قبائلی ضلع باجوڑ کے گاؤں سیرئی تحصیل خار کے 65سالہ عبدالرشید خان کے گھر کے دوکمرے 2015 کے زلزلے میں منہدم ہونے تھے جس میں گھر کے تمام سامان مکمل طور پر تباہ ہوا تھا تاہم خوش قسمتی سے اس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔ رشید نے اس زلزلے کے حوالے سے اپنے  روداد بیان کرتے ہوئے بتایا کہ وہ زلزلہ اتنا شدید تھا کہ ان کو ایسا محسوس ہوا تھا کہ یہ قیامت کا دن ہے۔ ان کے آنکھوں کے سامنے ہر طرف گردو غبار نظر آرہا تھا کیونکہ ان کے گھر سمیت گاؤں میں دوسرے گھروں میں بھی کئی کمرے منہدم ہوئے تھے لیکن پوری گاؤں میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔

رشید نے اپنا گھر دوبارہ مکمل طور پر تعمیر کیا ہے۔ پہلے ان کے گھر سمیت گاؤں کے  تمام گھر  کچے تھے لیکن پھر  ان سمیت گاؤں کے زیادہ تر لوگوں نے پکے تعمیر کئے۔ انہوں نے حکومتی امداد کے حوالے سے کہا کہ ان کو حکومت کی طرف سے ایک لاکھ روپے فی کمرے کے حساب سے ملے تھے  جس کے ساتھ کچھ پیسے اپنے ملا کر انہوں نے اپنے گھر کے کمرے دوبارہ تعمیر کئے ہیں ۔انہوں نے مزید کہا کہ اب ان کے ذہنوں میں اس زلزلے کے وہ خوفناک منظر موجود ہے اور جب بھی زلزلہ آتا ہے تو وہ ڈر محسوس کررہے ہیں کہ کہی اسی طرح ان کے گھر منہدم نہ ہو جائے ۔

شاہد خان کے گھر کا ایک کمرہ بھی 2016 کے  زلزلہ کی وجہ گرا تھا  جو کچا تھا  اور وہ اس کو ستور کے طور پر استعمال کررہا تھا۔ جبکہ گھر میں  باقی کمرے پکے تھے جو  منہدم ہونے سے محفوظ تھے ۔ ان  کو کوئی امداد نہیں ملا تھا کیونکہ ان کے مطابق حکومت کی یہ پالیسی تھی کہ جس کے رہائشی کمرے منہدم ہوئے تھے تو اس کو مغاوضہ ملتا تھا جبکہ ان کے رہائشی کمرے محفوظ تھے اس لئے وہ اس امداد کے زمرے میں نہیں اتے تھے۔  جبکہ ان کے آس پاس جتنے لوگوں کے گھر منہدم ہوئے تھے ان سب کو مغاوضے ملے ہیں۔

دنیا میں آئے ہوئے چند بڑے زلزلے جس میں بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصانات  ہوئے:

1920ء میں چین میں زلزلہ ایا تھا اس زلزلے میں دولاکھ پینتیس ہزارافراد ہلاک ہوئے تھے،1921ء میں چین میں دوسرا بڑا زلزلہ آیا تھا جس میں دولاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے،1923ء میں جاپان کے شہر اوکالاہاما  زلزلے میں ایک لاکھ چالیس ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے، 1935 کو پاکستان کے شہر کوئٹہ  کے زلزلے میں ساٹھ ہزار افرادشہید ہوئے تھے،1980ء میں اٹلی کے زلزلے میں تریاسی ہزار83000افراد ہلاک ہوئے تھے،2001ء میں ہندوستان کے شہر گجرات میں چالیس ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔

2004 میں سونامی  (سمندری زلزلے)سے ہندوستان،انڈونیشیا ء،سری لنکااورتھائی لینڈمیں دولاکھ افراد لقمہ اجل بنے تھے، 2005میں پاکستانی کشمیر اور صوبہ خیبر پختونخواہ  میں 70 ستر ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ 2015   میں نیپال  کے زلزلے میں تقریبا چودہ ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان زلزلوں میں مالی نقصانات کا تخمینہ کھربوں ڈالرز میں تھا۔ 26 اکتوبر 2015میں پاکستان میں 8.1شدت کا زلزلہ آیا تھا جس سے خیبر پختون خواہ کے ملاکنڈ ڈویژن اور ٖقبائلی علاقہ اور ضلع باجوڑ میں 270تک لوگ شہید اور 1000کے قریب زخمی ہوئے تھے۔  اور ہزاروں کے لگ بھگ املاک کو نقصان پہنچا تھا اور جو سروے کیا گیا تھااس کے مطابق اربوں کا نقصان ہواتھا۔

23ستمبر2019کو صوبہ خیبر پختون کواہ، پنجاب اور آزاد کشمیر میں زلزلے آیا تھا جس سے آزاد کشمیر ضلع میرپور کے  اور اس کے مضافاتی علاقے زیادہ متاثر ہوئے اور 37افراد شہد اور 500سے زائد زخمی ہوئے۔ سینکڑوں املاک کو نقصان پہنچا۔26 اکتوبر 2015میں پاکستان میں 8.1شدت کا زلزلہ آیا تھا جس سے خیبر پختون خواہ کے ملاکنڈ ڈویژن اور ٖقبائلی علاقہ اور ضلع باجوڑ میں 270تک لوگ شہید اور 1000کے قریب زخمی ہوئے تھے۔  اور ہزاروں کے لگ بھگ املاک کو نقصان پہنچا تھا اور جو سروے کیا گیا تھااس کے مطابق اربوں کا نقصان ہواتھا۔

یکم ستمبر2025 کو رات 12بجکر  18منٹ  کو پاکستان کے بیشٹر علاقوں سمیت  افغانستان کے شمال مشرقی صوبہ کونڑ  کے کئی اضلاع  میں  6.0 شدت کا زلزلہ ٓیا تھا جس میں  2000 ہزار افراد جاں بحق  ہوئے ہیں اور ایک ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں جبکہ شہادتوں اور زخمیوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے کیونکہ ابھی تک ملبے کے نیچے لوگ موجود ہیں جس کے نکالنے کے لیے ریسکیو آپریشن جاری ہے۔   املاک کے حوالے سے نقصانات کا   صحیح تفصیل معلوم نہیں ہے۔

زلزلہ اور جدید سائنس :

جدید سائنس کے مطابق زمین کے آخری حصے کے اندر گرمی کے وجہ سے وزن والے چیز زمین کے نیچے جاتی ہے اور جس چیر کے وزن کم ہوتی ہے وہ زمین کے اوپر آجاتی ہے جیسا کے اگر پانی کے اوپر تیل ڈالا جائے تو وہ پانی کے سطح پر آتی ہے۔اسی طرح جب کوئی چیز زمین کے نیچے جاتی ہے تو اس کے وجہ سے ایک کرنٹ پیدا ہو تی ہے۔زمین کی تقسیم پلیٹوں کے شکل میں ہوئی ہے جب  زمین کے اندر کرنٹ پیدا ہوتی ہے تو اس کے وجہ سے زمین کے یہ پلیٹیں آپس میں ٹکراتی ہے جس کے وجہ سے زلزلے آتی ہیں۔اور جو جگہ اس پلیٹوں کے کناروں یعنی ٹکرانے کے جگہ پر واقع ہو تو وہاں پر اس کی شدت زیادہ ہوتی ہے اور نقصانات کا خطرہ بھی زیادہ ہوتی ہے اور جو جگہ اس پلیٹوں کے اندر ہو تو وہاں پر اس کا خطرہ کم ہوتی ہے۔

کیا زلزلہ کی پیشگی اطلاع دینا ممکن ہے؟

جیالوجی کے ماہرین نے دنیا کی کئی حصوں میں تقسیم کیا ہے جس میں امریکہ ایک خطے میں آتا ہے یورپ دوسرے اورجنوبی اشیاءتیسرے حصے میں جس میں پاکستان،جاپان، چائینہ اور ہندستان وغیرہ آتاہے۔ جس میں یہ کہا گیا ہے کہ جن علاقوں میں پہلے زلزلے آئے ہیں تو اس میں مزید زلزلے آنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

پاکستان کے بارے میں پشاور یو نیورسٹی کے شعبہ جیالوجی کے سابق  استاد  اور ماہر ارضیات ڈاکٹر خائستہ رحمان خٹک کے مطابق یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ کہ زلزلے کے پیشگی پتہ چل سکیں لیکن پھر بھی انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں اس پر زیادہ کام نہیں ہوا او جو تھوڑا کام ہوا ہے وہ صرف شمالی علاقہ جات ، اسلام آباد اورکشمیر سے باجوڑتک کے علاقوں پرہوا ہے وہ بھی جیالوجی سے وابستہ لوگوں نے کیا ہے جو زمین کو اوپر سے دیکھتی ہے لیکن زلزلے سے متعلق لوگوں نے اس پر کوئی خاص کام نہیں کیاہے۔

ڈاکٹر خائستہ رحمان  نے بتایا کہ کراچی اور بلوچستان پر کوئی کام نہیں ہوا اور اس نے اس پر چند  سال پہلے کام شروع کیا ہے اور پاکستان کے مختلف علاقوں کا ایک نقشہ بنایا ہے۔کیونکہ اس کا کام زلزلے سے متعلق ہے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ زلزلے کوہ ہندوکش کے خطے میں زیادہ آتی لیکن اس کے مطابق انہوں نے بلوچستان کے بارے میں جو نقشہ بنایا تھا اور بلوچستان میں جو زلزلہ آیاتھا پچلے سالوں تو وہ اس کے کام کا ثبوت ہے کیونکہ اس کے مطابق بلوچستان میں بھی زلزلوں کا خطرہ زیادہ رہتا ہے۔جب کے اس کے مطابق پشاور میں پچلے تین سو سالوں میں ایسا کوئی بڑا زلزلہ نہیں آیا جس سے کوئی بڑا نقصان ہوا ہوں تو اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ خطہ کچھ حد تک محفوظ ہے بہ نسبت دوسرے علاقوں کے۔

ڈاکٹر خائستہ رحمان کے مطابق وہ زمین کے خواص معلوم کرنے کے لئے جدیدٹیکنالوجی کا ستعمال کرتے ہیں جیسا کہ ایک ڈاکٹر مریض کے تشخیص ایکسرے کے زریعے کرتا ہے اسی طرح وہ بھی زمین کا جدید ٹیکنالوجی کے زریعے ایکسرے لیتے ہیں اور پھر اس کے بنیاد پر اس کا فیصلہ کرتے ہیں۔اس کے مطابق زلزلوں کے آنے سے کبھی زمین کم ہوتی ہے اور کبھی زیادہ یعنی کچھ جگہوں میں یہ پھیلتی ہے اور کچھ میں گھٹتی ہے۔ جس کے مثالیں تبت اور یونان ہیں۔ تبت میں زلزلے سے پہاڑ یں پھیلتی ہے اور یونان میں زمین گھٹتی ہے یعنی کم ہوتی ہے۔ زمین کے جو پلیٹیں ہے جب وہ زلزلے سے ایک دوسرے کے طرف سیدھی سمت میں حرکت کرتی ہے تو اس سے زمین میں اضافہ ہوتی ہے اور جب دور مخالف سمت میں حر کت کرتی ہے تو پھر زمین میں کمی ہوجاتی ہے۔

بڑے زلزلہ آنے کے بعد چھوٹے  زلزلوں کا آنا:

کل رات ہونے والے زلزلے کی شدید جھٹکوں کے بعد وقفے وقفے سے زلزلے کے ہلکے ہلکے جھٹکے جاری تھے۔ اس حوالے سے عبدالوہاب نے بتایا کہ کل رات انہوں نے صبح تک انہوں نے پانچ بار ہلکے جھٹکے محسوس کئے جس کی وجہ سے وہ صبح تک نہیں سوئے۔ ان کو یہی ڈر تھا کہ کہی دوبارہ شدید زلزلہ نہ آجائیں ۔

شاہدنے 2015 کے زلزلے  کے بارے میں بتایا کہ ان کا شددت اتنا زیادہ تھا کہ کئی روز تک ان کو نیند نہیں آیا تھا اور ان کو افٹر شاک محسوس ہورہے تھے  اور یہی حالت علاقے کے زیادہ تر لوگوں کا تھا کیونکہ انہوں نے لوگوں سے سنا تھا کہ دوبارہ بڑے زلزلے کا خطرہ موجود ہے۔

ڈاکٹر خائستہ رحمان کہتے ہیں کہ یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ اکثر بڑے زلزلوں کے بعد چھوٹے چھوٹے مقدار کے زلزلے آتے ہیں جس کو آفٹر شاک کہتے ہیں۔یہ دو تین دنوں تک محسوس ہوتی ہے اور کبھی کبھار تو ایک ہفتے تک بھی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ صرف آفٹر شاک آجائے بلکہ بی فور شاک یعنی بڑے زلزلے سے پہلے بھی چھوٹے مقدار کے زلزلے آسکتے ہیں جس کو بی فور شاک کہتے ہیں۔

ڈاکٹر  خائستہ رحمان کے مطابق جب بڑا زلزلہ آتا ہے تو اس سے بڑی قوت زمین کے اندر سے باہر آتی ہے اور جو کم طاقت اندر رہ جاتی ہے تو وہ پھر اپنی لئے راستہ نکالنے کے لئے چھوٹے چھوٹے زلزلے کے شکل میں باہر آجاتی ہے جس کو آفٹر شاک کہتے ہیں یعنی چھو ٹے زلزلے۔ لیکن جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ یہ ضروری نہیں کہ یہ بڑے زلزلے کے بعد محسوس ہو بلکہ یہ پہلے بھی محسوس ہو سکتے ہے۔

زلزلوں سے ماحولیات کو بڑے پیمانے پر نقصانات کا اندیشہ ہوتا ہے:

زلزلوں سے نہ صرف انسانی زندگی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ہر جاندار کی زندگی متاثر ہو تی ہے۔ اس سے ماحولیات کو براہ راست نقصان پہنچتاہے۔ دنیا کے جس خطے میں بھی زلزلے آئے ہیں تو اس نے وہاں پر کبھی کبھی جانداروں کے زندگی مکمل طور پر ختم کردی ہے جس کے مثالیں ہمارے سامنے موجود ہے۔ جیسا کے ترکی کے شہر ازمت میں 1999میں جو زلزلہ آیا تھا تو اس سے پورا شہر ملیامیٹ ہو چکا تھا  یعنی رہنے کے قابل نہیں رہا تھا۔اس طرح انگلینڈمیں  15سال پہلے جو گلیشئر آئے تھے جس سے ماحول کو شدید خطرہ لاحق ہو ا تھا۔ تو زلزلے میں گلیشئرز کے آنے کا بھی خطرہ موجود رہتا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ آتش فشاہ کے پھٹنے کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔

آزادکشمیر میں بھی  5 اکتوبر 2005 کو  زلزلہ آیا تھا  ۔ اس سے ماحول بہت متاثر ہوا تھا اور کچھ وعلاقوں سے تو لوگوں نے مستقیل طور پر نقل مکانی کی تھی۔ تو اس سے سیدھی ماحول متاثر ہوتا ہے۔ جس جگہ زندگی نہ ہو تو اس کا مطلب ہے کہ وہاں پر ماحول موزوں نہیں ہے۔ کشمیر کے اس زلزلے سے کئی وبائی امراض بھی پھیل چکے تھے جس سے بعد میں بھی کئی لوگوں کے زندگیاں موت کے منہ میں چلی گئی تھی۔ تو ہم کہ سکتے ہے کہ زلزلہ زندگی کے ہر پہلو پر براہ راست کسی نہ کسی شکل میں اثر انداز ہو تی ہے۔

کیا زلزلے سے بچاؤ ممکن ہے؟

اگر  زلزلہ اتنا تباکن آفت ہے پھر تو ہر ایک کے ذہن میں ضرور یہ سوال اٹھا ہے کہ پھر اس سے بچاؤ کس طرح ممکن ہے۔ ماہرین ارضیات  کے مطابق   زلزلے سے بچاؤ کا صرف ایک طریقہ ہے اور وہ ہے احتیاظ کیونکہ ابھی تک دنیا میں کوئی ایسا نظام سائنسدانوں نے ایجاد نہیں کیا جو زلزلے کے پیشگی اطلاع دے سکے۔ اگر چہ موجودہ وقت میں سائنس نے کافی ترقی کی ہے لیکن زلزے کے بارے میں سائنس اب تک بے بس ہے۔

اس لئے رہائشی  مکانات کو بناتے وقت انجینئرسے مشورہ کرنا چاہئے تاکہ ہمارے مکانات اس طرز پر بن سکیں جو عمدہ معیار کے ہو، اس میں ہر وہ چیزجو ایک مکان کے ضرورت ہو پوری مقدار میں موجود ہو۔ اس میں نکلنے کے لئے مناسب راستے ہو اور چھت بھی ایسا ہو جو مطلوبہ وزن برداشت کر سکیں۔ کیونکہ اکثر ہم دیکھتے ہیں کے زلزلے میں وہی جانی و مالی نقصانات زیادہ ہوتے ہیں جہاں پر مکانات مطلوبہ معیار پر پورہ نہیں ہوتھے۔

جاپان مین دنیا کے دوسرے ملکوں کے بہ نسبت زلزلے زیادہ آتے ہیں تو وہاں پر لوگوں نے اپنے گھر پلاسٹک کے شیڈز یعنی چادروں سے بنائے ہیں جس میں زلزلوں کے دوران گرنے کا اندیشہ کم ہوتا ہے اور اسی طرح جانی اور مالی نقصانات بھی کم سے کم ہو تی لیکن ہمارے ملک میں ابھی تک اس کا ستعمال شروع نہیں ہوا ہے۔کیونکہ وہ بہت مہنگے ہیں اور دوسری یہ کہ پاکستان میں جاپان کے مقابلے میں زلزلوں کا خطرہ کم رہتا ہے۔پھر بھی زلزلے سے اپنے اپ کو محفوظ رکھنے کے لئے ہم صرف احتیاط کر سکتے ہیں اور کچھ نہیں کیونکہ باقی وہی ہوتا ہے جو اللہ کو منظور ہوتا ہے۔ اللہ ہم سب کو زلزلہ اور دوسری آفتوں سے اپنی امان میں رکھے۔  آمین

شاہ خالد شاہ جی
شاہ خالد شاہ جی کا تعلق قبائلی ضلع باجوڑ سے ہے۔ اور پچھلے 15 سالوں سے صحافت سے وابستہ ہے۔ وہ ایک ایوارڈ ہافتہ تحقیقاتی جرنلسٹ ہے اور مختلف نیوز ویب سائٹس، اخبارات، جرائد اور ریڈیوز کے لئے رپورٹینگ کا تجربہ رکھتا ہے۔ شاہ جی زراعت، تعلیم، کاروبار۔ ثقافت سمیت سماجی مسائل پر رپورٹنگ کررہا ہے لیکن اس کا موسمیاتی تبدیلی ( کلائیمیٹ چینج ) رپورٹنگ میں وسیع تجربہ ہے۔ جس کے زریعے وہ لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کی کوششوں میں مصرف ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں