قبائلی ضلع باجوڑ میں جاری بدامنی کے خلاف تحصیل خار میں باجوڑ سپورٹس کمپلیکس کے سامنے مین شاہراہِ پر عظیم الشان آمن پاسون (جلسہ) کا انعقاد کیا گیا ۔جس میں ضلع باجوڑ کے تمام علاقوں سے  ہر عمر کے لوگوں نے ہزاروں کی تعداد میں شرکت کی ۔

اس موقع پر ایم این اے مبارک زیب خان ، ایم پی اے و ڈیڈک چیرمین ڈاکٹر حمید الرحمان ، ایم پی اے انور زیب خان ، ایم پی اے نثار باز ، تحصیل چیئرمین حاجی سید بادشاہ ، تحصیل چیئرمین ڈاکٹر خلیل الرحمان ، سابقہ ایم این اے شہاب الدین خان ، سابقہ ایم این اے سید اخونزادہ چٹان ، سابقہ ایم این اے گلداد خان ، ملک سلطان زیب ، صاحبزادہ ہارون رشید ، صاحبزادہ ، مولانا وحید گل ، حاجی سردار خان ، ملک خالد خان کے علاؤہ باجوڑ کے مشران اور مختلف تنظیموں کے عہدیداروں نے شرکت کی ۔

اس موقع پر مقررین نے واضح کیا کہ باجوڑ میں مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے بے شمار آپریشنز کیے گئے مگر اب ایک دفعہ پھر باجوڑ میں بدامنی زوروں پر ہے۔

اس کے علاؤہ انضمام کے وقت کیے گیے وعدوں سے حکومت انکاری ھوچکی ہے جبکہ مزید اب ان پر ٹیکس لگا کر باقی ماندہ روزگار کو چھینا جا رہا ہے ۔جبکہ اب حکومت نے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو میں قبائلی علاقوں میں جرگہ نظام کی بحالی وغیرہ جیسے شوشے چھوڑے جا رہے ہیں ۔

جلسے کے اختتام پر جاری ھونے والے اعلامیہ میں درجہ ذیل مطالبات پیش کئے ۔

باجوڑ آمن پاسون مشترکہ اعلامیہ و مطالبات

ضلع باجوڑ کے غیور عوام، سیاسی و قومی قیادت اور تمام قبائل کی جانب سے ایک مشترکہ آواز کے طور پر درج ذیل نکات جاری کیے جاتے ہیں:

مطالبات:

1. سی سی ٹی وی شواہد کی فراہمی: فرش، خار بازار، شنڈئ موڑ پھاٹک اور دیگر حساس مقامات پر ہونے والی خونی وارداتوں کا ریکارڈ کیمروں میں محفوظ ہوگا۔ خفیہ طور پر کیمرے ہٹانا سنگین سازش ہے۔ یہ ریکارڈ فوری طور پر باجوڑ کی سیاسی و قومی قیادت کے ساتھ شیئر کیا جائے۔ اس مجرمانہ غفلت کی ذمہ داری ریاستی اداروں پر عائد ہوتی ہے۔

2. فوجی کارروائی میں عوامی اعتماد: پاک فوج کسی بھی آپریشن سے پہلے عوام کو اعتماد میں لے۔ آپریشن ایسا ہو جس میں شہری جان و مال محفوظ ہوں۔

3. آئی ڈی پیز کی واپسی نہیں: باجوڑ کے عوام کسی ایسی کارروائی کے لیے تیار نہیں جس کے نتیجے میں بے گناہ افراد متاثر ہوں یا دوبارہ بے گھر (IDPs) بنیں۔

4. منظم جرائم کا خاتمہ: ڈاکہ زنی، بھتہ خوری اور منظم چوری معمول بن چکی ہے۔ ریاستی اداروں کی خاموشی مشکوک ہے۔ ان جرائم کا فوری خاتمہ یقینی بنایا جائے۔

5. دیت کی ادائیگی: 2005 سے جاری دہشتگردی میں شہید ہونے والے تمام افراد کو شریعت کے مطابق 100 اونٹوں کی مالیت کے برابر دیت ادا کی جائے۔ بصورت دیگر امن جرگہ قانونی چارہ جوئی کرے گا۔

ریاستی ردعمل کی عدم موجودگی پر اقدامات:

اگر سات (7) دنوں کے اندر درج بالا مطالبات پر عمل نہ ہوا تو باجوڑ امن جرگہ درج ذیل اقدامات اٹھانے پر مجبور ہوگا:

1. ریاستی بائیکاٹ: تمام قبائل ریاستی اداروں سے مکمل بائیکاٹ کریں گے۔

2. معدنیات کی بندش: باجوڑ کی تمام معدنیات (mineral mines) کو بند کر دیا جائے گا۔ یہ وسائل باجوڑ کے عوام کی ملکیت ہیں۔ کسی کو ان پر قبضہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ بصورت دیگر ان کی حفاظت کے لیے ہتھیار اٹھانا پڑا تو قبائل تیار ہوں گے۔

3. اپنی حفاظت کا حق: اگر ریاست ناکام رہی تو قبائل اپنی حفاظت خود کریں گے، اور اسلحہ اٹھانے پر مجبور ہوں گے۔

4. قاتل کے خلاف کاروائی پر موقف: اگر واردات کے مقام پر قاتل کو قتل کیا گیا تو پوری قوم اس شخص کی پشت پناہی کرے گی، اور کسی قسم کی ایف آئی آر درج نہیں ہونے دی جائے گی۔

5. سہولت کاروں کا بائیکاٹ: باجوڑ کے عوام دہشتگردی میں کسی بھی فریق کے سہولت کار نہیں بنیں گے۔ سہولت کاروں کا مکمل سماجی و معاشی بائیکاٹ کیا جائے گا۔

قبائلی اتحاد اور علاقائی مطالبہ:

وزیرستان سے باجوڑ تک ایک کروڑ قبائلی عوام یک زبان ہیں کہ 25 سالہ نام نہاد ڈالری جنگ مزید کسی بھی صورت میں قبول نہیں۔

حکومت، فوج اور ریاستی ادارے اس جنگ کو فی الفور ختم کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھائیں۔

افغانستان کی امارت اسلامی، پاکستانی ریاست اور فوجی قیادت بدامنی کے مسئلے کو مذاکرات اور سفارت کاری سے حل کریں۔

اعلان:

امن جرگہ عنقریب تمام قبائلی عوام، صوبوں اور ملک کی سیاسی قیادت سے مشاورت کے بعد اسلام آباد میں ایک فیصلہ کن امن مارچ (پاسون) کا اعلان کرے گا۔

امن ہمارا حق ہے۔ ظلم، جبر اور نام نہاد جنگ مزید قبول نہیں۔

اعلامیہ میں یہ بھی کہا گیا کہ قبائل پر ہر قسم کے ٹیکس اور وفاقی حکومت کی قائم کردہ کمیٹی کی تشکیل کو مسترد کیا گیا ۔

جلسے میں کل باجوڑ میں شہید کیے گئے عوامی نیشنل پارٹی کے علماء ونگ کے مرکزی سیکرٹری مولانا خان زیب کے قتل کی شدید مذمت کی گئی اور ان کی ایصالِ ثواب کیلیے اجتماعی دعا کرائی گئی۔

یاد رہے کے قبائلی علاقوں میں بدامنی کے واقعات میں اضافے کے وجہ سے مختلف اضلاع میں آمن پاسون منعقد ہوچکے ہیں ۔

شاہ خالد شاہ جی
شاہ خالد شاہ جی کا تعلق قبائلی ضلع باجوڑ سے ہے۔ اور پچھلے 15 سالوں سے صحافت سے وابستہ ہے۔ وہ ایک ایوارڈ ہافتہ تحقیقاتی جرنلسٹ ہے اور مختلف نیوز ویب سائٹس، اخبارات، جرائد اور ریڈیوز کے لئے رپورٹینگ کا تجربہ رکھتا ہے۔ شاہ جی زراعت، تعلیم، کاروبار۔ ثقافت سمیت سماجی مسائل پر رپورٹنگ کررہا ہے لیکن اس کا موسمیاتی تبدیلی ( کلائیمیٹ چینج ) رپورٹنگ میں وسیع تجربہ ہے۔ جس کے زریعے وہ لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کی کوششوں میں مصرف ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں