سابقہ فاٹا جو سات ایجنسیز اور چھ ایف آرز پر مشتمل وفاق کے زیرانتظام علاقہ تھا۔  تاہم31 مئی 2018 کو جب قبائلی ایجنسیز (فاٹا) کا مرجر(انضمام )صوبہ خیبر پختون خواہ کے ساتھ ہوا تو قبائلی عوام کے مطابق اس مرجر سے ان کے زندگیوں پر مختلف پہلو سے اثرات ہوئے ہیں۔

ان کے مطابق اس سے ان کے سیاست ، کاروبار اور رسم ورواج پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ باجوڑ بھی ایک قبائلی ایجنسی تھا لیکن مرجر کے بعد اب یہ بھی ایک ضلع بن چکا ہے ۔ باجوڑ کی آبادی 2023 مردم شماری کے مطابق 1,287,960  بارہ لاکھ ستاسی ہزار چھ سو ساٹھ افراد پر مشتمل ہے۔ مرجر کے بعد کی حالت کے بارے میں باجوڑ کے مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں سے ہم نے بات کی اور اس سلسلے میں ان کی آراء معلوم کرنے کی کوشش کی گئی ہیں۔ ان کی طرف سے ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔

فاٹا مرجر کے حوالے سے پاکستان پیپلزپارٹی باجوڑ کے سینئیر رہنماء اورنگزیب انقلابی نے بتایا کہ فاٹا مرجر (انضمام) کے کئی مثبت اثرات ہوئے ہیں۔ قبائلی اضلاع میں عدالتوں نے کام شروع کیا ہے جو بہت بڑی تبدیلی ہے۔ اس کے ساتھ جرگہ کو بھی قانونی حیثیت دی گئی ہیں اورالٹرنیٹیو ڈیسپیوٹ رزلوشن (اے ڈی آر) کونسل کے زریعے جرگہ کو بحال رکھا ہیں جو اچھی بات ہے۔

تمام قبائلی اضلاع سمیت باجوڑ میں پہلی بار بلدیاتی انتخابات کا پرامن انعقاد ہوا ہے۔ تویہ مرجر کی وجہ سے ہی ممکن ہوا ہے اگر فاٹا کا مرجر صوبہ خیبر پختون خواہ کے ساتھ نہ ہوتی تو آج یہاں پر یہ انتخابات بھی نہ ہوتے۔ اسی طرح کئی نئے  سرکاری محکموں نے یہاں پر کام شروع کیا ہے جو پہلے یہاں پرنہیں تھے جس میں ریسکیو 1122، انڈسٹریز، مینرل،سروس ٹو انفارمیشن،ٹی ایم ایز اوراسی طرح کئی دوسرے محکمے ہیں ۔

تو اس کے اثرات ہمارے لوگوں پر اچھے ہیں بنسبت پہلے کے۔ صرف کاروبار پر اس کے اثرات اچھے نہیں ہوئے اور تاجر برادری کے مشکلات میں اضافہ ہوا ہے لیکن مجھے امید ہے کہ وہ بھی وقت کے ساتھ حل ہوگی ۔

فاٹا مرجر کے لئے سب سے زیادہ سرگرم کردارنوجوانوں نےادا کیا تھا اور اب بھی اس کے سب سے بڑے حامی ہے۔ اس حوالے سے باجوڑ یوتھ جرگہ کے سابق چیئرمیں، صدر خار بازار اور یوتھ رہنماء واجد علی شاہ نے کہا کہ مرجر سے نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقعوں میں اضافہ ہوا ہے اور اس کو اپنی آواز ہر فورم تک پہنچانے میں آسانی ہوئی۔

واجد کے مطابق پہلے تو ایف سی آر کا کالا قانون تھا جس میں مخصوص طبقہ کومراعات حاصل تھیں لیکن اب ایسا نہیں ہے۔صوبائی اسمبلی میں باجوڑ سمیٹ تمام قبائلی اضلاع کو بھر پور بمائندگی ملی ہے اور یہاں پر اب بدلیاتی الیکشن بھی ہوا ہے۔ جس میں نوجوانوں کے لئے ہر یونین کونسل میں الگ سیٹیں مختص کئے گئے ہیں۔ تومیں سمجھتا ہوں کہ اس نے نوجوانوں کے زندگی میں مثبت تبدلی لائی ہے اورہم اس میں مزید بہتری کے لئے کوششیں جاری رکھیں گے۔

فاٹا مرجرسے قبائلی ثقافت پربھی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس بارے میں پختون قبائلی ثقافت پرکام کرنے والے مقامی صحافی نظیر گل نادان نے کہا کہ وہ باجوڑ کے لوگوں کے ثقافت پرگہری نظر رکھتے ہیں اوراس پرچند سال پہلے میں نے ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ تاہم جہاں تک فاٹا مرجر کا ثقافت پراثرات کی بات ہے تو یہ صرف مرجر کے دوران نہیں ہوئے بلکہ یہ دو عشرون سے زوال پذیر ہونا شروع ہوئے تھے۔

اور مرجر کے بعد بھی اس میں کمی نہیں آئی اور ثقافت کو مزید نقصان پہنچا کیونکہ یہاں پر کلچر محکمے نے کام شروع کیا ہے لیکن ابھی تک ثقافت کی فروع کے لئےعملی کام نہیں کیا او اپنا کام صرف کاغذی کاروائی تک محدود کر رکھا ہے۔ پہلے ادبی محافل کھلےعام ہوتے تھے لیکن اب چند لوگوں کو بلا کر اس کومخصوص ہال میں کیا جاتا ہے جس کوعام لوگوں کی رسائی نہیں ہوتی جو اچھی بات نہیں ہے۔ اسی طرح جرگہ کی وہ حیثیت اب نہیں رہی جو پہلے ہوتا تھا۔

تحصیل سلارزئی سے تعلق رکھنے والا انوربادشاہ نے فاٹا مرجر کے بعد کے حالات بارے میں اپنی ذاتی تجربہ کے تناظر میں بتایا کہ ان کے زمین پر کسی نے جھوٹا دعویٰ کیا ہے اور انہوں نے اسی جھوٹے دعوی کے وجہ سے ایف سی آر قانون کے تحت 10 سال کیس چلایا لیکن چند جرگہ ممبران نے رشوت کے وجہ سے میرے خلاف فیصلہ کیا تھا جس کو میں نے ٹریبونل میں چلینج کیا جس نے اس فیصلے کو کالعدم کیا اور اب مرجر کے بعد میرا کیس عدالت میں چلا رہا ہے ۔

انور کے مطابق اب مجھے امید ہے کہ اب مجھے انصاف ملی گی۔ کیونکہ اب میرا وکیل بہت ایمانداری سے کیس لڑرہا ہے۔  انوار نے یہ بھی بتایا کہ جرگہ ہماری قدیم روایت ہے جو گاؤں کے سطح پر ہوتی ہے لیکن یہاں پر سرکاری جرگے ہوتے تھے جس میں پولیٹیکل ایجنٹ کی طرف سے بھی جرگہ ممبران نامزد ہوتے تھے جو رشوت لیکر ناانصافی پر فیصلے کرتے تھے جو میرے ساتھ کئی بار ہوا تھا۔

باجوڑ سمیت تمام قبائلی ملک فاٹا مرجر کے شروع سے مخالف ہے  اور انضمام بلجر کے خلاف تحریک چلانے کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ بھی گئے ہیں۔ باجوڑ کے تحصیل برنگ سے تعلق رکھنے والےاتمانخیل قومی اتحاد کے مرکزی رہنماء اورچیف آف اتمانخیل ملک بہادر شاہ نے فاٹا مرجر کے بعد کے حالات کے متعلق کہا کہ اس سے قبائلی عوام کے محرومیوں میں مزید اضافہ ہوا ہے کیونکہ اس سے ہمارا جرگہ سسٹم متاثر ہوا ہے اب لوگ عدالتوں کے چکر لگارہے ہیں جبکہ پہلے مقامی جرگے جلدی فیصلے کرتے تھے اور لوگوں کو ان کے دہلیز پر انصاف فراہم کرتے تھے۔

مقامی جرگے لوگوں سے کوئی پیسے نہیں لیتے تھے بلکہ جرگہ ممبران اپنے وقت اورپیسے خرچ کرتے تھے اور لوگوں کے آپس کے اختلافات کو ختم کرتے تھے ۔ اب حکومت نے جرگہ کے اہمیت کے پیش نظر الٹرنیٹیو ڈیسپیوٹ رزلوشن  (اے ڈی آر) کونسل کا قیام عمل میں لایا ہیں اور اس کو فعال کیا ہے تاکہ لوگوں کے تنازعات کا حل جلد ممکن ہو سکیں۔ اسی طرح ہمیں مرجر کے وقت سبز باغ دیکھائے تھے کہ یہاں پر بہت ترقی ہوگی تعلیم، صحت اور دیگر سہولیات قبایلیوں کو ان کے گاؤں کے سطح پر دستیاب ہوگی لیکن چھ سال ہوگئے اور یہاں پر ترقی کا ایک بھی بڑا منصوبہ شروع نہ ہوسکا۔

بہادر شاہ نے بتایا کہ ہم جمہوری لوگ ہیں اور ہم ترقی کے مخالف نہیں لیکن ترقی کو حقیقی معنوں میں ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم مرجر کے اس لئے مخالفت کررہے ہیں کے قبائلی عوام سے ان کی رائے نہیں پوچھی گئی ۔ اس لئے ہم ریفرنڈم کا مطالبہ کرتے ہیں کہ قبائلی عوام سے پوچھا جائے کی وہ مرجر چاہتے ہیں کہ نہیں۔ اس لحاظ سے ہمارا اور جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا موقف ایک ہے اور ہم اس کے فاٹا کے متعلق موقف کی تائد کرتے ہیں۔

فاتا مرجر کے خلاف ہمارا کیس سپریم کورٹ میں چل رہا ہے اور ہمیں امید ہے کہ اس میں ہمیں کامیابی ملی گی اور انضمام بلجبرمنسوخ ہوگی۔

فاٹا مرجر کے سب سے زیادہ مخالفت سیاسی پارٹیوں میں جمیعت علمائے اسلام(ف) نے کی تھی اور آج بھی  کررہے ہیں۔ اس نے رد انضمام کے نام سے ایک مہم بھی چلایا تھا اوراب بھی ہر فورم پراس کے مخلفت کررہے ہیں ۔ ان کا موقف ہے کہ کہ فاٹا مرجر کے دوران قبائلی عوام کے رائے معلوم نہیں کی گئی اس لئے یہاں پر ریفرنڈم کرایا جائے اور اس کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے۔

جمیعت علمائے اسلام(ف) ضلع باجوڑ کے ضلعی رہنماء اور تاجر برادری صدیق آباد پھاٹک بازار کے سابق صدرحاجی اکبر جان نے کہا کہ ہم فاٹا مرجر کے پہلے بھی خلاف تھے اورآج بھی ہے جس کی کئی بنیادی وجوہات ہے۔ اکبر جان کے مطابق فاٹا مرجر سے قبائلی عوام کے حق پر ڈاکہ ڈالا گیا۔ کیونکہ معدنیات اور جنگلات پر صوبائی حکومت کی طرف سے قبضہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں پر جر گہ سسٹم ختم ہوا اور اب عدالتوں کے چکروں میں لوگوں کو الجھا دیا ہے ۔

اکبر کے مطابق ان کے عمر میں ایک سال کا فرق تھا اوراس چھوٹی سی کام کے لئے فارم ب بنانے میں ان کے 30000 ہزار روپے اور 9 ماہ لگے اگر یہ پرانا قانون ہوتا تو یہ ایک دن کا کام تھا۔ اسی طرح تھانہ کلچر بالکل ہماری روایت کے مطابق نہیں ہے وہاں پر کرپشن کے زریعے جھوٹے ایف آئی آر درج ہوتے ہیں اسی طرح تاجر برادری کو تنگ کیا جاتا ہے اس سے حکومت نے ٹیکس کے مطالبات شروع کئے۔

اسی طرح میٹر لگوانے کے لئے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف حکومت نے قبائلی عوام کو کچھ نہیں دیا۔ افغانستان کے ساتھ ہمارے تجارتی راستے بند ہیں جو پہلے کھولے ہوتے تھے۔ بندش سے ہماری کاروبار کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے۔  تو اس لئے ہم کہتے ہیں کہ مرجر سے ہمارے مسائل کم نہیں ہوئے بلکہ اس میں مزید اضافہ ہوا ہے ۔ اور مرجر ہمیں بلکل منظور نہیں ہیں۔

عام لوگوں کی طرح علماء بھی فاٹا مرجر کے حامی دیکھائی دے رہے تھے اس حوالے سے مولانا ذاکر اللہ نے کہا کہ وہ پہلے فاٹا مرجر کے بہت بڑے حامی تھے اور ہر فورم پر ان کے لئے آواز اٹھاتے تھے لیکن اب چھ سال ہو گئے ہیں اور مرجر کے بعد کے حالات دیکھیں ہے تو دل برداشتہ ہو چکا ہوں کیونکہ باجوڑ میں بدامنی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

ہمارے سینیٹ کے سیٹیں ختم ہو ئے ، طلباء کے سکالرشپس اور کوٹہ سسٹم ختم ہوا ہے ۔اوراس کے ساتھ مہنگائی اور بے روزگاری بھی بڑی ہے اس لئے میں حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں آمن و آمان اور بے روزگاری پر قابو پانے کے لئے فوری اقدامات اٹھائے تاکہ لوگوں میں مرجر کے بعد پیدا ہونے والی احساس محرومی ختم ہو جائے۔

 

 

شاہ خالد شاہ جی
شاہ خالد شاہ جی کا تعلق قبائلی ضلع باجوڑ سے ہے۔ اور پچھلے 15 سالوں سے صحافت سے وابستہ ہے۔ وہ ایک ایوارڈ ہافتہ تحقیقاتی جرنلسٹ ہے اور مختلف نیوز ویب سائٹس، اخبارات، جرائد اور ریڈیوز کے لئے رپورٹینگ کا تجربہ رکھتا ہے۔ شاہ جی زراعت، تعلیم، کاروبار۔ ثقافت سمیت سماجی مسائل پر رپورٹنگ کررہا ہے لیکن اس کا موسمیاتی تبدیلی ( کلائیمیٹ چینج ) رپورٹنگ میں وسیع تجربہ ہے۔ جس کے زریعے وہ لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کی کوششوں میں مصرف ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں