عثمان خان

چند ہفتے قبل کراچی کے ایک سرکاری دفتر میں پیش آنے والا واقعہ سوشل میڈیا پر مختصر وقت کے لیے زیرِ بحث آیا اور پھر فائلوں کی نذر ہو گیا۔ ایک مزدور، جو بیرونِ ملک روزگار کے لیے تمام قانونی مراحل مکمل کر چکا تھا، اس کا پاسپورٹ ایک اہلکار نے مبینہ تلخ کلامی کے بعد پھاڑ دیا۔ یہ محض ایک پاسپورٹ نہیں تھا، بلکہ ایک غریب خاندان کے خواب، امیدیں اور مستقبل تھا جو سرِعام روند دیا گیا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ آج تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ اس واقعے پر کسی کے خلاف کوئی کارروائی بھی ہوئی یا نہیں۔

یہ واقعہ اس تلخ حقیقت کی علامت ہے کہ پاکستان میں مزدور کے تحفظ کے لیے قوانین کم اور اسے تنگ کرنے کے ضابطے زیادہ ہیں۔

حالیہ دنوں میں بیرونِ ملک جانے والے مزدوروں کے لیے جو نئے ٹیسٹ اور امتحانی قوانین لاگو کیے گئے ہیں، ان پر سنجیدہ سوالات اٹھتے ہیں۔ کیا واقعی ایک مزدور کی صلاحیت جانچنے کا یہی واحد طریقہ ہے کہ اسے تحریری امتحانات اور پیچیدہ ٹیسٹوں کے بھنور میں دھکیل دیا جائے؟ کیا اس سے بہتر نہیں تھا کہ ان رسمی ٹیسٹوں کے بجائے مزدور کو عملی کام کا ہنر سکھایا جاتا؟

دنیا کے کئی ممالک اپنے ورکرز کو ویزا سے قبل باقاعدہ تربیت فراہم کرتے ہیں۔ اگر پاکستان حکومت واقعی مزدور کی بہتری چاہتی ہے تو بیرونِ ملک جانے والے ہر مزدور کے لیے کم از کم تین سے چھ ماہ کی مفت عملی تربیت لازم ہونی چاہیے، تاکہ وہ پردیس جا کر فوراً روزگار حاصل کر سکے اور استحصال کا شکار نہ ہو۔ محض سرٹیفکیٹ بانٹنے سے ہنر پیدا نہیں ہوتا، ہنر ورکشاپ اور میدان میں سکھایا جاتا ہے۔

اس سے بھی زیادہ تشویشناک صورتحال پاکستانی ہوائی اڈوں پر دیکھنے کو ملتی ہے، جہاں آئے روز اوورسیز مزدوروں کو تنگ کیے جانے، غیر ضروری سوالات اور بعض صورتوں میں رشوت طلب کرنے کی شکایات سامنے آتی ہیں۔ جو لوگ ملک کے لیے زرِمبادلہ لا رہے ہیں، انہیں ہی سب سے زیادہ ذلت کا سامنا کیوں کرنا پڑتا ہے؟ اگر واقعی حکومت سنجیدہ ہے تو ایسے افسران کے خلاف فوری اور مثالی کارروائی ہونی چاہیے۔

اسی تناظر میں یہ مطالبہ بھی بے جا نہیں کہ وزارتِ داخلہ یا وزارتِ خارجہ کی قیادت ایسے فرد کے سپرد کی جائے جسے اوورسیز پاکستانیوں اور مزدوروں کے مسائل کا عملی علم ہو۔ ایسا وزیر جس کا مقصد سیاسی انتقام نہ ہو، بلکہ ہر سیاسی جماعت سے وابستہ مزدور کو یکساں ریلیف دینا ہو۔

پردیس میں کام کرنے والے پاکستانی مزدوروں کی مشکلات کسی سے پوشیدہ نہیں۔ خلیجی ممالک میں رائج کفیل سسٹم برسوں سے مزدوروں کے استحصال کا ذریعہ بنا ہواہے۔ نیہائی یا حروب کے بہانے مزدور کو تنگ کرنا ان سے اتنا پیسے لینا جو ان کا سال کا مزدوری ہو اور ویزا کی پابندیاں، اور غیر انسانی رویے روز کا معمول ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان حکومت نے کبھی سنجیدگی سے ان مسائل کو متعلقہ ممالک کے سامنے اٹھایا؟ یا ہم واقعی اس استحصال سے بے خبر ہیں؟

یہاں سفارت خانوں اور سفیروں کا کردار بھی سوالیہ نشان ہے۔ کیا ہمارے سفیر کبھی مزدور کی رہائش گاہوں، کیمپوں یا کام کی جگہوں پر گئے؟ کیا انہوں نے کبھی مزدوروں سے براہِ راست ان کے مسائل سنے؟ یا پھر سفارتی تقاریب اور ذاتی آسائشیں ہی ترجیح بنی رہتی ہیں؟ اگر ایمبسی کو مزدور کی تکلیف کا علم ہی نہیں، تو اس کے حل کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں مزدور دوست قانون سازی کا شدید فقدان ہے۔ جو قوانین موجود ہیں، وہ یا تو کاغذوں تک محدود ہیں یا عملی طور پر مزدور کے لیے مزید مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ ریاستی شاہ خرچیاں اپنی جگہ برقرار ہیں، مگر مزدور کے لیے سہولت، تحفظ اور عزت آج بھی ایک خواب ہے۔

یہ وقت محض بیانات دینے کا نہیں بلکہ عملی اصلاحات کا ہے۔ مزدور کو ٹیسٹوں کے بجائے ہنر دیجیے، تذلیل کے بجائے عزت دیجیے، اور رکاوٹوں کے بجائے سہولت فراہم کیجیے۔

کیونکہ یاد رکھیے:

جو ریاست اپنے مزدور کو تحفظ نہیں دیتی، وہ اپنی معیشت کو خود کمزور کرتی ہے

ٹائم لائن اردو ٹیم
ٹائم لائن اردو کے رپورٹرز، صحافی، اور مصنفین پر مشتمل ٹیم

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں