
گزشتہ کچھ عرصے سے جرمنی نے اُن افغان باشندوں کو منتقل کرنے کے پروگرام عارضی طورپر بند کردیا تھا جن کے تمام دستاویزی کاروائی منتقلی کے لئے مکمل ہوگئی تھی لیکن حال ہی میں پاکستان کے جانب سے ملک میں قیام پذیر افغان مہاجرین کے انخلاء کے حوالے اُٹھائے جانے والے اقدامات کے بعد جرمنی نے دوبارہ افغان باشندوں کے منتقلی کا عمل شروع کردیا اور کوشش کررہے ہیں یہ عمل تیز ہوں۔
جرمنی کی حکومت نے پچھلے ہفتے افغان مہاجرین کے منتقلی کے حوالے سے اپنی یہ پالیسی تبدیل کر دی اور کہاکہ خطرے سے دوچار افغان باشندوں کو پاکستان سے جرمنی منتقل کیا جائے گا۔
جرمن اخبار ”بیلڈ” کے مطابق، حکومت پیر کے روز افغان باشندوں کے لیے وقتی طور پر معطل شدہ قبولیت پروگرام دوبارہ شروع کر رہی ہے۔ یہ خبر جمعرات، 28 اگست 2025 کو حکومتی ذرائع کے حوالے سے شائع کی گئی۔ اطلاعات کے مطابق ان افغان باشندوں کی آمد آئندہ پیر کو متوقع ہے۔ اخبار کے مطابق ان لوگوں کواسلام آباد انٹرنیشنل ائیرپورٹ سے استنبول اور وہاں پر ایک گھنٹے کے مختصر قیام کے بعد جرمنی کے شہر ہینوور پہنچیں گے۔
اخبار کے مطابق ان افراد کو جرمنی لانے کے بارے میں مطلع کر دیا گیا ہے۔ اس پرواز میں خواتین اور بچوں سمیت تقریباً 50 افراد شامل ہوں گے۔ ان افراد سے متعلق کوئی سیکیورٹی خدشات موجود نہیں۔
مذکورہ لوگ ان دو ہزار تین سو افراد میں سے ہیں جن کو جرمنی میں قبولیت کی یقین دہانی کرائی گئی تھی لیکن وہ تاحال پاکستان میں پھنسے ہوئے ہیں۔اس اقدام کے حوالے تاحال جرمنی حکومت نے باضابطہ طورپر تصدیق نہیں کی ہے۔
جرمنی آنے کی درخواست دینے والے وہ افراد ہیں جنہوں نے افغانستان میں جرمن فوجی مشن کے دوران مقامی عملے (جیسے مترجمین) کی حیثیت سے خدمات انجام دی تھیں، یا ایسے افراد ہیں جو اپنے کام کی نوعیت کے باعث طالبان کے جانب سے شدید خطرے کا سامنا کر رہے ہیں۔ان لوگوں میں مقامی افغان حکومت کے ملازمین، انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافی شامل ہیں جن کو جرمنی میں پناہ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔
جرمن وزارت خارجہ کے مطابق، حالیہ دنوں میں 450 سے زائد افغان باشندے، جنہیں جرمنی میں قبول کیے جانے کی یقین دہانیاں حاصل تھیں، پاکستان میں قید ہو گئے تھے۔ ان میں سے 245 افراد کو جرمن حکومت کی مداخلت سے حراستی کیمپوں سے نکالا گیا۔ معلومات کے مطابق پاکستان نے جرمنی کی قبولیت کی یقین دہانی رکھنے والے 210 افغان باشندوں کو زبردستی واپس افغانستان بھجوا دیا تھا۔
ہفتے کے آغاز میں جرمن حکومت نے عدالت کے حکم کے بعد اپنی پالیسی اس بنیاد پر تبدیل کی کہ اگر وزارتِ خارجہ نے اپنی وعدہ کردہ پناہ کے تحت ان افغان باشندوں کو ویزے نہ دیے تو جرمانے کی صورت میں قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عدالت کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ اگر جرمن حکومت اپنی ویزا دینے کی زمہ داری پوری نہ کرے تو اسے مالی جرمانے کا سامنا کرنا ہوگا۔
دوسری جانب ہزاروں کے تعداد افغان باشندے کسی تیسری ملک منتقلی کے لئے پاکستان میں خوف کی زندگی گزری رہے ہیں جبکہ کچھ بڑھتے ہوئے مسائل کے بناء واپس افغانستان جاچکے ہیں۔ کسی تیسری ملک منتقلی کے انتظار کرنے والے افغان باشندوں نے کئی مہاجرین کے عالمی ادارے کے دفتر کے سامنے پشاور میں مظاہرے کر چکے ہیں تاہم دوسرے جانب ادارے کا موقف تھا کہ ان لوگوں کے منتقلی کا انحصار بیرونی ممالک کے فیصلوں پر ہے کہ وہ کتنے لوگوں کو اور کب لے جانا چاہتا ہے ۔
پاکستان نے ستمبر 2023کو پہلے مرحلے میں غیرقانونی جبکہ دوسرے مرحلے میں اے سی سی کارڈ کے حامل مہاجرین کو ملک چھوڑنے کا اعلان کیا۔حال ہی میں اسلام آباد نے پی اوآر کارڈ کے حامل ساڑھے چودہ لاکھ افغان مہاجرین کو واپس جانے کے لئے رواں مہینے کے 31تاریخ کی مہلت دی ہے۔ اگست 2021میں افغانستان میں اقتدار طالبان کو منتقل ہونے کے بعد ایک اندازے کے مطابق ساڑھے چھ لاکھ افغان مہاجرین پاکستان آچکے ہیں جن میں اکثریت وہی لوگوں کی ہے جو سابق حکومت میں مختلف سرکاری محکموں میں ملازم تھے اورکسی بیرونی ممالک کے مشن میں خدمات سرانجام دیں رہے تھے۔ اس میں صحافی، موسیقار، خواجہ سرا اور سماجی کارکن بھی شامل ہیں۔ ان لوگوں کا موقف ہے کہ افغانستان میں اُن کے جان کو خطرہ درپیش ہے جس کے وجہ سے وہ پاکستان منتقل ہوچکاہے تاکہ کسی تیسری ملک منتقل ہوسکے۔
پاکستان کاموقف ہے کی اسی ہزار سے زیادہ افغان باشندوں کو بیرونی ممالک منتقلی میں اُن کی مدد کی گئی ہیں تاہم بعض ذرائع کے مطابق پچیس ہزار کے قریب افغان باشندے پاکستان میں کسی تیسری ملک منتقلی کے لئے انتظار کررہے ہیں۔