ضلع کرم پیرامیڈکل امیدواروں نے صوبائی حکومت، محکمہ صحت اور ایف آئی اے اور دیگر متعلقہ حکام سے محکمہ صحت لوئر و سنٹرل میں غیرقانونی بھرتیوں کو فوری طور پر منسوخ کرنے اور کرپشن میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کاروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

پشاور پریس کلب میں پیرامیڈیکل امیدوار زاہد الرحمن، محمد مصطفی، فیصل الرحمن، محمد صدیق، محمد زمان,گل زمان, محمد مصطفی, نور حبیب, فیصل الرحمن، محمد سلیم, منصور الرحمن اور دیگر نے مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اپریل 2025 میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر (DHO) لوئر و سنٹرل کرم ڈاکٹر کلیم اللہ داوڑ کی جانب سے ایٹا کے ذریعے 55 آسامیوں کا اشتہار دیا گیا، جن کے لیے پاسنگ معیار 50 فیصد مقرر کیا گیا تھا۔ جس میں میڈیکل ٹیکنیشن کی 14 آسامیوں کے لیے 56 امیدوار پاس ہوئے۔ EPIٹیکنیشن کی 6 آسامیوں کے لیے 65 امیدوار کامیاب ہوئے۔ فارمیسی ٹیکنیشن کی 17 آسامیوں کے لیے 30 سے زائد امیدوار کامیاب قرار پائے۔

اسی طرح ریڈیالوجی میں مقامی اور تجربہ کار امیدوارں کو جن کے پاس پانچ پانچ سال تجربہ سرٹیفکیٹ ہے کو نظر انداز کرتے ہوئے نئے اور دوسرے اضلاع سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کو لیا ہیں جو کہ سراسر ناانصافی اور ظلم ہے.

جس پر ضلع کرم کے ایم این اے حمید حسین طوری نے بھرپور مذمت کیا اور ڈی ایچ او کو کھلی پیغام دیتے ہوئے سارے بھرتیوں کو غیر قانونی اور مسترد کروایا تھا۔

انہوں نے کہا کہ یہ تمام نشستیں آسانی سے پاس ہونے والے امیدواروں سے پُر کی جا سکتی تھیں، لیکن افسوس کہ ڈی ایچ او لوئر و سنٹرل کرم ڈاکٹر کلیم اللہ داوڑ نے میرٹ کی حد غیر ضروری طور پر *50% سے کم کر کے 33% تک کر دی جس کی وجہ سے مقامی لوگوں کو انظر انداز کرکے اصل امیدواروں کی ساتھ ناانصافی ہوگئی۔

ایک معاہدے کے مطابق جوکہ محکمہ صحت خیبر پختونخوا اور ایٹا کے درمیان ہونے والے باقاعدہ ایم او یو (یادداشتِ مفاہمت) میں واضح طور پر درج ہے کہ اگر کسی ضلع میں کامیاب امیدوار موجود نہ ہوں یا تعداد بہت کم ہو، تب ہی میرٹ کی حد میں نرمی کی اجازت ہے۔ لیکن یہاں تو تمام مطلوبہ پوسٹوں کے لیے کامیاب امیدوار موجود تھے، اس کے باوجود غیر ضروری طور پر حد کم کرنا سراسر ناانصافی اور میرٹ کی خلاف ورزی ہے۔

پریس کانفرنس کے دوران نہوں نے کہا کہ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر لوئر و سنٹرل کرم، ڈاکٹر کلیم اللہ داوڑ نے قانون و ضابطے کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے 26 اگست 2025 کو میڈیکل ٹیکنیشن کی آسامیوں پر کرپشن پر مزید آٹھ امیدواروں کا انتخاب از خود کرلیا، جس کا نہ کوئی اشتہار دیا گیا، نہ انٹرویو کا انعقاد کیا گیا اور نہ ہی شفاف طریقہ کار اپنایا گیا۔ اس کے علاہ چند دن قبل ڈی ایچ او لوئر و سنٹرل کرم، ڈاکٹر کلیم اللہ داوڑ نے فارمیسی ٹیکنیشن کے لیے ایک فہرست جاری کی، جس میں ایسے امیدواروں کے نام شامل کیے گئے جو فارمیسی ٹیکنیشن سے متعلقہ ڈپلومہ کے حامل نہیں تھے اور جنہوں نے انٹرویو کے لیے مطلوبہ دستاویزات بھی جمع نہیں کروائیں تھیں۔

انہوں نے کہا کہ قواعد و ضوابط کو بالکل نظر انداز کرتے ہوئے چار امیدواروں کو بغیر متعلقہ ڈپلومہ کے فارمیسی ٹیکنیشن کے طور پر منتخب کیا گیا، جبکہ ایک امیدوار کو اس عہدے پر تعینات کیا گیا جسے انٹرویو کے لیے طلب ہی نہیں کیا گیا تھا۔ مزید یہ کہ چار غیر مقامی امیدواروں کو بھی خلاف قانون منتخب کرلیا گیا، جو سراسر ناانصافی اور غیر شفافیت کی مثال ہے۔

پریس کانفرنس میں انھوں نے بتایا کہ لوئر و سنٹرل کرم کے ڈی ایچ او ڈاکٹر کلیم اللہ داوڑ کے علاوہ تمام اضلاع کے ڈی ایچ اوز نے ایٹا ٹیسٹ میں 50 فیصد یا اس سے زیادہ نمبر حاصل کرنے والے امیدواروں کو انٹرویو کے لیے طلب کیا جن میں اپر کرم، شمالی وزیرستان، ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک، ڈی ایچ کیو کوہاٹ، ٹی ایچ کیو کوہاٹ اور پشاور کے اضلاع شامل ہیں۔

جبکہ ڈی ایچ او لوئر و سنٹرل کرم نے بغیر کسی ایٹا یا محکمہ صحت کی منظوری کے براہ راست میرٹ لسٹ کا تھریش ہولڈ 33 فیصد تک کم کر دیا، جو کہ مکمل طور پر قوانین، ضوابط اور شفافیت کے اصولوں کے خلاف ہے۔

انہوں نے کہا کہ 20 ستمبر 2025 کو، ڈی ایچ او لوئر و سنٹرل کرم ڈاکٹر کلیم اللہ داوڑ نے ایک اور امیدوار محمد ظاہر ولد محمد جمیل خان کو بطور فارمیسی ٹیکنیشن منتخب کیا، جس نے خود پشاور ہائی کورٹ میں ڈاکٹر کلیم اللہ داوڑ کے خلاف مقدمہ دائر کر رکھا ہے۔ جس کے ساتھ ڈی ایچ او نے ذاتی موبائل کال کے ذریعے رابطہ کیا اور کہا کہ آ جائیں ہم آپ کو اپائنٹمنٹ لیٹر دے دیتے ہیں، لیکن آپ کو پہلے اپنا کیس واپس لینا ہوگا۔ یہ عمل نہ صرف قانون و انصاف کے سراسر منافی ہے بلکہ انتہائی ظلم، کرپشن اور میرٹ کے قتل کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈی ایچ او لوئر و سنٹرل کرم ڈاکٹر کلیم اللہ داوڑ نے حالیہ بھرتیوں کے دوران ایک آسامی آٹھ سے بارہ لاکھ روپے میں فروخت کی گئی۔ تمام منتخب شدہ امیدواروں سے زبردستی ویڈیوز ریکارڈ کروائی گئیں جن میں انہیں کہنا پڑا کہ انہوں نے کوئی رقم نہیں دی، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ان امیدواروں کو جعلی تجربہ سرٹیفکیٹس بھی مہیا کیے گئے، جبکہ کئی فریش امیدواروں کو تجربہ وار ظاہر کر کے بھرتی کیا گیا۔

مزید یہ کہ ڈی ایچ او دفتر میں اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے چند ڈاکٹروں کو ایسے عہدے دے دیے گئے جو قانوناً اُن کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے

ڈاکٹر افتخار جو ملیریا پروگرام کے ڈاکٹر ہیں، کو نیشنل پروگرام کوآرڈینیٹر، اسسٹنٹ ڈی ایچ او، اور پی آر او کے طور پر غیرقانونی طور پر تعینات کیا گیا۔

ڈاکٹر واجد علی کو ڈپٹی ڈی ایچ او کا درجہ دے کر عوام سے پیسے لینے اور معاملات چلانے کا اختیار دیا گیا، جو سراسر غیرقانونی عمل ہے۔

پیرامیڈیکل امیدواروں نے پریس کرتے ہوئے کہا کہ ہم اعلیٰ حکام، محکمہ صحت، اور تحقیقاتی کمیٹی سے پُرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ تمام غیرقانونی بھرتیوں کو فوری طور پر منسوخ کیا جائے اور کرپشن میں ملوث افراد کے خلاف سخت قانونی کارروائی کرکے تمام اہل امیدواروں کو ان کا حق اور انصاف فراہم کیا جائے۔

ریحان محمد
ٹائم لائن اردو سے وابسطہ نوجوان صحافی ریحان محمد خیبرپختونخوا سے ملکی میڈیا کے لئے کام کرتا ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں