
محمد یونس
اکستان کے شورش زدہ شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخوا کے ضم قبایلی علاقوں باجوڑ، مہمند،خیبر،اورکزی،کرم ، شمالی اور جنوبی وزیرستان میں صحافت محض ایک پیشہ نہیں بلکہ ایک مسلسل جدوجہد ہے۔ یہاں کے مقامی صحافی روزانہ خطرات میں گھِر کر کام کرتے ہیں۔اکثرامدادی اداروں یا ہنگامی ٹیموں سے پہلے ہی تباہی کے مناظر تک پہنچ جاتے ہیں۔وہ دھماکوں کی جگہوں، سیلاب زدہ دیہاتوں اور نقل مکانی کے مراکز میں صرف اس لیے جاتے ہیں کہ وہ ان کہی آوازوں کو دنیا تک پہنچا سکیں۔
ضم قبایلی اضلاع کے صحافی سب سے پہلے درد اور المیے کا سامنا کرتے ہیں، لیکن ان کے اپنے زخموں کو شاذ و نادر ہی تسلیم کیا جاتا ہے۔ ان کا کام محض واقعات کی رپورٹنگ نہیں بلکہ ان کی انسانی قیمت کو سمجھانا ہوتا ہے۔ اس عمل میں وہ جذباتی بوجھ اپنے اندر سمیٹ لیتے ہیں جو اکثر الفاظ سے باہر ہوتا ہے۔
2022 کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان کے ایک تہائی سے زائد صحافیوں میں پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (PTSD) کی علامات پائی گئیں۔ جبکہ سابق فاٹا اور خیبر پختونخوا کے پرتشدد علاقوں میں کام کرنے والے صحافیوں کے لیے یہ خطرہ کہیں زیادہ ہے۔ ان کے لیے یہ درد محض اعداد و شمار نہیں بلکہ ان کا ذاتی دکھ ہے جوان لوگوں کی داستانیں سناتے ہیں جواپنے قبیلے ان کی اپنی زبان، اور ان کی اپنی دھرتی سے جڑے ہوتے ہیں۔ اور یہی تعلق اس زخم کو مزید گہرا کر دیتا ہے۔
شاہ خالد شاہ جی ، باجوڑ کے سینئر صحافی، گزشتہ پندرہ برسوں سے قدرتی آفات، شورش، بے دخلی اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پر رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ صحافت صرف نوکری نہیں ہےبلکہ ہماری اپنی کہانی ہے۔ اُنہوں نے کہ جوہ بے گھر افراد خصوصاً بچوں سے بات کرتا ہوں تو ان کا دکھ میرے دل تک اترتا ہے۔ کئی بار مجھے خود کو سنبھالنے کے لیے بات روکنی پڑتی ہے۔ ہم بھی انسان ہیں۔
منیر خان آفریدی، ضلع خیبر کے ایک تجربہ کار صحافی ہے۔ جوپچھلے پچیس برسوں سے مقامی اور قومی اخبارات کے لیے رپورٹنگ کرتے آ رہے ہیں۔ ان کی خدمات فیلڈ اور ڈیسک ایڈیٹر کے طور پر رہی ہیں۔ آج وہ اور ان جیسے کئی صحافی دوہری آزمائش میں مبتلا ہیں، ایک طرف میڈیا اداروں کا معاشی بحران اور دوسری طرف مسلسل خطرناک حالات میں سچ کو سامنے لانے کا دباؤ ان چیلنجز نے بہت سے صحافیوں کو ذہنی اور معاشی طور پر مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔
ان تمام تر قربانیوں کے باوجود ان علاقوں کے صحافیوں کے لیے ذہنی صحت کا کوئی منظم نظام موجود نہیں اور کونسلنگ کی سہولت ہے نہ کسی قسم کی ٹراما کیئر اور نہ ہی کوئی ایسا فورم جہاں وہ اپنے اندر کے زخم بانٹ سکیں۔ جذباتی کمزوری کا اظہار بدنامی سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے بیشتر صحافی خاموشی سے اضطراب، ڈپریشن اور اندرونی زخموں کے ساتھ جیتے رہتے ہیں۔
ایک رپورٹر نے آرمی پبلک اسکول سانحے پر رپورٹنگ کے بعد کہا، "خون، بستے، خاموشی… یہ سب آج بھی میری نیندوں میں آتے ہیں۔”ف
وزیہ خان بیٹنی وزیرستان کی ایک باہمت صحافی ،کہتی ہیں، "میں ایک سانحے سے دوسرے کی طرف بھاگتی رہی۔ جب ایک لمحے کو کو رکی، تب جا کے اندازہ ہوا کہ میرے اندر کیا طوفان پل رہا ہے۔ تبھی تو خوفناک خواب آنا شروع ہوئے۔”
کبھی ایک اُمید کی کرن بھی تھی جب جامعہ پشاور کے شعبہ صحافت کی سابق سربراہ الطاف اللہ خان کے صحافیوں کے لیے ٹراما سینٹر قائم کیا گیا تھا۔ جرمن ادارے ڈی ڈبلیو اکیڈمی کے تعاون سے چلنے والا یہ سینٹر ذہنی صحت، مشاورت، اور ہائی رسک علاقوں کے صحافیوں کے لیے تربیتی سیشنز فراہم کرتا تھا۔
مگر افسوس یہ منصوبہ بھی دیگر بیرونی فنڈنگ پر مبنی منصوبوں کی طرح زیادہ دیر نہ چل سکا۔ مقامی ادارہ جاتی حمایت کی کمی کے باعث یہ سینٹر بند ہو گیا۔ اس بندش نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ پاکستان میں فیلڈ صحافیوں کی ذہنی صحت کو ابھی بھی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔
ڈاکٹر الطاف اللہ خان، جو اب لاہور کے فارمن کرسچن کالج (ایک چارٹرڈ یونیورسٹی) میں "فیکلٹی آف ہیومینٹیز” کے ڈین کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں، آج بھی صحافیوں کی حفاظت اور ٹراما سے آگاہی کے لیے سرگرم ہیں۔ مگر ان کا خواب تب پورا ہوگا جب ریاستی سطح پر اس حوالے سے ٹھوس اقدامات کیے جائیں گے۔
بین الاقوامی ادارے جیسے کہ "ڈارٹ سینٹر فار جرنلزم اینڈ ٹراما” آج بھی بہترین تربیت اور رہنمائی فراہم کرتے ہیں، مگر پاکستان کے دور دراز علاقوں میں کام کرنے والے صحافی اب بھی تحفظ سے محروم ہیں۔
صحافیوں کے لے کن اقدامات کی ضرورت ہے
•میڈیا ادارے ٹراما سے آگاہ پالیسی اپنائیں۔
• صحافیوں کو ذہنی تھکن اور اس کی علامات پہچاننے اور سنبھالنے کی تربیت دی جائے۔•ذہنی صحت کو سہولت نہیں، بنیادی حق سمجھا جائے۔
پختون بیلٹ کے یہ صحافی محض خبریں دینے والے نہیں—یہ خود المیوں کے کردار ہیں۔ یہ سچ اور درد کے درمیان کھڑے ہو کر ان آوازوں کو محفوظ کر رہے ہیں جو ورنہ وقت کی گرد میں دب جاتیں۔ ان کی بہادری صرف تحسین کی نہیں، بلکہ تحفظ، شناخت اور دیکھ بھال کی مستحق ہے۔
ان کی خاموشی اب ہماری آگاہی کی قیمت نہیں ہونی چاہیے۔