
خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر کوٹ گاؤں کے رہائشی سلطان زادہ سیلاب میں تباہ ہونے والے اپنے چچا کے گھر کو اشکبار آنکھوں سے دیکھتے ہوئے کہا کہ اس گھر میں اس کے چچا کے آٹھ افراد رہتے تھے جو 15 اگست کے سیلاب میں سارے سیلاب میں مر چکے ہیں۔ انہوں نے روتے ہوئے کہا کہ ایک دلخراش لمحہ تھا جب پانچ منٹ میں اتنا زیادہ پانی پوری گاﺅں میں داخل ہوگیا کہ ان سے خود کو نکالنا مشکل بن گیا لوگوں کی چیخ و پکار شروع ہوگئی جہاں پر پانی کا بہاو کم تھا وہاں لوگ بچ گئے لیکن اس کے چچا کا پورا خاندان اس سیلاب میں ختم ہوگیا۔
پراونشل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی( پی ڈی ایم اے) کے مطابق خیبر پختونخوا ملاکنڈ ڈویژن میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث اگست میں طوفانی بارشوں، سیلابوں اور لینڈ سلائیڈنگ سے اب تک تین سو زیادہ افراد جانبحق اور ڈیڑھ سو زیادہ افراد زخمی ہوگئے ہیں۔
جس میں بونیر میں 200 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، باجوڑ میں 21، دیر میں 5، بٹگرام میں 20، شانگلہ میں 23، سوات میں 15، گلگت بلتستان میں 11 افراد جاں بحق ہونے کی تصدیق ہوگئی ہے۔ جبکہ کئی افراد ابھی بھی لاپتہ ہے۔
پی ڈی ایم اے کے مطابق سیلاب سے زیادہ متاثرہ ضلع بونیر میں اب تک مجموعی طور پر سب سے زیادہ 209 افراد جابحق ہوئے۔ ان اضلاع میں سب سے زیادہ متاثرہ ضلع بونیر کے علاقے بشنوئی، پیر بابا گوکن اور ملحقہ علاقے ہیں جہاں پر دو سو سے زائد افراد جاں بحق اور سو زیادہ ابھی بھی لاپتہ ہیں۔
سلطان زادہ کا کہنا ہے کہ اس کے کوٹ کا گاؤں ان کا آبائی علاقہ ہے اس کے چچا نے اپنے ہاتھوں سے بڑی مشکل کے ساتھ اس گھر کو بنایا تھا لیکن اب نہ گھر رہا اور نہ ہی اس کا خاندان اور ان کی لاشوں کو ڈگر میں پانی کا رفتار کم ہونے کے بعد نکال لی گئی۔
پی ڈی ایم اے کے مطابق جاں بحق خیبرپختونخوا میں سیلاب سے مرنے والے افراد میں 264 مرد، 29 خواتین اور 21 بچے شامل جبکہ زخمیوں میں 123 مرد، 23 خواتین اور 10 بچے شامل ہے بارشوں اور فلش فلڈ کے باعث اب تک کی رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر 159 سے زائد گھر وں کو نقصان پہنچا۔ جس میں 97 گھروں کو جزوی اور 62 گھر مکمل منہدم ہوئے۔

یحیی خان ضلع بونیر بشنوئی کا رہائشی ہے ان کا کہنا تھا کہ اس دن وہ اپنے گھر میں موجود تھا اور بارش بہت تیز تھی گھر میں پانی داخل ہونا شروع ہوگیا اور اسے محسوس ہوا کہ بارش تیز اور زیادہ ہورہی ہے کہی کوئی مسلہ پیدا نہ ہوجائے وہ اپنے گھر سے پانی نکالنے کے کوششیں کر رہے تھے لیکن اس دوران گھر کے پیچھے کے طرف سے پانی کا بہاو تیز ہوگیا اور انہوں نے جلدی جلدی سے گھروں والوں کو نکالنا شروع کیا، وہ اپنے گھر والوں کو گھر سے نکالنے میں کامیاب ہوگیا ہوکر پہاڑ کی ایک سائیڈ پر چلے گئے اور دیکھتی ہی دیکھتی گاﺅں میں ان کے زیادہ تر رشتہ داروں اور ان کے گھروں کو سیلاب نے نگل لی۔
دنیا کے دیگر ممالک کے طرح پاکستان اور خاص طور پر صوبہ خیبرپختونخوا میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بارشوں اور ہواؤں کی رفتار میں نمایاں تبدیلی پیدا ہوگئی ہے۔ جس کی وجہ سے لوگوں کی زندگی میں مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ جیالوجسٹ واجد الرحمن کا کہنا ہے کہ ماضی کے نسبت اب بارشوں کی ترتیب اور سلسلے میں کافی تبدیلیاں پیدا ہوگئی جو ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے مون سون کی بارش ترتیب سے جولائی کے پہلے ہفتے میں شروع ہوتی لیکن اس دفعہ جولائی سے پہلے جون سے مون سون سیزن شروع ہوگیا اور اور اس کا دورانیہ پہلے کے نسبت بڑھ کر ستمبر ہونے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے موسم میں نمایاں تبدیلی پیدا ہو رہی ہے جس کے باعث تیز بارش اور بادل پھٹنے کے واقعات پیش آرہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملاکنڈ ڈویژن میں حالیہ کلاوڈ برسٹ اسی موسمیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے جو آنے والے وقت میں اس سے بھی زیادہ خطرناک ہوسکتا ہے۔

قیصر خان کا تعلق ضلع بونیر کے شہر پیربابا سے ہے جو حالیہ سیلاب اور کلاﺅڈ برسٹ سے شدید متاثر ہوا ہے، انہوں نے بتایا کہ ضلع بونیر میں انہوں زندگی اس سے پہلے کبھی اتنا بارش نہیں دیکھا تھا۔ بارش تیز تھی پہر بابا کے بازار میں سیلابی ریلی کا پانی سڑکوں پر اچکا تھا دکانیں مکمل طور پر پانی میں ڈوب چکے تھے اور قریبی گھروں کے اندر پانی داخل ہوگیا تھا لوگوں نے اپنے خاندانوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔
قیصر خان کا کہنا ہے کہ ضلع بونیر کے مرکزی شہر پیربابا سے بشنوئی گاؤں شمال کی جانب پیدل ایک گھنٹہ کہ مصافحت پر ہے۔ جو ایک درے کی صورت دریا کے کنارے لوگ آباد تھے جبکہ درمیان پہاڑوں میں چشموں سے بہنے والا پانی خوبصورت منظر پیش کرتا تھا، 15اگست کو کلاﺅڈ برسٹ کی نظر ہوگیا اور اب ایک ویران جگہ کا منظر پیش کرتا ہے قیصر خان نے بتایا کہ تمام اضلاع میں سب سے زیادہ یہی بشنوئی گاﺅں سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں مقامی افراد کے مطابق دو سو سے زائد افراد جاں بحق کبہ ڈیڑھ سو کے قریب لاپتہ ہیں۔
محکمہ موسمیات کے مطابق 15 اگست کو ضلع بونیر میں ملی لیٹر فی گھنٹہ کے رفتار سے بارش ہوئی جو شدید کلاوڈ برسٹ کے زمرے میں آتا ہے۔
پاکستان کے ماہرینِ موسمیات کی مشترکہ کوشش کے مشترکہ موسمیاتی سوسائٹی کے تحقیقاتی رپورٹ "دریا سندھ انتظار میں ہے اور بادل برسنے والے ہیں”سال 2025 کا مون سون آؤٹ لوک کے مطابق اس سال پاکستان میں جون سے ستمبر تک مانسون کی بارشیں معمول سے تقریباً 13 فیصد زیادہ ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں زیادہ بارش 45فیصد، نارمل بارش 39فیصد، کم بارش 10 فیصد، بہت زیادہ غیرمعمولی بارش 7 فیصد ظاہر کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ہمالیہ اور قراقرم کے پہاڑوں میں اس سال برف معمول سے کم گری ہے۔ مارچ سے مئی 2025 میں پاکستان اور اردگرد کے خطے میں گرمی معمول سے زیادہ تقریباً 1.5 سے 3.5 ڈگری زیادہ رہی۔
مشترکہ موسمیاتی سوسائٹی کے مطابق پنجاب اور بالائی سندھ میں موسم نسبتاً ٹھنڈا رہے گا۔ جبکہ گلگت بلتستان اور بالائی خیبرپختونخوا میں تھوڑی زیادہ گرمی ہوسکتی ہے۔ جو فصلوں کے لیے فائدہ مند ہوگا کیونکہ زیادہ گرمی کا دباؤ نہیں ہوگا، لیکن پہاڑی علاقوں میں گلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے (GLOF) کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔
رواں سال مون سون بارشوں میں تغیر کی وجہ سے ملاکنڈ ڈویژن اور خاص طور پر ضلع بونیر میں بڑے پیمانے پر تباہی کے ساتھ لوگوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ صحافی انور زیب جس کا تعلق ضلع بونیر ایثار سے ہے جو حالیہ سیلاب کے حوالے سے ضلع بونیر سے ایک نجی ٹی وی کو لگاتار رپورٹنگ کے ساتھ اپنے سوشل میڈیا ایکونٹس سے سیلاب کے حوالے سے آگاہی بھی دے رہا ہے انہوں نے کہا کہ ضلع بونیر بشنوئی گاﺅں میں تقریبآ سو سے زیادہ گھرانے تھے جس میں چار کے علاہ ایسا کوئی گھر موجود نہیں جو اس سیلاب سے متاثرہ نہ ہو، اس میں سے زیادہ گھر مکمل طور پر تباہ اور باقی کو جوزوی طور پر نقصان پہنچا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلاحی ادارے سمیت حکومت نے امدادی سرگرمیاں جاری رکھی ہے لیکن سب سے بڑا پینے کا صاف پانی، شیلٹر اور ملبے تلے دبے لاشوں کو نکالنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گھروں پر اتنے بڑے بڑے پتھر پڑے ہیں کہ ان کو بغیر بڑے مشینری کے نکالنا ناممکن ہے اور ہیوی مشنری کو سیلاب کی وجہ سے راستوں کی بندش کی وجہ سے یہاں لانے میں مشکلات ہے۔
پشنوئی گاؤں کے لوگ زیادہ تر رشتہ دار ہی ہے سیلاب کے بعد اب گاؤں کے لوگوں کا ایک ہی حجرے میں قیام ہوتا ہے جہاں سے ایک دوسرے کو اپناہٹ اور دلاسہ ملتا ہے۔ حجرے میں لاش لیا جاتا تھا اور اس کی شناخت کیلئے اکثر خواتین کو بلاکر اس کی شناخت ہوتی لیکن ہر لاش پر چیخ و پکار کی جاتی تھی۔ چند لاشیں بغیر شناخت کے دفنا بھی چکے ہیں۔

بشنوئی میں ایک گھر میں 16اگست کو شادی کی تاریخ بھی مقرر تھی جس کیلئے رشتہ دار اکھٹے تھے اس گھر میں 24افراد سیلاب میں بہہ گئے۔ جس میں20افراد کی لاششیں مل چکی ہیں جبکہ باقی اب بھی لاپتہ ہے۔
اس طرح بشنوئی ایک اور گھر کے 41افراد سیلاب میں بہہ گئے۔ جن میں 25 افراد کی لاشوں کو نکال کران کی تدفین کر دی گئی ہے جبکہ باقی لاشوں کی تلاش جاری ہے۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین خان گنڈاپور کو ملاکنڈ ڈویژن میں سیلاب سے متاثرہ اضلاع کے دورے پر بونیر میں سیلاب کی تباہ کاریوں، ریسکیو اور ریلیف و بحالی کی سرگرمیوں بارے میں اجلاس میں بتا یا گیا کہ ضلع بونیر کے سات ویلج کونسلوں میں کلاوڈ برسٹ سے مجموعی طور پر 5380 مکانات کو نقصان پہنچاہے اور صرف بونیر میں دو سو سے زیادہ اموات رپورٹ ہوئی ہیں، 134 افراد لاپتہ ہیں جبکہ 159 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
ریسکیو اور ریلیف سرگرمیوں میں 10 ایکسکیویٹرز ، 22 ٹریکٹرز، 10 ڈی واٹرنگ پمپس، 5 واٹر باوزرز، اور 10ڈوزر شامل ہیں ریلیف سرگرمیوں میں 223 ریسکیو اہلکار ، 205 ڈاکٹرز، 260 پیرا میڈیکل اسٹاف ، 400 پولیس اہلکار ، 300 سول ڈیفنس کے رضاکار اور پاک فوج کی تین بٹالین حصہ لے رہی ہیں۔
متاثرہ لوگوں کو خوراک، صحت سہولیات ، ٹینٹس، کمبل میٹرس سمیت تمام ضروری اشیا فراہم کی جا رہی ہیں۔ پیر بابا کا 6 کلومیٹر روڈ، گوکند کا 3.5 کلومیٹر روڈ کلیئر کر لیا گیا ہے، 15 مختلف مقامات پر لینڈ سلائیڈنگ کا ملبہ بھی کلیئر کر لیا گیا ہے، ضلع بونیر سمیت 8 متاثرہ اضلاع میں ریلیف ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے ، بونیر میں لاپتہ افراد کی تلاش کے لیے سرچ آپریشن جاری ہے سیلاب میں پھنسے 3500 افراد کو بحفاظت نکال لیا گیا تھا۔ ریلیف سرگرمیوں میں پاک فوج کے دستے بھی حصہ لے رہے ہیں۔
سیلاب میں پیر بابا اور مینگورہ بازار میں سینکڑوں دکانیں تباہ ہونے کے ساتھ سینکڑوں مال مویشی اور درجنوں کے گاڑیاں بھی تباہ ہوچکے ہیں۔ اس کے ساتھ لوگوں کا کاروبار بھی تباہ ہوچکا ہے۔
خیبر پختونخوا کے پراونشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے مطابق اب تک صوبہ بھر کے مختلف علاقوں میں ہونے والی بارشوں اور فلش فلڈ کے باعث حادثات میں اب تک 314 افراد جاں بحق اور 156افراد زخمی ہوئے ہیں۔
پی ڈی ایم اے کے مطابق 17 سے 19اگست کے دوران خیبر پختونخوا کے مختلف حصوں میں مزید شدید بارشوں کا امکان ظاہر کیا گیا ہے جبکہ بارشوں کا موجودہ سلسلہ 21 اگست تک وقفے وقفے سے جاری رہنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔
سیلاب کی وجہ سے مالی اور جانی نقصان کے ساتھ لوگوں کو نفسیاتی مسائل اور متعدی بیماریاں بھی بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ سیلاب زدگان کیلئے فری میڈیکل میں ضلع بونیر کے نامور ڈاکٹر اسحاق نے ایک بیان میں کہا ہے کہ علاقے میں سیلاب کی وجہ سے لوگوں کے اپنے پیارے جاں بحق یا لاپتہ ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے اننکو ذہنی تناؤ کا مسلہ ہوگیا ہے اور تقریبا ہر ایک فرد کو فری میڈیکل کیمپ میں ذہنی سکون کیلئے دوائی دی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا اس کے ساتھ جلد، ہیضہ، آنکھوں کے بیماریاں، خارش، نمونیہ اور دیگر متعدی بیماریوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔