لائبہ نایاب کو آج بھی وہ دن بھولے سے نہیں بھولتا جب ایک نوجوان ہاتھ میں پستول لئے اس کے دروازے پر تھا۔ "مجھے آج بھی یاد ہے کہ وہ کتنے غصے میں تھا اور مجھے کہہ رہا تھا کہ میں اس کے پیسے کھا گئی ہوں اور اس کے بعد میں نے فون بھی بند کر دیا ہے۔ مجھے تو پتہ بھی نہیں تھا کہ یہ بندہ کون ہے اور کیا بات کر رہا ہے”۔ یہ نوجوان لائبہ پر تشدد ، توڑ پھوڑ کے بعد لائبہ کا موبائل لیکر وہاں سے چلا گیا۔

لائبہ کو بعد میں پتہ چلا کہ یہ سارا مسئلہ سوشل میڈیا کی وجہ سے ہوا جب کسی نے اس کے جعلی اکاؤنٹس بنا کر لوگوں سے پیسے لیے اور اس کے دروازے پر پستول لیکر آنے والا نوجوان ان میں سے ایک تھا جس سے ان جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے پیسے لیے گئے تھے۔

لائبہ نایاب پشاور سے تعلق رکھنے والی ایک خواجہ سراء ہے۔ وہ سوشل میڈیا پر اپنی رقص کی ویڈیوز اور تصاویر شیئر کرتی ہیں تاکہ وہ اپنی ڈانس پارٹیوں کے زیادہ سے زیادہ فین پیدا کرسکے۔ یہ اُن کی کمائی  بڑھنے کا راستہ ہے۔

لائبہ کے واقعہ کی رپورٹ قریب کوتوالی تھانے میں درج کروائی اور پولیس نے ملزم کو گرفتار کرکے موبائل بھی برآمد کر لی تھی۔ لیکن ملزم کے خاندان کے جانب سے بات ختم کرنے کیلئے تھانے میں جرگہ کے ذریعے راضی نامہ ہونے کے بعد ملزم کو بغیر کسی قانونی چارہ جوئی رہا کردیا گیا۔

آرزو خان خیبر پختونخوا کے خواجہ سراء برادری تنظیم کے صدر ہونے کے ساتھ ساتھ منزل فاونڈیشن کے سربراہ بھی ہیں ۔ منزل فاؤنڈیشن پچھلے پندرہ سالوں سے صوبے بھر میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے لئے کام کررہی ہے۔ آرزو خان کے مطابق لائبہ کے کیس میں پولیس نے جعلی اکاؤنٹ کے بندش کے لئے نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے)جانے کا کہا تھا۔ لیکن لائبہ کی جانب سے این سی سی آئی اے میں دروخواست جمع نہیں کروائی گئی اور لائبہ کے نام سے بنے جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹس ابھی تک فعال ہیں ۔

جب ان سے درخواست جمع نہ کروانے کی وجہ پوچھی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے بھی خواجہ سراؤں کے ساتھ ایسے کئی واقعات پیش آ چکے ہیں اور ان کی جانب سے ایف آئی اے کے سائبرکرائم ونگ اور موجودہ این سی سی آئی اے کے پاس کئی درخواست جمع کروائی گئی لیکن اُن پرکوئی کاروائی نہیں ہوئی اور نہ ہی ادارے کے جانب سے کوئی معاونت فراہم کی گئی۔

سائبر ہراسمنٹ کی وجہ سے ہونے والی مشکلات نے نا صرف خواجہ سراؤں کو صوبہ بلکہ بعض کیسسز میں ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔ آذان ان میں سے ایک ہیں جن کو ان کے نام سے بنے جعلی اکاؤنٹس کی وجہ سے بیرون ملک منتقل ہونا پڑا کیونکہ ان کے نام سے جعلی اکاؤنٹس بنا کر لوگوں نے پیسے بنائے اور جن لوگوں نے پیسے دئیے وہ آذان کی جان کے در پے تھے اس لئے ان کو جان بچانے کے لیے ملک چھوڑنا پڑا۔

غیر سرکاری تنظیم دہ ہوا لور صوبے بھر میں خواجہ سراؤں کے حقوق اور آگاہی کے لئے کام کررہی ہے ۔ دہ ہوا لور کی ڈائریکٹر شوانہ شاہ کے مطابق معاشرے میں خواجہ سراؤں کے لیے دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے استعمال کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل بھی بڑھ رہے ہیں۔ خواجہ سراء جو مواد اپنے اکاونٹ سے شیئر کر رہے ہیں وہ ان کے اپنے خلاف ہی استعمال ہو رہا ہے۔ جبکہ کچھ واقعات میں زبردستی خواجہ سراؤں کے نازبیا وڈیوز اور تصاویر بنا کر اُن کو بلیک میل کیا جاتاہے۔اُن کے مطابق خواجہ سراؤں کو ڈیجٹیل پلیٹ فارمز کے استعمال اور بعد میں اس پید اہونے والے مسائل کے حل کے لئے قانونی چارہ جائی کے حوالے سے آگاہی کی ضرورت ہے۔

ایڈوکیٹ مہوش ثناء صدیقی جو کہ خواجہ سراؤں کو مفت قانونی معاونت فراہم کرتی ہے،کے مطابق خواجہ سراء اکثر خوف، شرمندگی، یا اعتماد کی کمی کی وجہ سے متعلقہ اداروں سے مدد نہیں لیتے،۔ مہوش ثناء کے مطابق پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کی تحت سائبر کرائمز کی سزا تین سے پانچ سال قید اور لاکھوں روپے جرمانہ ہو سکتی ہے۔ اور خواجہ سراء سائبر کرائمز کے متعلق آن لائن شکایت بھی درج کروا سکتے ہیں ۔ اس کے لیے انہیں شناختی کارڈ کی کاپی کے ساتھ ساتھ سائبر کرائم کے ابتدائی شواہد بھی درخواست کے ساتھ جمع کروانا ہوں گے۔

آرزو خان کے مطابق خواجہ سراؤں کے لئے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے استعمال کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل میں دن بدن اضافہ ہورہاہے۔اُن کے بقول پچھلے چند ہفتوں میں سات ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں کہ جس میں ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے استعمال سے نہ صرف خواجہ سراؤں کو تشد د کا نشانہ بنایا گیابلکہ دو خواجہ سراؤں کو غیرت کے نام پر خاندان والوں نے اس وجہ سے قتل کردیا کہ کسی نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ سے اُن کے ڈانس کی وڈیو ز شئیر کی تھیں اور وہ ان کے خاندان والوں نے دیکھ لئے اور غیرت کے نام پر ان کو قتل کر دیا ۔

منزل فاونڈیشن کے مطابق سال 2010سے ابتک خواجہ سراؤں پر تشدد کے اٹھارسو واقعات رجسٹرڈ ہوچکے ہیں جبکہ 158خواجہ سراؤں کو قتل کیاجاچکا ہے۔ ادارے کے مطابق رواں سال کے صرف پہلے چھ مہینوں میں آٹھ خواجہ سراؤں کو قتل کیاگیا ہے۔

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن ملک بھر میں لوگوں کو سائبر کرائم کے حوالے سے مفت قانونی معاونت اور رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ ادارے کے پاس ٹیلی فون یا ای میل کے ذریعے شکایت درج کرتے ہیں۔ ادارے کے اعداد شمار کے مطابق رواں سال پہلے پانچ مہنیوں میں 775شکاتیں موصول ہوچکے ہیں جن میں 11خواجہ سراء افراد سے متعلق ہیں۔
خیبر پختونخوا کے محکمہ سماجی بہبود کے ساتھ صوبے میں 450 خواجہ سراء افراد رجسٹرڈ ہیں، جبکہ نادرا نے اب تک 163 کو ایکس جنس کے ساتھ شناختی کارڈ جاری کیے ہیں۔ جبکہ خواجہ سراء تنظیموں کا کہنا ہے کہ صوبے میں خواجہ سراؤں کی تعداد 50 ہزار سے بھی زیادہ ہیں۔

این سی سی آئی خیبر زون کے حکام کے مطابق خواجہ سراء سائبر کرائمز کے حوالے سے بہت کم اپنے کیسسز رپورٹ کرتے ہیں ۔ اور آخری کیس صوبے کی مشہور خواجہ سراء ڈولفن ایان کا تھا جس میں نے اُن کی براہنہ وڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر شیئر کردی تھی۔ حکام کے مطابق ملزم کی گرفتاری کے لئے بہت زیادہ کاروائیاں کی گئی لیکن بعد میں فریقین میں راضی نامہ ہو گیا۔ ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کے اعدادو شمار کے مطابق سال 2024 میں ملک بھر سے تین ہزار 171 کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں صرف 18 کیسز خواجہ سراء کے تھے۔

ایڈوکیٹ شوانہ شاہ کے مطابق سائبر کرائمز کے حوالے سے قانون اور ادارے موجود ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ خواجہ سراؤں کو اس حوالے سے آگاہی دی جائے ۔ اس کے ساتھ ساتھ متعلقہ اداروں میں بھی اس طرح کا ماحول بنانے کی ضرورت ہے کہ خواجہ سراء بنا کسی خوف اپنا مسئلہ بتا سکیں ۔ جب تک ان اداروں پر خواجہ سراؤں کا اعتماد بحال نہیں ہو گا مسائل کا حل ممکن نہیں ہے۔ آرزو خان کے مطابق ان اداروں میں خواتین یا خواجہ سراؤں کی تقرری خواجہ سراؤں کے مسائل کے حل میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

اسلام گل
بانی و مدیر اعلٰی ٹائم لائن اردو، اسلام گل افریدی مختلف قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کےساتھ کام کرنے والے سینئر صحافی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں