25اور 26اگست کو اسلام آباد میں ساؤتھ ایشیا پیس سسٹین ایبلیٹی انسٹیٹیوٹ اینڈ یونیورسٹی کے زیر اہتمام کا ایک قریب کا اہنمام کیا گیا ہے جس میں افغانستان کے پارلیمان کے سابق خواتین ممبران اور انسانی حقوق کے سرگرم خواتین ارکین کو مدعو کردیاگیاہے۔ تقریب کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ملاجلہ ردعمل سامنے آرہاہے تاہم اس بات کی تاثر دینے کی کوشش کی گئی گوکہ اُن لوگوں کو مدعو کیاگیا جو افغان طالبان کے مخالف یا اُن پالیسوں پر شدید تنقید کرتے ہیں۔

تقریب کے حوالے ساؤتھ ایشیا پیس سسٹین ایبلیٹی انسٹیٹیوٹ اینڈ یونیورسٹی کے سربراہ ڈاکٹر ماریہ سلطان نے کہاکہ یہ اسلام آباد پراسس کی ابتدء ہے، جن کا بنیاد مقصد دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں پاکستان اورافغانستان کے عوام کو دپیش مسائل کو کم کرنے حوالے سے لائحہ طے کرنا ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ اس تقریب میں صرف اور صرف عام لوگوں کے نقطہ نظر کے ساتھ اصل مسائل کو سامنے لانا ہے۔ اُن کے بقول پہلے اجلاس میں افغان طالبان کو مدعو نہیں کیا گیا لیکن مسقتبل میں اُن نمائندہ وفد کو شرکت کا موقعہ دئینگے تاکہ اپنا موقف پیش کرسکے اور اُن کے ساتھ جوڑے مسائل کے حوالے سے لائحہ عمل بتا سکے۔

ساؤتھ ایشیا پیس سسٹین ایبلیٹی انسٹیٹیوٹ اینڈ یونیورسٹی کے مطابق ہونے والا تقریب کانفرس نہیں بلکہ دونوں ممالک کے لوگوں کے رائے جانے کے ساتھ درپیش مسائل کو سامنے لانا ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ اجلاس بند دروازوں کے پیچھے منعقد کی جائیگی اور محد ود پیمانے پر معلومات ذرائع ابلاغ تک پہنچائی جائیگی۔ تقریب کے حوالے سے یہی تاثر پھیلاجارہاہے کہ افغانستان میں براسرقتدار طالبان کے بعض سخت پالیسوں کے خلاف لوگوں کو منظم کیاجارہاہے تاہم سنیئر صحافی اور افغان اُمور کے ماہرطاہر خان کاکہنا ہے کہ طالبا ن کے بعض پالیساں اورخصوصالڑکیوں کے تعلیم و خواتین نوکریوں پر پابندی جیسے سخت پالیسوں میں ایک تقریب سے تبدیلی ممکن نہیں۔ اُنہوں نے کہاکہ پچھلے کچھ عرصے سے آگر افغان طالبان کے قیادت کے بیانات کو دیکھ لیں تو اُس میں ایساکوئی اشارہ نہیں مل رہاہے کہ وہ اپنے پالیسوں میں تبدیلی کے لئے تیار ہے۔ اُن کے بقول اس قسم کے تقریبات، پاکستان اور ایران سے لاکھوں کے تعداد میں مہاجرین کے واپسی کے ساتھ لڑکیوں کے تعلیم پر پابندیوں کے حوالے افغان طالبان پر دباؤ میں اضافہ ہوگا کیونکہ ان مہاجرین کے بچے دوسرے ممالک میں زیر تعلیم تھے۔

تقریب کے حوالے سے امریکہ افغانستان کے سابق سفیر اور دوخہ امن معاہدے اہم شحصیت زلمی خلیل زاد اپنے ایکس اکاؤنٹ پر پاکستان کے اس اقدم پر تشویش کا اظہار کیاہے۔اُنہوں نے کہاکہ اس قسم کے تقریبات کا انعقاد سے مسائل اور علط فہمیوں میں اضافہ ہوگا تاہم ڈاکٹرماریہ سلطان نے اس تاثر ہو مکمل طورپر رد کردیا اور موقف اپنایاکہ یہ تقریب بالکل طالبان کے خلاف نہیں بلکہ خطے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اور بدامنی سے دونوں ممالک کے عام لوگوں ں کو بھاری وجانی مالی نقصان اُٹھانا پڑرہاہے۔اُنہوں نے کہاکہ تقریب میں عام لوگوں کو یہ موقع فراہم کردیا گیا کہ وہ اپنا تکلیف سامنے لا سکے تاکہ اُن کے حل کی تلاش کیاجائے۔ اُنہوں نے کہاکہ کسی بھی آمن کے کوشش آپ عام لوگ اور اُن کے رائے کو دبایا نہیں جاسکتے ہیں۔اُن کے بقول اصل اور زمینی حقائق کو سامنے لانے کے ساتھ عام لوگوں کے تکلیف سامنے لانے کے لئے مواقع فراہم کیا جارہاہے۔

ذرائع کے مطابق پاکستان افغان طالبان کو اس بات باور کرنا چاہتاہے کہ یہ تقریب کے اُن کے خلاف نہیں البتہ تجزیہ کاروں کے مطابق اسلام آباد اور کابل کے درمیان پاکستانی طالبان، سرحد پر بدامنی واقعات، دوطرفہ تجارت میں حائل روکاٹیں اور دیگر مسائل کے حل میں پاکستان دباؤ بڑھنے میں کامیاب ہوجائیگا۔پچیس اور چھبیس آگست کو اسلام آباد میں تقریب ایسے وقت میں ہورہاہے کہ ایک طرف افغان طالبان کے اقتدار میں چار سال پوری ہوچکے ہیں جبکہ دوسرے جانب آج کابل میں پاکستان، چین اور افغان طالبان کے وزارت خارجہ ملاقات ہوئی۔ طاہر خان کے مطابق تینوں ممالک وزرات خارجہ کے ملاقات پہلے پلان اور اُن مسائل کو زیربحث لانا تھا جوکہ پہلے بیجنگ کے غیر رسمی اجلاس میں طے ہواتھا۔ اُن کے بقول کابل اجلاس کے ایجنڈے میں پہلانقطہ پاکستانی طالبان اور سیکورٹی کے مسائل تھے۔ اس کے ساتھ سی پیک کے افغانستان اور وسطی ایشائی ممالک تک توسیع کے ساتھ ازبکستان سے افغانستان کے راستے گیس پائپ لائن کے منصوبے پر بھی بات چیت اس اجلاس کا حصہ تھا۔ اُنہوں نے کہاکہ افغان طالبان کے جانب سے بھی دعیش کے حوالے پاکستان سے شکاتیں موجودہ ہیں اور اُن کا الزام ہے یہ مسلح گروہ پاکستان سے افغانستان پر حملے کررہے ہیں۔اُن کا مزید کہناتھا کہ پچھلے ایک مہینے میں یہ دوسرا ہم اجلاس کابل میں منعقد کیا گیا جوکہ طالبان کے لئے بھی بین الاقومی سطح پر سفاری کار ی کے حوالے ایک مثبت پیش رفت سمجھاجاتاہے۔

تقریب میں شرکت کرنے والے افغان شرکاء کے ایک لسٹ سوشل میڈیاپر وائرل ہوچکا ہے سابق پارلیمنٹ اور خواتین سماجی کارکنوں کے نام شامل ہیں جن کی تصدیق ڈاکٹر ماریہ سلطان کی۔ اُنہوں نے کہ پاکستانی شرکاء کے فہرست پر کام جاری جن میں ماہرین، پالیسی ساز اور صحافیوں کے نام شامل ہونگے۔اُنہوں نے کہاکہ تقریب میں اعتماد کے بحالی اور اتفاق رائے پیدا کی جائیگی تاکہ مسائل کے میں آسانی پید ا ہوسکے۔

رواں سال جولائی کے آخر میں پاکستان نائب وزیر اعظم اور وزیرخارجہ اسحاق ڈر ایک اعلی وفد کے ہمراہ کابل گئے جبکہ چند بعد وزیرداخلہ محسن نقوی نے بھی کابل کا دورہ کیا۔پاکستانی ہم منصب نے افغان طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کو پاکستان کے دورے کی دعوت دی تاہم چار اگست کے متوقع دورہ بعض مسائل کے بناء پر مطوی کرنا پڑا۔یہ درہ ایسے وقت میں ہونا تھا کہ پاکستان نے ملک میں مقیم ساڑھے چودھ لاکھ پی او آر کارڑ حامل مہاجرین کے انخلاء کے لئے اکیتس اگست کی مہلت مقرر کردی گئی اور توقع کی جارہی تھی تھی امیر خان متقی کے دورے سے مہاجرین کے مسائل میں کمی واقع ہوگی۔

اسلام گل
بانی و مدیر اعلٰی ٹائم لائن اردو، اسلام گل افریدی مختلف قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کےساتھ کام کرنے والے سینئر صحافی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں