
پشاور رنگ روڈ سفید ڈھیری کے 40 سالہ جاوید علی کے پاس کاشتکاری کے لیے 30 ایکڑ کے بجائے اب صرف ایک ایکڑ زرعی زمین باقی رہ گئی ہے۔ رقبے میں کمی کے باعث وہ ٹنل فارمنگ کے ذریعے غیر موسمی سبزیاں اگا رہے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ آمدن حاصل کر سکیں۔ اس وقت انہوں نے کھیرا، مٹر اور لہسن کاشت کیا ہوا ہے۔
جاوید علی کے دادا اور بعد ازاں اس کے والد گاؤں میں مختلف لوگوں کی زرعی زمین آدھی آمدن کے معاہدے پر کاشت کرتے تھے، تاہم گزشتہ کئی برسوں کے دوران زمین مالکان نے اپنی زرعی زمینیں رہائشی منصوبوں کے لیے دینا شروع کر دیں یا خود پلاٹنگ کر کے پانچ اور دس مرلے کے پلاٹس بنا دیے۔ ان کے مطابق علاقے میں زیادہ تر زمین مالکان نے زرعی اراضی پراپرٹی ڈیلرز کے حوالے کر دی ہے جو کمیشن پر اسے فروخت کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں گاؤں میں سبزیاں، گندم اور مکئی آسانی سے دستیاب ہوتی تھیں، مگر اب خود کاشتکاروں کو بھی گھریلوی ضروریات کے لیے بازار کا رخ کرنا پڑتا ہے۔
خیبر پختونخوا کا دارالحکومت پشاور صدیوں سے نہ صرف قریبی علاقوں کے لیے تجارت اور بہتر طرزِ زندگی کا مرکز رہا ہے بلکہ افغانستان، وسطی ایشیا اور متحدہ ہندوستان کے لیے بھی ایک اہم شہر تصور کیا جاتا تھا۔ ادارہ شماریات کے مطابق سال 2000 میں پشاور کی آبادی 11 لاکھ تھی جو اب بڑھ کر 25 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔
محکمہ زراعت خیبر پختونخوا کے ماہر پلانٹ پروٹیکشن اور صوبے میں زرعی زمینوں پر تعمیرات کی روک تھام سے متعلق صوبائی نمائندے رضوان اللہ کا کہنا ہے کہ ضلع پشاور میں ایک انچ زمین بھی ایسی نہیں جہاں کاشت ممکن نہ ہو، مگر بدقسمتی سے 70 فیصد زیرِ کاشت زمین پر رہائشی اور کمرشل منصوبے تعمیر ہو چکے ہیں، جبکہ 30 فیصد ایسی زمین بھی موجود تھی جسے زیرِ کاشت لایا جا سکتا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ پشاور پر آبادی کا دباؤ بہت زیادہ ہے جس کی بڑی وجوہات میں افغان مہاجرین، قبائلی اضلاع سے بے گھر خاندان، اور صوبے کے شمالی و جنوبی اضلاع سے تعلیم اور روزگار کے لیے آنے والے افراد شامل ہیں۔ ان کے مطابق آبادی میں اضافے کے ساتھ خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے زرعی شعبے پر دباؤ بڑھ رہا ہے، جبکہ دوسری جانب زرعی زمینوں کے رقبے میں کمی مسائل کو مزید سنگین بنا رہی ہے۔ 
70 سالہ اختر محمد اچینی پشاور کے رہائشی ہیں۔ وہ کئی دہائیوں تک گاؤں کے مختلف لوگوں کی دس ایکڑ زمین آدھی آمدن کے معاہدے پر کاشت کرتے رہے، تاہم اب ان کے خاندان کے پاس صرف اتنی زمین باقی ہے جس پر وہ گھریلو ضرورت کے لیے سبزیاں اگاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ زمین مالکان مقامی پراپرٹی ڈیلرز کو کم قیمت پر زمین دے دیتے ہیں جو آگے بھاری منافع پر فروخت کی جاتی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ خیبر، اورکزئی، کرم اور وزیرستان سے بے گھر افراد کی جانب سے گھروں کی تعمیر کے لیے زمین خریدنے کے باعث زمینوں کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
محکمہ زراعت خیبر پختونخوا کے مالی سال 2023-24 کے اعداد و شمار کے مطابق ضلع پشاور کا کل رقبہ 1 لاکھ 26 ہزار 661 ہیکٹر ہے، جن میں 60 ہزار 982 ہیکٹر زیرِ کاشت ہیں۔ زیرِ کاشت رقبے کو نہروں اور دیگر ذرائع سے پانی فراہم کیا جاتا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق 34 ہزار 252 ہیکٹر پر گندم کی کاشت سے تقریباً 94 ہزار میٹرک ٹن، 8 ہزار 780 ہیکٹر پر گنے کی کاشت سے ساڑھے چار لاکھ میٹرک ٹن، جبکہ 23 ہزار 252 ہیکٹر پر مکئی سے 67 ہزار میٹرک ٹن پیداوار حاصل کی گئی۔ اس کے علاوہ 674 ہیکٹر زمین پر خوبانی، آڑو اور آلو بخارا سے 8 ہزار 382 میٹرک ٹن پیداوار حاصل ہوئی۔ سال 2021-22 میں پشاور میں 78 ہزار 854 ہیکٹر زمین زیرِ کاشت تھی۔
پشاور میں رہائشی اور کمرشل منصوبوں کے اجازت نامے ماضی میں پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی، میٹروپولیٹن کارپوریشن اور پانچ تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشنز کی جانب سے جاری کیے جاتے رہے۔ تاہم اس نظام کو مؤثر بنانے کے لیے صوبائی حکومت نے لینڈ یوز اینڈ بلڈنگ کنٹرول ایکٹ 2021 منظور کیا، جس کے تحت دو ماہ قبل خیبر پختونخوا لینڈ یوز اینڈ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (لیبکا) نے کام شروع کر دیا ہے، تاہم تاحال نہ اس کا مستقل دفتر قائم ہو سکا ہے اور نہ ہی بجٹ فراہم کیا گیا ہے۔
معلومات کے مطابق لیبکا صوبے بھر میں رہائشی اور کمرشل منصوبوں کا ڈیٹا جمع کر رہی ہے، جس کے مطابق ضلع پشاور میں 157 رہائشی منصوبے موجود ہیں، جن میں سے صرف 27 قانونی، 114 غیر قانونی جبکہ 16 کی جانچ پڑتال جاری ہے۔ قانونی طور پر رہائشی و کمرشل منصوبوں کے اجازت نامے جاری کرنے کا اختیار لیبکا کے پاس ہے، تاہم ماضی کا ریکارڈ اکٹھا کرنا ایک پیچیدہ مرحلہ ثابت ہو رہا ہے۔
پشاور پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کا ایک اہم مرکز رہا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان زرعی اجناس کی درآمد و برآمد کے باعث سرحد کے دونوں جانب عوام کو سبزیاں اور پھل نسبتاً کم قیمت پر دستیاب رہتے تھے، تاہم 12 اکتوبر کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے باعث پانچ سرحدی گزرگاہوں کی بندش سے دو طرفہ تجارت مکمل طور پر بند ہو گئی، جس کے نتیجے میں بعض اشیاء پاکستان اور بعض افغانستان میں مہنگی ہو گئیں۔
رضوان اللہ کے مطابق افغانستان سے زرعی اجناس کی درآمد سے پاکستان کی ضروریات آسانی سے پوری ہو جاتی تھیں، مگر سرحدی راستوں کی بندش سے دونوں ممالک کے کاشتکار اور عوام متاثر ہو رہے ہیں۔ ان کے مطابق رواں سال افغانستان سے ٹماٹر، انار اور انگور کی درآمد بند ہونے کے باعث ٹماٹر کی قیمت 600 سے 700 روپے فی کلو تک پہنچ گئی تھی۔
پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (پی ڈی اے) میں بلڈنگ کنٹرول کے ڈائریکٹر بہادر علی خان نے بتایا کہ پی ڈی اے 2015 سے قانون کے تحت نجی رہائشی منصوبوں کی نگرانی کر رہی تھی، تاہم 2021 کے نئے قانون اور بلدیاتی نظام کے نفاذ کے بعد یہ اختیارات تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشنز کو منتقل کر دیے گئے ہیں۔
ان کے مطابق پی ڈی اے کی حدود میں بننے والے رہائشی اور کمرشل منصوبے اب بھی پی ڈی اے کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں، جبکہ دیگر علاقوں میں یہ ذمہ داری ٹی ایم اوز کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ضلع پشاور میں اب تک 237 چھوٹے بڑے منصوبوں کی جانچ پڑتال کی جا چکی ہے، جن میں سے 8 کو اجازت نامے جاری کیے گئے، 18 کی جانچ جاری ہے جبکہ 33 منصوبوں کے کیسز نیب میں زیرِ سماعت ہیں۔
50 سالہ جان اللہ کا تعلق اورکزئی سے ہے اور وہ پشاور میں ایک بینک میں ملازم ہیں۔ آبائی علاقے میں بدامنی کے باعث وہ اپنے خاندان کے ہمراہ پشاور منتقل ہوئے اور کرائے کے مکان میں رہائش اختیار کرنے کے بعد انہوں نے چارسدہ روڈ پر ایک رہائشی منصوبے میں پانچ مرلہ پلاٹ خریدا، تاہم تعمیر شروع کرتے ہی ضلعی حکام نے اس منصوبے کو غیر قانونی قرار دے کر نہ صرف کام بند کرا دیا بلکہ خرید و فروخت پر بھی پابندی عائد کر دی۔ ان کا کہنا ہے کہ نہ تو پلاٹ کا مالک رقم واپس کر رہا ہے اور نہ ہی وہ تعمیر کر سکتے ہیں۔ ان کے مطابق اس منصوبے میں 200 سے زائد افراد نے پلاٹ خرید رکھے ہیں۔
2021 میں قانونی اصلاحات کے بعد اب تک محکمہ زراعت خیبر پختونخوا کو پشاور میں نو رہائشی منصوبوں کے دستاویزات جانچ پڑتال کے لیے موصول ہوئے، جن میں سے تین زرعی زمین پر تعمیر ہونے کے باعث غیر قانونی قرار دیے گئے جبکہ باقی کو قانونی تسلیم کیا گیا۔
لیبکا کے مطابق غیر قانونی منصوبوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی، جن کے تحت ایک سے تین سال قید اور ایک کروڑ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔
صوبے میں غیر قانونی رہائشی منصوبوں کے صورتحال
گزشتہ روز زراعت کے حوالے قائمہ سینڈڈنگ کمیٹی کے اجلاس میں محکمہ بلدیات کے طرف سے پیش کی اعداد شمار کے مطابق صوبے بھر میں 741 رہائشی منصوبے موجود ہیں جن میں صرف 72قانونی جبکہ 667غیر قانونی ہے۔اجلاس کو بتایا کہ 91فیصد غیر قانونی رہائشی صوبے میں موجود جن میں لوگوں نے ضرورت کے لئے زمینوں کے خریداری کی ہے یا گھر تعمیر کی ہے۔ محکمہ زراعت کے جانب سے جمع کی اعداد شمار میں بتایا گیا کہ 2017کے سروے کے مطابق صوبے بھر میں 52لاکھ ایکڑزمین زیر کاشت تھا تاہم موجودہ وقت میں یہ 42لاکھ ایکڑ رہ گیا جبکہ دس لاکھ ایکڑ کی کمی بڑی وجہ غیر قانونی رہائشی منصوبے ہیں۔
رہائشی اور کمرشل منصوبوں کے اجازت نامہ کا طریقہ کار
خیبر پختونخوا میں لینڈ یوز اینڈ بلڈنگ کنٹرول ایکٹ 2021 کے تحت رہائشی منصوبے کے اجازت نامہ کے حصول میں خیبر پختونخوا لینڈ یوز اینڈ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، ضلعی لینڈ یوز پلاننگ و مینجمنٹ کمیٹی، محکمہ، ریونیو، خیبر پختونخوا ماحولیاتی تحفظ ایجنسی، محکمہ لوکل گورنمنٹ، میونسپل کارپوریشن یا تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن، پشاور یا متعلقہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی، پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ، بجلی کی تقسیم کا محکمہ، سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز، ریسکیو 1122 اور فائر ڈیپارٹمنٹ، محکمہ مواصلات و تعمیرات، ہائی وے اتھارٹی، محکمہ آبپاشی اور محکمہ جنگلات شامل ہوتے ہیں۔
خیبر پختونخوا میں لینڈ یوز اینڈ بلڈنگ کنٹرول ایکٹ 2021 کے تحت رہائشی منصوبے کی تعمیر کے لیے اجازت نامہ حاصل کرنا لازمی ہے۔ قانون کے مطابق دو کنا ل زمین پر منصوبے کے اجازت نامے کی درخواست ضلعی کمیٹی کے پاس جمع کرنا ہوگا اور بتدائی جانچ پڑتال کے بعد ٹیکنکل کمیٹی جن میں تمام سرکاری اداروں کے نمائندے شامل ہونگے کیسپرد کیاجائیگا۔ قانونی تقاضوں کے بعد اجازت نامہ جاری کرد یاجائیگا۔ دو کنا ل سے زیادہ زمین پر منصوبے کے اجازت نامے کے لئے بھی درخواست ضلعی کمیٹی کے پاس جمع کرنا ہوگا جس میں ابتدئی پانچ پڑتال کے بعد مالک کو منصوبے کے بعد ماسٹر پلان اور ڈیزائن کے تیاری کے لئے چھ مہینے کا وقت دیا جاتاہے لیکن اس دوران عملاتعمیراتی اور پلاٹ کے فروخت کے لئے اشتہار کر نا قانونا جرم ہے۔ چھ ماہ کے کام کے بعد اجازت نامے کے لئے دستاویزات ضلع کمیٹی کے پاس جمع کرکے وہ لوبیکاکے صدر دفتر کو ارسال کردینگے۔ پانچ سو کنا ل سے زیادہ زمین پر منصوبے کے جازت نامے کے لئے براہ راست لوبیکا کو رجوع کرنا ہوگا۔



