قبائلی ضلع باجوڑ جو صوبہ خیبر پختون خوا کے شمال مغرب میں افعانستان کے سرحد پر واقع ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے متاثرہ علاقوں میں شامل ہے جہاں پر بائیوڈائورسٹی کو کافی نقصان پہنچ چکا ہے جس کے وجہ سے معمولات زندگی میں نمایاں تبدیلیاں واقع ہوچکی ہے ۔
باجوڑ سے تعلق رکھنے والا نوجوان زوالوجسٹ اور بائیوڈائیورسٹی کے ماہر وقاص احمد نے بائیو ڈائیورسٹی کے مختلف پہلو اور اس کو پہنچنے والے نقصانات کے بارے میں ہم سے تفصیلی گفتگو کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بائیو ڈائیورسٹی یعنی (حیاتیاتی تنوع) یونانی زبان کا لفظ ہے جو دو الفاظ کا مجموعہ ہے جس میں بائیو زندگی کو کہتے ہیں اور ڈائیورسٹی مختلف اقسام کو کہتے ہیں جو اس کرہ ارض پر موجود ہے۔ مختلف قسم کے جانداروں کے اس دنیا میں رہنے کو بائیو ڈائیورسٹی کہتے ہیں ۔
بائیو ڈائیورسٹی دنیا میں رہنے والے تمام جانداروں کے بقا کے لئے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اس میں ایک جاندار کی زندگی دوسرے کے لئے ضروری ہے۔ اگر دنیا میں ایک جاندار ناپید ہو جائے یا اس کی تعداد انتہائی کم ہو جائے تو اس سے باقی جانداروں کی زندگی پر براہ راست اثر ہوتا ہے۔
وقاص احمد کے مطابق اس کرہ ارض پر موجود ہر جاندار خواہ وہ جسامت میں چھوٹا ہو یا بڑا اس کی اپنی جگہ پر ایک اہمیت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ اگر دیکھا جائے تو فنجائی اور پیراسائیٹ دونوں چھوٹے جسامت والے جاندار ہیں لیکن اگر اس کی تعداد کم ہوتی ہے تو ہمیں بہت سے بیماریوں کے لئے ادویات کی قلت کا سامنا کرنا ہوگا کیونکہ بہت سے بیماریوں کے لئے اس سے دوائیاں بنائی جاتی ہے۔ اس طرح جن جانوروں کے ہم گوشت کھاتے ہیں یا دودھ استعمال کرتے ہیں تو اس میں کمی کے ساتھ بھی ہم کئی طرح کےمسائل کا شکار ہو سکتے ہیں اور فوڈز سیکورٹی کے مسائل بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔
جب ہم نے وقاص احمد سے معلوم کیا کہ بائیو ڈائیورسٹی اگر اتنی اہمیت کی حامل ہیں تو پھر اس کو نقصان کن چیزوں سے پہنچ رہا ہے اور اس کو ابھی تک کتنا نقصان پہنچ چکا ہے۔ تو اس حوالے سے انہوں نے چند عوامل کا ذکر کیا جو ان کے نظر میں اس کو نہ صرف عام لوگوں کے علم میں لانا چاہئے بلکہ اس کی طرف حکومت اور ماحولیات پر کام کرنے والے غیر سرکاری تنظیموں کی نوٹس میں بھی لانا بہت ضروری ہے۔
پوری دنیا کی طرح باجوڑ میں بھی کئی عوامل ایسے ہیں جس سے بائیو ڈائیورسٹی کو نقصان پہنچ رہا جس میں انسان برابر کے شریک ہیں۔ بائیو ڈائیورسٹی کو نقصان پہنچانے والے چند اہم عوامل مندرجہ ذیل ہیں۔
(1) جنگلات کی کٹائی : خیبرپختونخوا اورخصوصاً باجوڑ میں ہمارے صدیوں پرانے جنگلات کی بے دریغ کٹائی جاری ہے جس کی وجہ سے ہمارے پہاڑ اور بنجر علاقے چٹیل میدان میں تبدیل ہورہے ہیں ۔ جس کی وجہ سے جنگلی حیات کی نسل ختم ہورہی ہے جس سے بائیو ڈائیورسٹی کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
(2) آبادی میں اضافہ: پاکستان کے عموما اور باجوڑ کے خصوصا آبادی میں بہت تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے اور آبادی میں اضافہ اب بڑے شہروں تک محدود نہیں رہا اس میں دیہات بھی تیزی سے شامل ہو رہے ہیں۔ آبادی میں اضافے کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔ کیونکہ بڑھتی ہوئی آبادی اپنے ضروریات زندگی پورا کرنے کے لئے جنگلات کی کٹائی کرتی ہے اور غیر قانونی شکار کے ساتھ ساتھ گرین ہاوس گیسسز کا اخراج کرتی ہے جس سے کسی نہ کسی شکل میں وہ بائیو ڈائیورسٹی کو نقصان پہنچا رہے ہیں ۔
(3) درجہ حرارت میں اضافہ: موسمیاتی تبدیلی کے وجہ سے پورے پاکستان کی طرح باجوڑ میں بھی درجہ حرارت میں ہر سال اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے جو عموما سرد علاقوں میں شمار ہوتا تھا ۔ یہاں پر درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گرمی کی شدت میں اضافہ ہوا ہے اور اس کا دورانیہ بڑھ گیا ہے۔ جبکہ دوسری طرف سردی کے شدت میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس کا دوارنیہ کم ہوا ہے ۔جس کی وجہ سے باجوڑ میں موجود ایسے چھوٹے چھوٹے حشرات و جاندار جو اس کو برداشت نہیں کرسکتے وہ اس دنیا سے ختم ہو رہے ہیں اور یا ختم ہوئے ہیں جس کی بقاء بائیوڈائیورسٹی کے لئے ضروری ہے ۔ جس سے ایکو سسٹم متاثر ہوا ہے ۔
(4) ماحولیاتی آلودگی : کرہ ارض پر انسان ہر روز آلودگی کا ایک بڑا حصہ پیدا کررہا ہے جس سے ماحول کو بہت بڑا نقصان پہنچ رہا ہے۔ آلودگی کے کئی شکلیں ہے جس میں آبی آلودگی، فضائی آلودگی، صنعتی آلودگی وغیرہ یہ سب بائیو ڈائیورسٹی پر برے اثرات مرتب کررہے ہیں۔ آبی آلودگی سے دریائے سندھ میں موجود ڈولفن مچھلی کے نسل کو سنگین خطرات درپیش ہے اور وقاص احمد کے مطابق اس سے وہ نابینا ہورہے ہیں جبکہ دوسرے مچھلیوں کی تعداد میں نمایاں کمی ہوئی ہے اور باجوڑ میں تو اب ندیوں میں مچھلی بلکل ناپید ہوچکے ہیں۔
صنعتی الودگی جو باجوڑ میں زیادہ تر ماربل فیکٹریوں سے خارج ہورہی ہے باجوڑ میں آبی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ ہے جو دن بدن سنگین ہوتا جارہا ہے ۔ اس کے علاوہ ماحولیاتی الودگی بڑے شہروں کی طرح باجوڑ میں بھی ایک سنگین مسئلہ بنتا جارہا ہے اور یہاں پر بھی ائیر کوالٹی انڈکس مضر صحت کے درجہ میں پہنچ چکی ہے جس سے جانداروں کے بقا کو خطرات لاحق ہے۔ان بڑے بڑے چند عوامل کے علاؤہ بھی کئی عوامل ہیں جس سے بائیو ڈائیورسٹی اور ایکو سسٹم کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ جس کی سدباب کرنا بہت ضروری ہے۔
وقاص احمد سے جب پوچھا گیا کہ بائیو ڈائیورسٹی کو نقصان پہنچنے والے عوامل کو کس طرح کنٹرول کیا جاسکتا ہے تو اس کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ بائیو ڈائیورسٹی کو بچانے کے لئے چند اقدامات کی اشد ضرورت ہیں۔ ان اقدامات کو اٹھانا حکومتوں کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کو بھی اٹھانا چاہئے کیونکہ یہ عام لوگوں کے بھی بس میں ہیں یعنی اس کے لئے بھی اس کا کرنا آسان ہے ۔
آبادی پر کنٹرول کرنا: پورے ملک اور باجوڑ میں آبادی جس رفتار سے بڑھ رہی ہے اس کو کنٹرول کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ اس میں ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے ۔ یہ مسئلہ صرف حکومت پر نہیں چھوڑنا چاہیے اس کے لئ ہر فورم پر آگاہی اقدامات کرنا چاہئے۔
بے ترتیب تعمیرات پر پابندی لگانا : آج کل ملک کے دوسرے حصوں کی طرح باجوڑ میں جس تیزی کے ساتھ بے ترتیب تعمیرات ہورہی ہے اس پر فوری قابو پانے کی ضرورت ہے ۔ قلعہ نما گھروں کے بجائے فلیٹ نما گھروں میں اضافہ کرنا چائیے اور اس کو ترجیحی بنیادوں پر تعمیر کیا جانا چاہیے اور اس میں حکومت کے علاوہ پرائیویٹ سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کرنا چاہئے۔ اس کے ساتھ زرعی زمینوں پر تعمیر ممنوع قرار دیا جائے تاکہ بے ترتیب تعمیرات سے بائیو ڈائیورسٹی کو پہنچنے والے نقصان کو کم سے کم کیا جاسکیں ۔
جنگلات کے رقبے میں اضافہ کیا جائے: باجوڑ سمیت پورے خیبر پختون خواہ میں جنگلات کے رقبے میں کمی کی وجہ سے کئی جاندار ناپید ہوگئے اور یا ناپید ہونے کی قریب ہے ان کے ایکو سسٹم متاثر ہوا ہے۔ اس لئے بائیو ڈائیورسٹی کے خوبصورتی کو قائم رکھنے کے لیے زیادہ سے زیادہ رقبے پر جنگلات لگایا جائے اور جنگلات کی کٹائی پر سخت سےسخت سزا دی جائے تاکہ کوئی بھی آئندہ اس طرح دلیری سے جنگلات کی کٹائی نہ کریں۔ جنگلات کی تحفظٖ کے لئے قبائلی روایت "ناغہ” کو نافذ کیا جائے۔
آلودگی پھیلانے والے گاڑیوں پر پابندی لگائی جائیں : فضائی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ دھواں چھوڑنے والے گاڑیاں ہے جس سے بائیو ڈائیورسٹی متاثر ہورہی ہے ۔ اس سے انسان اور دوسرے اڑنے والے جاندار اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے ۔ اس لئے باجوڑ سمیت پورے ملک میں دھواں چھوڑنے والے گاڑیوں پر مکمل پابندی لگائی جائے اور الیکٹرک اور سی این جی سے چلنے والے گاڑیوں کو عام کیا جائے اس کے ساتھ صنعتی الودگی پر قابو پانے کے لئے تمام فیکٹریوں کے مالکان کو پابند کیا جائے کہ صنغتعی فضلے کو مناسب جگہ پر ٹھکانے لگائیں۔ ان تمام اقدامات کو موثر بنانے کے لئے پرائیویٹ سیکٹر کی سرمایہ کاری کے لئے ٹھوس منصوبہ بندی کیا جائے۔