
بارہ سال پہلے اندرونی شہر پشاور کوہاٹی گیٹ میں واقع آل سینٹ کیتھیڈرل چرچ پر خودکش بم حملے میں دو سو سے زیادہ مسیحی برادری کے افراد مارے جاچکے تھے اور دو سو سے زیادہ افراد زخمی ہوئے تھے۔ واقعے کے متاثرہ خاندان نے آج پشاور پریس کلب کے سامنے متاثرین کے لئے قائم انڈومنٹ فنڈ کی عدم تقسیم کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے صوبائی حکومت سے اس حوالے سے فوری طور پر اقدامات اُٹھانے کا مطالبہ کیا۔ احتجاج میں شریک پچاس سالہ اقبال مسیحی نے بتایاکہ اُن کی والدہ اور بیٹی سمیت خاندان کے دیگر آٹھ افراد اس واقع میں مر چکے ہیں۔ اُنہوں نے کہاکہ واقعے کے بعد اُن کے خاندان مالی ونفسیاتی مسائل کا شکار رہا تاہم کسی سرکاری، غیرسرکاری یا چرچ کے طرف سے کوئی معاونت نہیں کی گئی۔ اُنہوں نے مطالبہ کیا کہ چرچ متاثرین کے لئے قائم کی گئی انڈومنٹ فنڈ کے شفاف تقسیم کے لئے حکومت اقدامات کریں۔
آل سینٹ چرچ واقعے کے بعد 2013 میں سابق وزیر اعظم نوازشریف نے وفاقی حکومت کے جانب سے اُس وقت کے خیبر پختونخوا گورنر مہتاب عباسی کو چرچ کے متاثرین کی مالی مدد کے لئے دس کروڑ روپے چیک حوالے کیا تاہم سابق وزیر اعلی پرویزخٹک اور اُن کے کابینہ نے فیصلہ کرلیا کہ صوبائی حکومت کے جانب سے بھی دس کروڑ روپے اضافہ کرنے سے متاثر ین کے فلاح وبہود کے لئے بیس کروڑ انڈمنٹ فنڈ قائم کیاگیا اور مزکورہ رقم پر آنے والے منافع متاثرین کے فلاح وبہود کے لئے خرچ کیا جائیگا تاہم بارہ سال گزر جانے کے باوجود صوبائی حکومت اور متعلقہ ادارے اس فنڈ کے تقسیم اور طریقہ کار طے کرنے میں ناکام رہے۔ ذرائع کے مطابق مزکورہ فنڈ گیارہ کروڑ روپے منافع آنے کے بعد اس کی کل مالیت اکیتس کروڑ تک پہنچ چکا ہے۔
احتجاج میں مسیحی برادری کے مذہبی رہنماء موسی جان بھی شریک تھے، انہوں نے اپنی جواں سالہ بیٹی چرچ کے واقع میں کھو چکی ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ چرچ واقع کے متاثرین ہر جگہ نظر انداز کیا جاتا ہے اور آج یہی لوگ احتجاج پر مجبور ہوکر انصاف مانگ رہے ہیں۔ اُنہوں نے کہاکہ متاثرین کے لئے مختص فنڈ کے حوالے سے جو فیصلے ہوئے اُن میں متاثرہ خاندانوں کا کوئی نمائندہ شامل نہیں تھا۔ اُنہوں نے دعوٰی کیا کہ واقع میں 240 افراد مارے جاچکے ہیں جبکہ دو سو سے زیادہ زخمی یا معذور ہوچکے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ حکومت سیاسی اثر و رسوخ، پاسٹرز اور پادریوں کے مداخلت کے بغیر متاثرہ خاندانوں کے مشورے سے فوری طورپر فنڈ کے تقسیم کے لئے اقدامات کریں۔
رواں ماہ کے سولہ تاریخ کو محکمہ اوقاف و مذہبی اُمور خیبرپختونخوا نے تمام اضلاع کی سطح پر دہشت گردی سے متاثرہ اقلیتی خاندانوں کے لیے مالی معاونت فراہم کرنے کے لئے تمام ڈپٹی کمشنرز کو دس دن میں متاثرین کے معلومات جمع کرنے کی ہدایت جاری کردی ہے۔ مراسلے میں کہا گیا کہ 2013 سے اب تک متاثرہ اقلیتی خاندانوں کے معلومات جمع کیا جائے تاکہ اُن کے ہرممکن مدد کی جائے۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے فوکل پرسن برائے اقلیتی امور، وزیر زادہ کے مطابق توقع ہے کہ ستمبر کے اختتام تک وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی زیر صدارت ایک اہم اجلاس طلب کیا جائے گا، جس میں دہشت گردی سے متاثرہ خاندانوں کے لیے مالی معاونت سے متعلق فیصلے کیے جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ بالخصوص آل سینٹ چرچ پشاور کے شہداء اور متاثرین پر مرکوز ہوگی۔
وزیر زادہ نے مزید بتایا کہ دہشت گردی کے متاثرین کی بحالی کا ایکٹ 2020 میں منظور ہوا اور 2021 میں اس کے قواعد باقاعدہ طور پر نافذ کیے گئے۔ تاہم بدقسمتی سے پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے بعد یہ عمل معطل رہا اور طویل عرصے تک قائم رہنے والی نگران حکومت کے دوران بھی اسے مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا۔ ان کے مطابق موجودہ حکومت نے اس عمل کو دوبارہ فعال کر کے متاثرہ خاندانوں کو ان کے حق کا ریلیف فراہم کرنے کی سنجیدہ کوشش شروع کر دی ہے۔
صوبائی حکومت کے اس اقدم کے حوالے سے موسی جان نے بتایاکہ اُن کو اس کا کوئی فائدہ نظر نہیں آرہا کیونکہ ماضی میں بھی حکومت نے اقلیتی برادی کے ساتھ مدد کی وعدیں کی ہیں تاہم اُن میں ایک بھی پورا نہیں ہوا۔ اُنہوں نے کہاکہ چرچ واقع کے تمام متاثرین کے خاندان موجود ہے اور ضلعی انتظامیہ براہ راست اُن کے ساتھ ملاقات کرکے معلومات حاصل کریں کیونکہ ماضی میں چرچ کے وساطت سے جومعلومات لی گئی تھی اُس میں کافی کمی تھی۔ اُنہوں نے حدشہ ظاہر کیا کہ آگر حکومت نے دہشت گردی سے متاثرہ اقلیتی خاندانوں کے صحیح اعداد شمار آکٹھا کرنے میں عفلت کا مظاہر کیا تو مستحقین افراد مالی مدد سے محروم ہو جائینگے۔
اُنہوں نے صوبائی اسمبلی کے اقلیتی ممبر بابا جی گورپال سنگھ آل سینٹ کیتھیڈرل چرچ کے متاثرین کے مالی مدد کے لئے اسمبلی فلور پر موثر انداز میں آوز اُٹھانے پر اُن کا شکریہ ادا کیا تاہم باقی اقلیتی ممبران کے حوالے سے اُنہوں نے مایوسی کا اظہار کیا اور کہاکہ ماضی میں ڈاکٹر سورن سنگھ نے بھی اُن کے کافی کوششیں کی تھی۔
شرکاء کا کہنا تھا کہ عسکرپرویز جوکہ دوسری بار جمعیت علماء اسلام (ف) سے اقلیتی نشست پر ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہو چکا ہے اور آل سینٹس کیتھیڈرل چرچ سے اُن کا تعلق بھی ہے آج کے احتجاج میں شرکت کا وعدہ کیاتھا تاہم اُنہوں نے شام ساڑھے پانچ بجے تک اس میں شرکت نہیں کی۔ اس حوالے سے ہم نے اُن کے موقف جانے کے لیے رابطہ کیا تو انہوں کہا کہ اس حوالے سے تمام اقدامات پر کام جاری ہے اور متعلقہ اداروں کے جانب سے چار ہفتوں میں فنڈ کی تقسیم کو یقینی بنانے کے یقین دہانی کرائی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ چرچ متاثرین کے لئے فنڈ قائم کیا گیا تھا تاہم بعد میں کچھ قانونی ترامیم کے ذریعے اس کو عام اقلیتوں کو بھی دینے کی بات کی گئی جن پر موجودہ چار اقلیتی ممبران نے اعتراضات اٹھائے اور موقف اپنایا کہ اس فنڈ پر چرچ متاثرین کے علاؤہ کسی کا حق نہیں بنتا۔ ان کے بقول اس حوالے سے بھی اسمبلی میں ترامیم لایا جا رہا ہے ۔ احتجاج کے حوالے سے ان کا موقف تھا جن کی حکومت نے فنڈ کے تقسیم کے لئے اقدامات نہیں کروائے گئے وہ آج اس پر سیاست کر رہا ہے۔
اقلیتی ممبر بابا جی گورپال سنگھ نے بتایاکہ چرچ متاثرین کی مالی معاونت کے معاملات ممبر صوبائی اسمبلی عسکر پرویز دیکھ رہا ہے اور ہمارے باقی تینوں ممبران نے ان کی نہ صرف ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کرچکے ہیں بلکہ عملا متعلقہ اداروں اورحکام کے ساتھ ملاقاتیں بھی ہوچکے ہیں۔
انیلا پیشے کے لحاظ سے صحافی ہے اور اُن کا تعلق مسیحی برادری سے ہے۔ آج کے احتجاج میں اُنہوں نے بھی شرکت کی۔ اُنہوں نے کہاکہ صوبائی حکومت کی عفلت کے بناء پر یہ لوگ جنہوں نے اس ملک کے خاطر اپنے پیارے کھوچکے ہیں وہ انصاف کے لئے بارہ سالوں سے سڑکوں پر ہے جوکہ انتہائی افسوناک امر ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ اس سلسلے میں مسیحی برادری مزید تاخیر برداشت کرنے کو تیار نہیں اور سب سے زیادہ ذمہ داری اقلیتی برادری کے ممبران پر عائد ہوتی ہیں جو ہ پورا کریں۔
احتجاجی میں شرکاء کی حفاظت کے لئے پولیس کی بھاری نفری تعینات کردگئی تھی۔ کل یعنی بیائیس ستمبر کو آل سینٹس کیتھیڈرل چرچ میں واقعے حوالے دعائیہ تقریب کا انعقاد کیا جائیگا۔