Oplus_131072

اصغر آفریدی

دو ہزار اٹھارہ میں پچیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے فاٹا (سابقہ قبائلی علاقے) کو خیبرپختونخوا میں ضم کیا گیا۔ اس انضمام کو محض ایک قانونی اقدام سمجھنا اس کے تاریخی تناظر اور قبائلی عوام کی قربانیوں کی توہین ہوگی۔ یہ ترمیم درحقیقت پاکستان کی آئینی تاریخ کا وہ باب تھی جس نے قبائلی عوام کو ملک کے دیگر شہریوں کے برابر لانے کا وعدہ کیا، ایک دیرینہ خواب کی تعبیر، ایک پسماندہ خطے کو قومی دھارے میں لانے کی سنجیدہ کوشش۔

ابتدائی امیدیں اور مثبت پیش رفت

‎انضمام کے پہلے تین سال بلاشبہ امید کی کرن لے کر آئے۔ ترقیاتی منصوبے، سیکیورٹی ریفارمز، ضم اضلاع میں سول نظام کا قیام، تعلیم و صحت کے شعبے میں بہتری، اور نوجوانوں کو روزگار و نمائندگی کے مواقع دیے گئے۔ یہی وہ وقت تھا جب قبائلی علاقوں میں پہلی بار بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوا، اور پسماندہ عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا موقع ملا۔

پالیسی شفٹ اور پسماندگی کی واپسی

‎تاہم اپریل 2022 سے  انضمام شدہ علاقوں کے ساتھ حکومتی رویہ بتدریج تبدیل ہوتا گیا اور ایسے اقدامات اٹھائے گئے کہ جیسے  ترقیاتی فنڈز منجمد ، اسکیموں کی بندش ان اقدامات سے ضم اضلاع کے عوام کو بڑے طریقے سے محسوس کرانے لگا کہ انضمام نقصان میں جانے والا سیاسی سودا” ہے اور ساتھ میں مقامی حکومتوں کو اختیارات منتقل کرنے کا عمل بھی معطل کر دیا گیا۔

‎یہ تمام اقدامات محض غفلت نہیں بلکہ ایک منظم منصوبہ بندی کا حصہ لگتے ہیں، جس کا مقصد قبائلی عوام کو دوبارہ اسی محرومی، بےیقینی اور بدامنی کے دلدل میں دھکیلنا ہے جس سے وہ بمشکل نکلے تھے۔

‎27ویں آئینی ترمیم: انضمام کو ریورس کرنے کی کوشش؟

‎اب سب سے خطرناک اور تشویشناک پیش رفت سامنے آئی ہے یہ بازگشت سنائی دے رہی ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے انضمام کو عملاً ریورس کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ اندر کھاتے یہ دلیل دی جارہی ہے کہ خیبرپختونخوا اسمبلی "مائنز اینڈ منرلز بل” منظور نہیں کر رہی، اس لیے قبائلی اضلاع کو وفاق کے ماتحت لانے کی ضرورت ہے جبکہ اصل مقصد قبائلی اضلاع میں موجود قیمتی معدنیات، نایاب وسائل، اور اسٹریٹجک اہمیت کی حامل زمینات پر براہ راست وفاقی کنٹرول حاصل کرنا۔

‎یہ اقدام قبائلی عوام کے اعتماد، اُن کی قربانیوں، اور انضمام کے وقت کیے گئے وعدوں سے کھلا انحراف۔

سیاسی، صحافتی اور سماجی خاموشی

‎سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ وہی سیاسی جماعتیں جو انضمام کے وقت ایک صف میں کھڑی تھیں، آج مکمل خاموشی کا شکار ہیں۔ صوبائی حکومت اپنی بےبسی یا بےحسی کے خول میں ہے۔ حتیٰ کہ وہ شخصیات جنہوں نے انضمام کے لیے جدوجہد کی، جیسے فاٹا یوتھ جرگہ کے دیگر رہنما، آج نہ صرف خاموش ہیں بلکہ گویا پس منظر میں جا چکے ہیں۔

‎اسی طرح میڈیا، سول سوسائٹی اور دانشور طبقہ بھی اس مسئلے پر مؤثر آواز اٹھانے سے قاصر یا گریزاں نظر آ رہا ہے۔

نئی وفاقی کمیٹی اور "جرگہ سسٹم” کی بحالی کا فریب

‎حال ہی میں وفاق نے ایک نئی کمیٹی قائم کی ہے جس کا مقصد "جرگہ سسٹم کی بحالی” بتایا جا رہا ہے۔ مگر یہ کمیٹی نہ تو قبائلی نمائندوں پر مشتمل ہے، نہ اس کا ایجنڈا واضح ہے، اور نہ ہی اس میں انضمام کی روح کا کوئی عکس دکھائی دیتا ہے۔ بادی النظر میں یہ کمیٹی انضمام کو کمزور کرنے، اختیارات واپس مرکز میں کھینچنے، اور قبائلی علاقوں کو ایک بار پھر تجربہ گاہ بنانے کی کوشش ہے — جیسا کہ ماضی میں بارہا ہو چکا ہے۔

اگر ہم آج خاموش رہے…

‎تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ خاموشی ہمیشہ طاقتوروں کے حق میں گئی ہے، اور مظلوموں کو مزید کچلا گیا ہے۔ اگر آج قبائلی عوام، سیاسی رہنما، صحافی، وکلا، سول سوسائٹی اور نوجوان متحد ہو کر آواز بلند نہ کریں، تو کل وہی محرومی، وہی ناانصافی اور وہی استحصال دوبارہ جنم لے گا — اس بار شاید کہیں زیادہ منظم اور مستقل شکل میں۔

‎انضمام کا وعدہ کوئی وقتی سیاسی سودا نہیں تھا۔ یہ ایک قومی معاہدہ تھا۔ اگر آج ہم اس معاہدے کی پاسداری نہ کریں، تو کل ہم اپنے بچوں کو نہ صرف وسائل سے محروم پائیں گے بلکہ ان کی شناخت اور خودداری بھی گروی رکھ چکے ہوں گے۔

‎اگر آج ہم نہ جاگے… تو کل صرف پچھتاوا بچے گا۔

ٹائم لائن اردو ٹیم
ٹائم لائن اردو کے رپورٹرز، صحافی، اور مصنفین پر مشتمل ٹیم

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں