
میرے حیرانگی پر یقینا اپ بھی حیران ہوئے ہونگے لیکن میرے حیرانگی کا وجہ لفظ حیران نہیں ہے بلکہ میرے حیرانگی کا اصل وجہ باچہ زادہ حیرانؔ ہے۔ ضلع باجوڑ کے تحصیل خار کے ایک پسماندہ گاؤں ا سلام ڈھیری سے تعلق رکھنے والا55سالہ باچہ زادہ حیرانؔ پشتو ادب کا وہ ستارہ ہے جس کو پشتو ادب سے تعلق رکھنے والے اکثر لوگ جانتے ہیں۔
باچہ زادہ حیرانؔ کا شمار باجوڑ کے ادب کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اس وقت میں شاعری شروع کی تھی جب شاعری کو نہ صرف اس کے گھر والے بلکہ عام لوگ بھی وقت کا ضیاع تصور کرتا تھا۔ لیکن انہوں نے کسی بات کو بھی خاطر میں نہیں لایا اور اپنے شوق کو دوام بخشا۔ جس چیز کے وجہ سے میں حیران ہوں اور میرے حیرانگی کا وجہ ہے تو اس کو جان کر اپ بھی ضرور حیران ہونگے۔
آپ کے تجسس کو ختم کرنے کے لئے بتاتا ہوں کے میرے حیرانگی کا اصل وجہ یہ ہے کہ باچہ زادہ حیرانؔ ناخواند ہ ہے یعنی ایک لفظ بھی لکھ پڑھ نہیں سکتا لیکن پھر بھی چار شعری مجموعوں کا خالق ہے۔ ان کی شاعری ادب کے تمام اصولوں پر پورا اترتاہے۔ جس کو پشتو ادب کے ناقدین اور محقیقین نے بھی تسلیم کیا ہے۔
حیران ؔنے پشتو ادب کے تقریبا ہر صنف میں طبع آزمائی کی ہے جس میں عزل، نظم، مرثیہ گوئی، ٹپہ، ٹپیزہ، چاربیتہ اورسندرہ شامل ہے ان سب اصناف میں انہوں نے خوب شاعری کی ہے اور ادب کے دلدادہ لوگوں سے خوب داد وصول کیا ہے۔ حیران ؔکے اب تک چار شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں جس میں (1) دار او دیدار (2) اوخکی اوخکی سترگی (ا ٓنسو بھری آنکھیں) (3) غم تہ دے او وایہ چی وس می د زڑہ غم لہ راشی (اپنے غم کو کہوں کہ اب میرے دل کے غم بانٹنے کے لئے آجائیں) (4) ڈنگی ڈیوال (کھلا دروازہ) شامل ہے۔
اگر چہ مجھ سے ضرور ترجمہ کرنے میں غلطی ہوئی ہو گی لیکن میں نے حیران ؔکے شعری مجموعوں کے ناموں کی ان قارئین کے لئے اردو میں ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے جو پشتو نہیں سمجھتے تاکہ وو بھی اس کو سمجھ سکیں۔ حیرانؔ کی شاعری کو ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ پسند کرتے ہیں کیونکہ جیسا کے کہا جاتا ہے کہ شاعر اپنے اردگرد کے حالات کا ترجمان ہوتا ہے تو اس لئے انہوں نے اپنے شاعری میں ہر طبقہ فکر کے لوگوں کی تر جمانی ہے۔
باجوڑ پشتو ادبی کاروان کے رکن اور اعلی تعلیم یافتہ جوان شاعر و نقاد اور حیران ؔ کے خصوصی رفیق آشنا باجوڑے ؔ نے حیرانؔ کے بارے میں بتایا کہ حیران ؔ ناخواند ضرورہے لیکن پھر بھی انہوں نے ہمیشہ ادب کے میدان میں میری رہنمائی کی ہے۔ میں جب بھی نیا عزل لکھتا ہوں تو وہ اصلاح کے لئے حیرانؔ صاحب کے پاس لے جاتا ہوں اور وہ اس میں اصلاح کر تے ہیں۔ حیران ؔ ناخواند ہونے کے باجود شاعری کے رموز پر عبور رکھتے ہیں۔
باچہ زادہ حیرانؔ نئے شعراء کے لئے ایک مکتب کے حیثیت رکھتا ہے۔ ضلع باجوڑ میں ادبی سرگر میوں کو فروع دینے میں باچہ زادہ حیران ؔکا کلیدی کردار ہے وہ چار دفعہ باجوڑ پشتو ادبی کاروان کا صدر رہ چکا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ شعراء کے اتحاد کی بات کی اورانکی حوصلہ افزائی کی ہے۔باچہ زادہ حیرانؔ نہ صرف باجوڑ کے مشاعروں میں باقاعدہ گی سے شرکت کرتے ہیں بلکہ خیبر پختون خواہ کے دوسرے اضلاع کے مشاعروں میں بھی باجوڑ کے نمائندگی کر تے ہیں اور لوگوں سے اپنی عزلوں کے زور پر داد وصول کرتے ہیں۔
حیرانؔ کو ان کے شاندار ادبی خدمات پر مختلف ایوارڈ ملے ہے جس میں خیبر پختون خواہ کا اعلی ادبی ایوارڈ رائٹر گلڈ ایوارڈ سال2017 دیا گیا تھا۔ یہ ایوارڈ ہر سال خیبر پختون خواہ کے شعراء کو ان کے بہترین شعری مجموعہ پر دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سلامیہ کالج پشاور، مردان ادبی بورڈ کے ایوارڈز کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سیراج الحق نے بھی اس کو ایواڈز سے نوازا ہے۔
حیران ؔ کے ادبی خدمات کے بارے میں باجوڑ ادبی کاروان کے موجودہ صدر اور نوجوان شاعر میاں انور زادہ گلیارؔ نے بتایا کہ حیران ؔ نہ صرف میرا استاد ہے بلکہ مجھ جیسے کئی شعراء کے استاد ہے اور وہ اس سے اصلاح لیتے ہیں اور اس مقصد کے خاطر حیرانؔ باجوڑ خار میں ہفتے میں تین چار روز ادبی نشت منعقد کراتے ہیں جہاں پر مختلف شعراء کے شاعری پر تنقیدی بحث ہو تی ہے۔ حیران ؔ کے پاس باجوڑ کے دوردراز علاقوں سے نہ صرف شعراء بلکہ عام لوگ بھی آتے ہیں اور اپنے ادبی پیاس بجھاتے ہیں۔
حیران ؔخندہ پیشانی کے ساتھ ہر ایک کے ساتھ ملتے ہیں یعنی وہ ایک اچھے شاعر کے ساتھ ایک اچھا انسان بھی ہے۔ حیرانؔ نے اپنی شاعری میں باجوڑ کے ثقافت، خو بصورتی، یہاں کے لوگوں کے وطن سے محبت اور بہادری کو اجاگر کیا ہے۔ انہوں نے اپنے شاعری میں ہمیشہ امن کی بات کی ہے جیسا کہ وہ ایک شعر میں بیان کرتے ہے کہ
دنڑئی خلکو پہ جنگونو آمن چرتہ رازی
سوک چی جنگونہ کوی دا خلک اکثر خوگیگی
ترجمہ(دنیا کے لوگوں جنگ کے زریعے کبھی امن نہیں آسکتا۔۔ جو لوگوں جنگ کرتے ہیں تو وہ اکثر زخمی ہوتے ہیں) اور اسی طرح نہوں نے تمام انسانیت کو امن کا پیغام دیا ہے۔
ان کی شاعری پشتو کے مشہور گلوکاروں نے گایا ہے جس میں نعیم طوری، یارخان استاد، مشوق سلطان،ماجبین قزلباش، وگمہ، عبداللہ دوران، رحمان اللہ ،اسفندیار مہمنداورشکیل جان شامل ہیں۔ حیران ؔ پشتو کے مشہور شاعر و نقاد حسین احمد صادقؔ کو اپنا استاد مانتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس کی شاعری میں اس کا رنگ صاف دیکھائی دے رہا ہے۔ حیران کے مطابق اس کے شاعری کو تحریر کی شکل اس کا بیٹا نوشاد کیمورؔ لکھ دیتا ہے جو خود بھی ایک شاعر ہے۔
حیران ؔؔ نے نہ صرف یہ کے ادبی میدان میں نام کمایا بلکہ وہ باجوڑ لیوی فورس میں بحیثیت سپاہی بھرتی ہوا تھا اور اپنے محنت اور کارکردگی کے بنیاد پر صوبیدار کے اعلی عہدے پر پہنچا اور پورے ضلع باجوڑ کے سیکورٹی کے انچارج بھی رہا لیکن ان کو زیادہ شہرت ان کو اس کی شاعری کی وجہ سے ملا۔ اب حیرانؔ ریٹائر منٹ کے زندگی گزار رہا ہے اور اپنی پوری زندگی پشتو ادب کے خدمت کے لئے وقف کیا ہے اور اسی جذبہ کے تحت خار باجوڑ میں ایک کتب خانہ کھول رکھا ہے جہاں پر ادب کے دلداد لوگوں کے محافل اکثر منعقد ہوتے رہتے ہیں۔