
بدامنی کی موجودہ لہر نہ صرف قبائلی علاقوں تک محدود رہا بلکہ صوبہ خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع میں بھی آئے روز کوئی واقعہ پیش آتا ہے جس سے عام عوام سمیت حکومت، سیکورٹی حکام اور علماء بھی نشانہ بن رہے ہیں۔
ان واقعات میں قبائلی اضلاع سمیت صوبے کے جنوبی اضلاع سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ بنوں، لکی مروت، جنوبی وزیرستان، شمالی وزیرستان، ضلع خیبر وادی تیراہ، ضلع کرم، باجوڑ دیگر اضلاع میں دہشتگردوں کی جانب سے سیکورٹی فورسز پر حملوں سمیت بچے اور خواتین بھی مبینہ ڈرون یا کواڈ کاپٹر حملے میں شہید ہو رہے۔ امن کیلئے نعرے لگانے والے بھی محفوظ نہیں ہے، مشہور عالم دین مفتی منیر شاکر کو پشاور میں شہید کیا گیا جس کے بعد مولانا خانزیب کو باجوڑ میں شہید کیا گیا۔ اس طرح روزانہ کے بنیاد کوئی نہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے۔
حکومت نے قبائلی اضلاع میں دہشتگردوں کے خلاف ٹارگیٹ آپریشن بھی شروع کئے ہیں جبکہ مختلف علاقوں میں ملٹری آپریشن کرنے کے خاطر عوام علاقے کو خالی کرنے کو بھی کہا ہے لیکن قبائلی اضلاع ضلع خیبر وادی تیراہ، ضلع کرم، ضلع اورکزئی، ضلع کرم شمالی وزیرستان سمیت دیگر جگہوں میں مقامی مشران نے جرگوں میں علاقوں کو خالی کرنے سے انکار کیا ہے۔
اس طرح درجنوں واقعات کے بعد سیاسی و سماجی اتحاد و تحریکوں نے امن مارچ اور احتجاجوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ وزیرستان، بنوں، لکی مروت، خیبر، کرم، باجوڑ، دیر اور دیگر علاقوں میں امن مارچ کرائے گئے اور لوگوں نے امن کی بحالی کا مطالبہ کیا۔
وزیر اعظم میاں نواز شریف کے ساتھ اس سلسلے میں قبائلی وفود سمیت سیاسی رہنماؤں نے بھی مختلف نشست کرائے ہیں۔
اس سلسلے میں وزیراعظم ہاؤس میں قبائلی عمائدین کا جرگہ ہوا جس میں مولانا فضل الرحمان کی سربراہی میں خیبر پختونخوا (کے پی) کے ضم اضلاع کے قبائلی عمائدین نے شرکت کی۔
جرگے میں خیبر پختونخوا کے ضم شدہ اضلاع میں امن و امان کی صورتحال کی بہتری اور تعمیر و ترقی پر بات ہوئی۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ قبائل نے ہمیشہ پاکستان کی سلامتی اور امن کے لیے قربانیاں دی ہیں، ضم شدہ اضلاع میں امن و امان کا قیام حکومت کی اولین ترجیح ہے، پاکستان کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے تمام مکاتب فکر کے اکابرین کو مل کر کردار ادا کرنا ہوگا۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ حکومت ضم شدہ اضلاع کی معاشی ترقی اور وہاں کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھا رہی ہے، ضم شدہ اضلاع میں نوجوانوں کو تعلیم ، صحت ، ہنر اور روزگار کے مساوی اور بہترین مواقع کی فراہمی ترجیح ہے۔
صوبائی حکومت نے بھی اس سلسلے میں تمام سیاسی پارٹیوں کانفرنس بلایا تھا لیکن اس میں اپوزیشن جماعتوں نے شرکت سے انکار کیا تھا۔
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صوبے میں پہلے ہونے والے آپریشنز کا کوئی فائدہ نہیں ہوا، آئندہ کوئی آپریشنز قبول نہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت صوبے میں کسی بھی سے کارروائی سے پہلے ہمیں اعتماد میں لے۔
ان کا کہنا تھا کہ دہشتگرد حملوں میں عام عوام بھی نشانہ بنتے ہیں، بارڈر پر دہشتگردوں کی دراندازی روکنا وفاق کی ذمہ داری ہے۔ دہشتگری کے خلاف جنگ کے نام پر ڈرون کا استعمال نہیں ہونا چاہیے۔
علی امین گنڈاپور نے کہا کہ صوبے کے اندر وفاقی فورس کو کارروائی کی کوئی اجازت نہیں دیں گے، ایسا کرنے سے پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔
وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ بار بار کہہ رہے ہیں کہ افغانستان جرگہ بھیجوادیں۔ وزیر داخلہ محسن نقوی افغانستان میں ہمارے صوبے کی بات نہیں کرسکتے، اے پی سی میں فیصلہ ہوا کہ اب ہم کسی بھی قسم کے آپریشن نہیں کرنے دیں گے۔ گڈ طالبان کو ختم کرنا ہوگا، ہم مزید برداشت نہیں کریں گے، انہیں فورا صوبے سے نکالا جائے۔ اگرچہ کچھ سیاسی جماعتوں نے اس مشاورتی اجلاس میں شرکت سے بائیکاٹ کا اعلان کردیا تاہم اس کے باجود وزیر اعلی خیبر پختونخوا نے نہ بدامنی پیچھے تمام محرکات پر واضح موقف اپنا بلکہ مرکزی حکومت کے پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
صوبائی حکومت کے آل پارٹیز کانفرنس سے پہلے باجوڑ سے لیکر جنوبی وزیرستان تک امن کے قیام کئے بڑے اجتماعات ہوئے جس میں سیاسی قائدین سمیت، علماء، طلباء اور مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے شرکت کی جو صوبے میں امن وامان قائم کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے 26جولائی کو پشاور میں قومی امن جرگہ بلانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے باچا خان مرکز پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے صوبائی صدر اے این پی میاں افتخار حسین نے کہا کہ 26 جولائی کو قومی امن جرگہ بلایا گیا ہے جو باچا خان مرکز پشاور میں صبح دس بجے منعقد ہوگا۔
میاں افتخار کا کہنا تھا کہ قومی امن جرگے میں تمام مکتبہ فکر اور خصوصی طور پر ضم شدہ اضلاع کے لوگوں کو خصوصی طور پر شرکت کی دعوت دی جائیگی۔
عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر میاں افتخار حسین نے کہا ہے کہ کہ ضم اضلاع کے وسائل پر قبضے کیلئے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بدامنی پیدا کی جارہی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ایف سی ایوارڈ میں رکاوٹیں، معدنی وسائل پر قبضے کی کوشش، اور 18ویں و 25ویں آئینی ترامیم کو رول بیک کرنے کی سازشوں کا حصہ ہیں۔
میاں افتخار حسین نے کہا کہ ہم اس ملک کے شہری ہیں، یہ زمین ہمارے آبا و اجداد کی ہے، اور ہم اپنے وسائل پر حق مانگتے ہیں، جو کسی کو پسند نہیں،معدنیات پر قبضے کے لیے نئے قوانین، جرگہ سسٹم کی بحالی کی باتیں، اور 18ویں ترمیم پر حملہ دراصل قبائلی علاقوں کو ایک بار پھر پسماندگی کی طرف دھکیلنے کی کوشش ہے۔
انہوں نے کہا کہ نے مطالبہ کیا کہ شہید مولانا خانزیب کے قتل کی تحقیقات کے لیے ایک سپریم کورٹ کے جج کی نگرانی میں جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے، جس میں شہید کے خاندان کے ایک فرد کو شامل کیا جائے۔
میاں افتخار حسین نے کہا کہ تاحال کسی قاتل کو گرفتار نہیں کیا گیا اور اگر معلومات کو چھپایا گیا یا گمراہ کن ثابت ہوا تو اے این پی حقائق عوام کے سامنے لائے گی۔
صوبائی صدر اے این پی نے اعلان کیا کہ 26جولائی کو باچا خان مرکز میں ایک قومی جرگہ بلایا جا رہا ہے جس میں تمام مکاتب فکر، بالخصوص ضم شدہ اضلاع کے عمائدین کو مدعو کیا جائے گا جرگہ اس بات کا فیصلہ کرے گا کہ احتجاج کو قومی سطح پر کس طرح موثر انداز میں اٹھایا جائے۔
میاں افتخار نے زور دیا کہ اے این پی کی کسی سے ذاتی دشمنی نہیں بلکہ یہ جنگ امن، نظریے اور خودمختاری کی ہے ہم نے 1200 سے زائد شہدا دیے، کارکنوں کو نشانہ بنایا گیا، لیکن ہم خاموش رہے۔ اب ہم مزید خاموش نہیں رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ یہ وقت سیاسی جماعتوں کے یکجا ہونے کا ہے، نہ کہ ووٹ یا اقتدار کے لیے، بلکہ آنے والی نسلوں کے مستقبل کے لیے۔
جماعت اسلامی نے وفاقی حکومت کی جانب سے ضم اضلاع کے حوالے سے وفاقی وزیر امیر مقام کی قیادت میں قائم کمیٹی کو آئین پاکستان کے منافی قراردیتے ہوئے اسے یکسر مسترد کردیا ہے اور ضم شدہ قباِئلی اضلاع میں جاری بدامنی کے واقعات کی آڑ میں قبائلی علاقوں کی سابقہ حیثیت کی بحالی سمیت کسی بھی ممکنہ ملٹری آپریشن کی بھی بھرپور مخالفت کرتے ہوئے اس حوالے سے 29جولائی کو پشاور میں آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) منعقدہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
جماعت اسلامی خیبرپختونخوا وسطی کے امیر عبدالواسع نے پارٹی کے دیگر عہدیداروں کے ساتھ چند روز پہلے پشاور پریس کلب میں پریس کانفرس کرتے ہوئے کہا اب تک قبائلی اضلاع میں درجنوں بڑے ملٹری آپریشن ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں دہشت گردوں کا خاتمہ ہونے کے بحائے لاکھوں قبائلی عوام بے گھر ہوئے ہیں ان کے کاروبار،روزگار،گھروں مارکیٹوں اور قیمتی املاک سمیت کھڑی فصلوں باغات اور مال مویشیوں کی صورت میں ناقابل تلافی نقصانات اٹھانا پڑا ہے۔انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت ایک بار پھر مرج اضلاع میں جان بوجھ کر ایسے حالات پیداکررہی ہے جس سے ایک بار پھر ان اضلاع میں بدامنی کے واقعات رونماء ہو رہے ہیں جس کے خلاف جماعت اسلامی بھرپور مزاحمت کریں گی۔