محمد یونس

باڑہ، خیبر: خیبر پختونخوا کے جنوبی کنارے پر طلوعِ آفتاب اب کسی نئی شروعات کی بجائے ایک وارننگ محسوس ہوتا ہے۔

گرمی وقت سے پہلے ہی اُتر آتی ہے۔ خیموں کی کپڑے اور اصطبل کی لکڑی کے تختے سورج نکلنے سے پہلے ہی پسینے سے بوجھل ہو جاتے ہیں۔ انہی لمحوں میں 48 سالہ کریم خان آنکھیں کھولتے ہیں۔ ان کے سامنے وہ منظر ہے جہاں کبھی گرمیوں کی ہریالی موجوں کی صورت آتی تھی، اب صرف خشک میدان ہے۔ ان کے بکریاں ڈھیلے اور تھکے ہوئے جھنڈ میں بیٹھی ہیں۔کچھ کھانستی ہوئی، کچھ بے حس و حرکت۔

کریم ایک ایسی فضا میں پلے بڑھے جہاں وقت زمین کے ساتھ چلتا تھا۔ موسم یہ بتاتے تھے کہ کب میدانوں سے اتر کر اونچے چراگاہوں کی طرف جانا ہے، بارشیں کب اتنی ہوں گی کہ گھاس اُگ سکے گی۔ مگر اب وہ ترتیب ٹوٹ چکی ہے۔“آسمان اب اپنے وعدے نہیں نبھاتا،”وہ افسردگی سے کہتے ہیں۔

باڑہ کی چراگاہیں سوکھ چکی ہیں۔ ندیاں جو کبھی کھیتوں میں بہتی تھیں، اب گرمیوں کے شروع ہوتے ہی غائب ہو جاتی ہیں۔ سوات اور چترال کی بلند وادیوں میں بھی، جہاں کبھی تھکے ہوئے چرواہے سکون پاتے تھے، اب خشک گھاس اور کمزور چشمے ان کا استقبال کرتے ہیں۔

اعداد و شمار اس بگڑتی حقیقت کی گواہی دیتے ہیں۔ محض تین سالوں میں ڈیرہ اسماعیل خان میں بکریوں کی تعداد 11 فیصد کم ہوئی۔ لکی مروت میں بھیڑیں 14 فیصد گھٹ گئیں۔ کرم اور اورکزئی میں چراگاہیں سکڑنے سے 12 فیصد نقصان ہوا۔ خیبر ضلع، جو ہزاروں چرواہا خاندانوں کی روزی کا مرکز ہے، اپنی 10 فیصد مال مویشی کھو چکا ہے۔ یہ کمی صرف گوشت اور دودھ کی پیداوار پر نہیں، بلکہ زندگی کے تسلسل پر ضرب ہے۔

اعداد و شمار اس زخم کی گہرائی بیان نہیں کر سکتے۔ پشتون خطے میں چرواہی صرف آمدن نہیں بلکہ صدیوں پرانی ثقافت، زمین اور انسان کے رشتے کا نام ہے۔دراصل یہ بحران سرحدوں سے آزاد ہے۔ مشرقی افغانستان کے پکتیا، ننگرہار اور خوست میں بھی چرواہے اسی کرب سے گزر رہے ہیں۔ وہاں لوگ اپنے ریوڑ کا آدھا حصہ بیچ دیتے ہیں تاکہ باقی مویشیوں کے لیے چارہ خرید سکیں۔ پانی کی کمی نے ان کے دنوں کو مزید اجیرن بنا دیا ہے۔ ڈھانچے انسانوں کو تو بانٹ دیتے ہیں، مگر قحط اور گرمی کو نہیں۔

اس بحران کے اثرات شہروں تک پہنچ چکے ہیں۔ پشاور، مردان اور کوئٹہ میں گوشت کی قیمتیں دو سال میں 25 فیصد بڑھ چکی ہیں۔ عید جیسے تہوار جہاں کباب اور بھنے ہوئے گوشت کی خوشبو ایک پہچان تھی، اب کم گوشت کی قربانی اور چھوٹے ولیمے کی علامت بنتے جا رہے ہیں۔

ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ پشتون بیلٹ پاکستان کے مستقبل کی ایک جھلک ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق 2030 تک مویشیوں کی پیداوار 30 فیصد تک گر سکتی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن نے اس خطے کو فوڈ اِن سکیورٹی کا ہاٹ اسپٹ قرار دیا ہے۔گرمی کے اثرات صرف پیداوار نہیں بلکہ صحت پر بھی پڑ رہے ہیں۔ جانوروں میں قوتِ مدافعت کم ہو رہی ہے۔ بیماریوں کا دورانیہ پورا سال پھیل گیا ہے۔ نمونیا، منہ کھر اور خونی بیماریوں نے کم عمر مویشیوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔

حکومتی منصوبے موجود ہیں —خشک سالی برداشت کرنے والی گھاس، نئے نسلی جانور، موبائل ویٹرنری یونٹس۔ لیکن چرواہوں کے مطابق یہ سہولت اکثر وقت سے بعد میں پہنچتی ہے، جب بچانے کو کچھ باقی نہیں رہتا۔

خیبر پختونخوا پہلے ہی تباہ کن سیلاب، جان لیوا گرمیوں اور بڑھتی خشک سالی کا سامنا کر رہا ہے۔ اس سب کے باوجود چرواہے اپنی روایت کے مطابق پہاڑوں کی طرف کوچ کرتے ہیں، جہاں ہر سال گھاس کم ہوتی جا رہی ہے۔ یہ ایک ایسی بازی ہے جو وہ کھیلنے پر مجبور ہیں کیونکہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔

کریم نے اپنی آنکھوں کے سامنے ریوڑ سکڑتے دیکھا، ننھے بکرے دفن کیے جو دوڑنے سے پہلے ہی مر گئے۔ پھر بھی ان کی نگاہیں دور پہاڑوں کی طرف اٹھتی ہیں۔“اگر وہاں کی گھاس بھی مر گئی،”وہ آہستگی سے کہتے ہیں،“تو ہماری کہانی بھی ختم ہو جائے گی۔”

پاکستان نے اقوامِ متحدہ کے کنونشن ٹو کامبیٹ ڈیزرٹیفیکیشن کے تحت 2030 تک لینڈ ڈیگریڈیشن نیوٹرلٹی کا ہدف طے کیا ہے۔ اس کے تحت چراگاہوں، کھیتوں اور جنگلات کی بحالی کے منصوبے جاری ہیں۔ بلین ٹری سونامی جیسے اقدامات سے خیبر پختونخوا کا جنگلاتی رقبہ 26 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔مگر باڑہ کی سوکھی زمین پر یہ وعدے ابھی دور لگتے ہیں۔ گھاس مسلسل مر رہی ہے، اور اس کے ساتھ ایک پرانی طرزِ زندگی بھی، جو ہزاروں سال سے یہاں کی کہانی کا حصہ تھی۔

ٹائم لائن اردو ٹیم
ٹائم لائن اردو کے رپورٹرز، صحافی، اور مصنفین پر مشتمل ٹیم

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں