خیبر پختونخوا کے درالخلافہ پشاور کے مرکزسے 17کلومیٹر مشرق کے جانب پاک افغان شاہر ہ پر ضلع خیبر کے تحصیل جمرود بازار میں تاریخی دروازہ "باب خیبر ” کے دائیں جانب تقریباً 2 سوسال پرانا قلعہ جو کہ سکھ دور میں تعمیر گیاتھا واقع ہے جہاں پر پاکستان کے فوج کے اہلکار تعینات ہے۔درہ خیبر کے راستے کو افغانستان اور وسطی ایشیاء کے تمام حملہ آوروں نے ہندوستان پر قبضے کے لئے استعمال کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس راستے کو نہ صرف موجود ہ وقت میں بلکہ کئی صدیاں پہلے بھی انتہائی اہمیت حاصل تھا۔
سکھوں کے لئے جمرود کے اہمیت
بابِ خیبر کو جنوبی اور وسطی ایشیاء کا دروازہ اس لئے کہاجاتا ہے کہ یہی وہ راستہ ہے جو کہ ہموار اورکم خرچ پر آپ دہلی سے کابل پہنچ سکتے ہیں۔ تاریخی طور پر اگردیکھا جائے تو شیر شاہ سوری، مغل اور دوسرے حملہ آوروں نے ہندوستان پر چڑھائی کے لئے اس راستے کا انتخاب کیاتھا۔ یہی وجہ ہے جب سترھویں صدی کے وسط میں سکھوں نے اپنے عقیدے کے تحفظ کے لئے انتہائی منظم طریقے سے تحریک چلایا اور 1801ء میں سکھ حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ جس نے خود کو مہاراجہ کا لقب دیا تھا لاہور پر قبضہ کیا اور پنجاب کو ایک خود مختیار ریاست قرار دیا۔ مغربی حصوں پر اپنے تسلط قائم کرنے کے لئے اُنہوں نے یہ ذمہ داری سکھ فوج کے بہادر جنرل ہری سنگھ نلو کو سنوب دیا۔ اُن کے فتوحات تاریخ میں کافی مشہور ہے اور موجود ہ ہری پور شہر اُنہوں نے بسایا تھا جبکہ اٹک سے ہوتے ہوئے پشاور، جمرود، باڑہ اور شبقدر تک علاقے پر سکھوں کی حکمرانی قائم کیں۔
اکتوبر1836 ء میں ہری سنگھ نلو نے افغانستان پر حملے کے لئے منصوبہ بندی شروع کیں لیکن اپنے قدموں کو مضبوط کرنے کے لئے اُنہوں مختلف مقامات پر اپنے فوج کو پرانے قلعوں میں بسایا اور جہاں پر قلعے نہیں تھے اُس کے تعمیر کے لئے اُنہوں نے رنجیت سنگھ سے منظوری کے لیے خطوط بھیج دئیے۔سکھ فوج کے لیے جمرود کئی لحاظ سے اہم تھا کیونکہ ایک تو افغانستان سے آنے والے حملہ آوروں کا راستہ روکنا اور دوسرا یہ کہ یہاں سے افغانستان پر چڑھائی کے لئے ایک آسان راستہ میسرتھا۔مقامی پشتون قبائل سے بھی ہری سنگھ نلوکے لئے ایک خطرہ تھا جس کے لئے اُنہوں نے انتہائی محتاط رویہ اپنایا۔
جمرود قلعے کی تعمیر
ہری سنگھ نلو نے دسمبر 1836ء میں خود اپنے ہاتھوں سے جمرود قلعے کا سنگ بنیاد رکھا اور تعمیراتی کام میں چھ ہزار فوجیوں نے حصہ لیا۔اُن کے جنگی حکمت عملی اور طرز حکمرانی میں مہارت سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ اُنہوں نے 45 سے 55دنوں کے مختصر دورانیہ میں قلعے کے تعمیر مکمل کرلی۔قلعے کے دیواروں میں مٹی اور پتھر استعمال کئے گئے۔نہ صرف آج بلکہ صدیوں سے جمرود میں پینے اور دوسرے ضروریات پورا کرنے کے لئے پانی مسئلہ چلتا آرہا ہے چونکہ اُس وقت آ بادی کم تھی تو افغانستان سمیت تیراہ تک مقامی آبادی پیدل سفر کرکے جمرود کے علاقے میں ایک چشمہ پر ٹھہر کر تھکاوٹ دور کرتے تھے۔قلعے کے تعمیر کے لئے بھی پانی یہاں سے لیاگیا لیکن ہری سنگھ نے مقامی قبائل کو اُس کے 1200روپے معاوضہ ادا کردیاتھا۔ ہنگامی صورتحال میں پانی کے ضروریات پوراکر نے کے لئے قلعے کے اندر چارسو میٹر گہر اکنواں کوداگیا جو آج بھی موجود ہے اور اس کے ساتھ ایک زیر زمین تالاب بھی تعمیر کرائی گئی جس کو بعد میں انگریز دور میں قیدخانے کے طور استعمال کیا جاتا تھا۔
سکھوں کے بعد انگریز دور حکومت میں صاف پانی مسئلہ جمرود میں برقرار رہا لیکن اُس وقت کے حکمرونوں نے جبہ کے علاقے میں ایک ایسے منصوبے پر کام جہا ں پر ڈیم کے تعمیر کے لئے منصوبہ بندی مکمل ہوچکا ہے۔ چورہ اور علی مسجد سے آنے والے پانی جس مقام پر آکٹھے ہوتے تو اُس مقام سے چند میٹر مشرق کے جانب کئی کنوایں کھودیں گئے جس میں پانی فلٹر ہونے لئے اردگردانیٹوں کے دایور دکھڑیں کیں جن کے تمام پانی سب سے بڑے کنواں میں جمع کرنے کے لئے انتظام کیا گیا جہاں سے پختہ نالی بنا کر جمرود طرف پانی پہنچے کا بندوبست کریا گیا جس کے لئے ٹیڈی بازار کے قریب ولی بابا کے مقام پر ایک بڑاتالاب بنایا گیا جہاں سے ایک پائپ میں پانی تحصیل اور دوسرا میں قلعے تک پہنچائے گئے تھے۔ اس منصوبے کے اثر جگہ جگہ موجود ہے۔
جمرود قلعہ کا نقشہ پشاور کے قلعہ بالاحصار سے ملتا جلتا ہے کیونکہ مرکزی عمارت کے اردگرد حفاظتی دیوار تعمیر کیا گیاہے۔دیواروں کے موٹائی 6 گز جبکہ اونچائی 12گزہے، جس پر مختلف اطراف میں نظر رکھنے کے لئے برج تعمیر کرائے گئے جن پر توپ خانہ رکھے گئے اور ایسے راستے تعمیر کرائے جس پر سامان سے لدے ہوئے خچر باآسانی برج تک پہنچ سکتا تھا۔
اُس دور میں یہ الگ برج تعمیر ائی گئی جس کی لمبائی 12فٹ تھااور اُس کو ہری سنگھ نلوہ کے نام سے موسوم کردیا گیا، مقامی آبادی کواُس کو کچہ گھڑی بھی کہتے ہیں۔
جمرود قلعہ کو انتہائی اونچا مقام پر تعمیر کیا گیا جہاں سے مشرق کے طرف درہ خیبر، جنوبی میں باڑہ اور شمال میں مہمند تک کے علاقے نظر آتے تھے۔باقاعدہ طور پر جمرود قلعے کا نام "فتح گڑھ "رکھا گیا۔ چونکہ افغانستان سے مہمند اور وادی تیرا ہ سے آفریدی لشکر کشی کے خطر ے کے پیش نظرباڑہ اور شبقد ر می بھی سکھ دور میں قلعے تعمیر کرائی گئی جو کہ موجودہ وقت میں ایف سی کے زیر استعمال ہے۔
مغرب میں سکھ حکمرانوں کو بڑا دھچکا
1837ء میں سردی کے موسم گزرجانے کے بعد رنجیت سنگھ کے نواسے نونہال سنگھ کی شادی کی تیاری شروع ہوئی اور کئی دن جشن جاری رہنے کے ساتھ ایک چاک وچوبندفوجی دستے کی جانب سے پریڈ پیش کرانے کا فیصلہ ہوا اور اس سلسلے میں ہری سنگھ کوحکم ہوا کہ جمرود قلعے میں موجود نفری سے ایک فوجی دستہ بمع جنگی سازوسامان لاہوربھیج دیا جائے۔حکم کے مطابق بڑی تعداد میں فوجی بھیج دئیے گئے اور انتہائی کم نفری محدود سازوسامان کے ساتھ قلعہ میں رہ گیا جو کہ انتہائی خطرناک فیصلہ تھا۔مخالفین کے جانب سے اس پوری عمل کوباریک بینی سے دیکھا جارہاتھا۔
اُن دنوں میں ایک انگریز آفیسر”فاسٹ” جو کہ انتہائی ذہن تھا درہ خیبر کے راستے افغانستان جاتے ہوئے ضلع خیبر کے علی مسجد کے مقام پر افغان جنگجو محمد اکبر کے ساتھ ملاقات کرکے پوری صورت تحال سے اُن کو آگاہ کردیا۔ اس پوری صورتحال کا جائز لینے کے بعد افغان فوج نے 30 اپریل 1837ء کو پوری قوت کے ساتھ جمرود قلعے پر حملہ کیا جس میں اُن کو مقامی قبائلیوں کی مدد بھی حاصل تھی۔حملے سے پہلے ہری سنگھ کو خفیہ اطلاع موصول ہوئی تھی اور اُس نے مدد کے لئے اپنے مخبر کے مدد سے رنجیت سنگھ کو خط بھیجا، لاہور میں ایک انگریز آفیسر کو ایسے حالت میں ملا کہ وہ نشے میں تھا اور رنجیت کو خط بروقت موصو ل نہ ہوسکا۔
جمرد کے مقام پر شدید لڑائی ہوئی جس میں خود ہری سنگھ نلوہ شدید زخمی ہوا اور طبی امداد کے لئے اُن کے زیر استعمال دو میں سے ایک کمرے میں رکھا گیا لیکن اُنہوں نے زندگی کی بازی ہاری وہی پر اُن کے آخری رسومات اداکردئیے گئے۔ آج بھی قلعے کے اندار اُن کے زیراستعمال دو کمرے اور آخری یادگار موجود ہے جو کہ سکھ مذہب کے پیروکاروں کے انتہائی اہمیت رکھتے ہے۔اس کاروائی کے ساتھ مغرب میں سکھ حکمرانی کا سورج عروب ہوا۔
پہلی پاکستان کے سکھ برادری کا جمرود قلعے کا سیر
جمرود قلعے میں سیکورٹی اہلکار تعینات ہونے کی وجہ سے عام لوگوں کے جانے کی اجازت نہیں لیکن کورکمانڈر پشاور مظہر شاہین کے خصوصی ہدایت پر 12 دسمبر 2019 کو سکھ برادری کے افرد کو قلعے کاسیر کرائی گئی۔ وفود کی سربراہ اور سکھ رہنماء بابا جی گورپال سنگھ نے کہاکہ چند دن پہلے کورکمانڈر پشاور کے ساتھ ملاقات میں خیبر، اورکزئی، کرم اور پشاور میں سکھ برادری کو درپیش مسائل کے حل سمیت خیبر پختونخو کے مختلف علاقوں اور قبائلی اضلاع میں سکھ دور کے تاریخی مقامات کے سیر کرانے کا بھی مطالبہ کیا گیاتھا۔ اُنہوں نے کہا کہ کورکمانڈرنے تمام مطالبات پر فوری عمل شروع کر دیااور پہلے فرصت میں پچیس افراد پرمشتمل سکھ برادری کے ایک وفد کو قلعے کا سیرکرایاگیا۔اُن کے بقول سیکورٹی حکام نے اُن کا گرم جوشی سے استقبال کیا اور وہاں قلعے کے تمام حصوں کی بارے میں معلومات بھی فراہم کی گئی۔
دلیبر سنگھ بھی اُس وفو د میں شامل تھا جس نے جمرد قلعے کی سیرکیا، اُن کا کہناتھا کہ قلعے میں ہری سنگھ نلو کے زیر استعمال دو کمرے اب بھی موجود ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک میں وہ زخمی ہونے کے بعد آرام کرتے رہے جبکہ دوسرے کو وہ روزمرہ کے کاموں کے لئے استعمال کر تا تھا۔ یہاں پر ہر سنگھ نلو کے آخری یادگار بھی موجود ہے جہاں پر اُس نے آخر ی سانس لئے تھے اور سکھ مذہب کے مطابق اُن کے روسومات اداکردئیے گئے جو کہ سکھ مذہب کے پیروکاروں کے لئے انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔
پوری قلعے اور اُس میں موجور ہر ی سنگھ نلو کے زیر استعمال مقامات کے دوبارہ بحالی اور حفاظت کے حوالے سے سکھ رہنماؤں نے سیکورٹی اہلکاروں اورمحکمہ آثارقدیمہ کے مد د سے تعمیر کرنے کا مطالبہ کیا جس پر حکام نے اُن کو یقین دلایا کہ جلد اس حوالے سے متعلقہ محکمے کے مدد سے کام شروع کردیا جائے گا۔ سکھ برادری وفودنے کورکمانڈر پشاور دوسرے سیکورٹی حکام کا شکریہ ادا کیا اور سکھ مذہب کے دور میں تعمیر دوسرے تاریخ مقامات کے سیر کے لئے بھی جلد ازجلد انتظامات کی اُمید ظاہر کردئیے۔
نوٹ: یہی معلومات مصنفہ صفیہ حلیم،وادی تیراہ کے106سالہ دایال سنگھ جو 2018کے آخر میں وفات پائے گئے، محکمہ اثر قدیمہ اور محققین سے حاصل کیے گئے۔