب ہوتی ہے اور وہ  اپنے بقاء کے مسئلہ سے دوچار ہے۔

3- فلکیات پر اثرات:  لائٹ پالوشن سے ستاروں کی چمک اور دوسرے  آسمانی اجسام  کا مشاہد کرنے میں روکاوٹ  پیدا ہوتا ہے اور اس سے  سائنسی تحقیق محدود ہوتی ہے جس اس جدید دور میں ترقی لئے اچھی بات نہیں ہے۔

سٹاری نائٹ فاؤنڈیشن پاکستان وقتا فوقتا آن لائن آگاہی وبینارز  کا انعقاد کراتا ہے جس سے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگ  مستفید ہورہے ہیں۔  زوہا اشفاق ملتان ایمرسن کالج  کی طالبہ ہے ۔ انہوں نے بھی دو ماہ پہلے سٹاری نائٹ فاؤنڈیشن کے ایک ایسے آگاہی وبینار میں شرکت کی ہے ۔ انہوں نے اپنے اس تجربے کے حوالے سے کہا کہ ان کو پہلے اس حوالے سے کوئی معلومات نہیں تھی کہ لائٹ پالوشن کیا ہے اور  یہ اتنا خطرناک بھی ہے ۔ تاہم اس وبینار میں شمولیت کے بعد مجھے نہ صرف لائٹ پالوشن  کے حوالے سے معلومات حاصل ہوئی بلکہ  میں اب نہ صرف خود غیر ضروری لائٹس جلانے سے اجتناب کرتی ہوں بلکہ دوسرے  لوگوں میں بھی اس حوالے سے اگاہی اجاگر کرنے کی کوشش کررہی ہوں۔ میں سٹاری نائٹ فاؤنڈیشن پاکستان کے  کام کو قابل تحسین سمجھتی ہوں اور میں چاہتی ہوں کہ وہ اس  طرح کے  آگاہی وبینارز کو  ہر مہینہ منعقد کریں اور اس کے ساتھ ہر علاقے میں لوگوں کے پاس جاکر ان کو لائٹس آلودگی کے حوالے سے اگاہی دیں اور اس کو جاری رکھیں تاکہ  لائٹ پالوشن پر  جلدی قابو پاسکیں۔

ڈاکٹر لطیف نے کہا کہ لائٹ پالوشن پاکستان کے بڑے شہروں کے علاوہ  چھوٹے شہروں اور قصبوں کا بھی مسئلہ بنتا جارہا ہے اس لئے اس پر قابو پانے کے لئے ہر شہری اس کو اپنا فریضہ سمجھیں اور غیر ضروری لائٹس کا استعمال ترک کریں اور لائٹ پالوشن کی کمی میں کردار ادا کریں کیونکہ لائٹ پالوشن پر قابو پانا اتنا مشکل کام نہیں لیکن اس کے لئے مظبوط عہد کرنا ہوگا۔ اس لئے ہم سب کو چاہیے کہ سٹاری نائٹ فاونڈیشن کے ساتھ اس کار خیر میں مکمل تعاون کریں۔

آئزہ کے بقول وہ اپنی مدد اپ کے تحت سٹاری نائٹ فاونڈیشن کے زریعے محدود وسائل میں لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے کے کوشش کررہے ہیں لیکن لائٹس پالوشن ایک برا مسئلہ ہے جس پر قابو پانے کے لئے زیادہ وسائل کے ساتھ ساتھ  افرادی قوت کی بھی ضرورت ہے اس لئے وہ تمام ڈونر ارگنائزیشن  کے ساتھ ساتھ مخیرحضرات سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ ہماری ساتھ اس کام میں مدد کریں جبکہ اس کے علاوہ عام لوگوں سے بھی  دارخواست ہے کہ سوشل میڈیا کے  علاوہ اپنے اپنے کمیونٹیز میں لائٹ پالوشن کے روک تھام کے لئے آگاہی پیدا کرنے میں کرادار ادا کریں کیونکہ یہ ہم سب کی مشترکہ زمداری ہے۔ اس حوالے سے اگر  کسی کو کسی قسم کی  معلومات کی ضرورت ہوں تو ہمارے ٹیم کے رضاکاروں سے رابطہ کرسکتے ہیں ۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

اس سوال کے جواب میں کہ کیا لوگوں میں لائٹ پالوشن کے ھوالے سے کتنی آگاہی آئی ہے ؟ تو  آئزہ نے کہا کہ  لوگوں میں اب لائٹس پالوٹ کے مضر اشرات کے  بارے میں   کافی حد تک سمجھ  آئی ہے  کیونکہ پہلے ان کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ لائٹ پالوشن کیا ہے اور اس کے کیا نقصانات ہے لیکن اب ان کے معلامات میں اس حوالے سے اضافہ ہوا ہے اب وہ لائٹس پالوشن کے روک تھام میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں اور غیر ضروری لائٹس جلانے سے اجتناب کرہے ہیں لیکن اس اس حوالے سے اور زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستانی کی آبادی 24 کروڑ ہے اور زیادہ تر لوگوں ضرورت سے زیادہ لاےٹس کا استعمال کررہے ہیں  جو مزید وقت لی گی۔

شاہ خالد شاہ جی
شاہ خالد شاہ جی کا تعلق قبائلی ضلع باجوڑ سے ہے۔ اور پچھلے 15 سالوں سے صحافت سے وابستہ ہے۔ وہ ایک ایوارڈ ہافتہ تحقیقاتی جرنلسٹ ہے اور مختلف نیوز ویب سائٹس، اخبارات، جرائد اور ریڈیوز کے لئے رپورٹینگ کا تجربہ رکھتا ہے۔ شاہ جی زراعت، تعلیم، کاروبار۔ ثقافت سمیت سماجی مسائل پر رپورٹنگ کررہا ہے لیکن اس کا موسمیاتی تبدیلی ( کلائیمیٹ چینج ) رپورٹنگ میں وسیع تجربہ ہے۔ جس کے زریعے وہ لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کی کوششوں میں مصرف ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں