
تحریر: حسین افریدی
جرم کی ایف آئی آر یا روزنامچہ رپورٹ درج کروانا ہر شہری کا آئینی اور قانونی حق ہے۔ پولیس کا بنیادی فرض ہے کہ جب کوئی شہری کسی جرم کی اطلاع دے، تو وہ کم از کم ایک ابتدائی رپورٹ درج کرے، چاہے جرم کس تھانے کی حدود میں پیش آیا ہو۔ بعد میں، حدود کا تعین اور متعلقہ تھانے کو رپورٹ کی منتقلی پولیس کی اندرونی ذمہ داری ہے – یہ شہری کا دردِ سر نہیں ہونا چاہیے۔
لیکن گزشتہ ہفتے جو میرے ساتھ پیش آیا، وہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ ان گنت شہریوں، بالخصوص کمزور اور غیر بااثر طبقات کی روزمرہ کی اذیت ناک حقیقت ہے۔ خیبر پختونخواہ کی "مثالی پولیس” کے اس پہلو کو آشکار کرنا ضروری ہے جہاں ذمہ داری سے بچنے کی خاطر اختیارات کا بوجھ ایک دوسرے کے سر ڈالا جاتا ہے۔
میرا موبائل فون BRT بس میں سفر کے دوران چوری ہو گیا۔ یہ بس ایک مخصوص اور محدود ٹریک پر چلتی ہے، جس کی مکمل نگرانی حکومت اور پولیس کے علم میں ہے۔ اس کے باوجود جب میں تھانہ خزانہ چارسدہ روڈ گیا، تو وہاں موجود ایک مغرور محرر نے بغیر پوری بات سنے ہاتھ کے اشارے سے مجھے باہر جانے کو کہا اور کہہ دیا کہ یہ "فقیر آباد تھانے کا مسئلہ ہے”۔
میں فوراً ماڈل پولیس اسٹیشن فقیر آباد پہنچا، جہاں گیٹ کے اندر موجود ایک سادہ لباس شخص نے حیات آباد جانے کا مشورہ دے دیا۔ تھانہ حیات آباد پہنچا تو وہاں بتایا گیا کہ موبائل گمشدگی کی رپورٹ "پولیس سہولت سنٹر” میں ہوتی ہے۔ اگلے دن جب وہاں پہنچا تو لمبی قطار، شدید گرمی، کم عملہ اور تھکاوٹ میرا مقدر بنے۔ آخر کار، جب میری باری آئی، تو بتایا گیا کہ موبائل چوری کا روزنامچہ یہاں درج نہیں ہوتا، بلکہ پولیس اسٹیشن میں ہوتا ہے۔
یعنی میرے جیسے شہری کے لیے صرف ایک رپورٹ درج کروانے کے لیے پشاور کے کئی تھانوں، سہولت مراکز اور علاقوں کی خاک چھاننا، رکشوں اور ٹیکسیوں پر دو ہزار روپے سے زائد خرچ کرنا، اور وقت، توانائی و وقار کی قربانی دینا لازمی ہے – لیکن انصاف اور مدد حاصل کرنا اختیاری!
اب سوال یہ ہے:
اگر چوری شدہ موبائل سے کوئی غیر قانونی کام ہو، تو کیا یہی پولیس مجھے پکڑ کر "ملزم” بنا دے گی؟ کیا میرے خلاف مقدمہ بنے گا، جب کہ میں تو خود مدعی ہوں؟ کیا افسرانِ بالا اپنی کامیابی کا کریڈٹ لیتے ہوئے مجھے میڈیا کے سامنے "جرائم پیشہ نیٹ ورک کا سرغنہ” بنا کر پیش کریں گے؟
میں صحافی ہوں – معاشرے کی آنکھ اور آواز۔ لیکن جب آنکھ کو دھندلا اور آواز کو دبایا جائے، تو عام شہریوں کا حال کیا ہوگا؟ اگر میرے ساتھ یہ سلوک ہے، تو ایک غریب دیہاڑی دار یا خواتین کا سامنا کیسا ہوتا ہوگا، تصور سے باہر ہے۔
یہ رویہ جمہوری اقدار، قانون کی بالادستی، اور "پبلک سروس پولیسنگ” جیسے دعووں کی کھلی تردید ہے۔ "مثالی پولیس” کا مطلب صرف اچھی وردی، چمکتا ہوا تھانہ اور سوشل میڈیا پر پوسٹ نہیں، بلکہ
فوری رسپانس شہری کو سہولت سچائی اور انصاف اور سب سے بڑھ کر انسانیت ہے۔
اگر ان اصولوں پر عمل نہ ہو تو ماڈل پولیس صرف ایک نعرہ اور نمائش بن کر رہ جاتی ہے۔