خالدہ نیاز

پچاس سالہ سبزعلی مقامی ایجنٹ کے ساتھ محو گفتگو ہے کہ وہ کتنے پیسوں میں اس کے بیٹے کو باہر ملک بھیج دے گا۔ ضلع نوشہرہ سے تعلق رکھنے والا سبزعلی آج سے تین سال قبل تک اس حق میں نہیں تھا کہ اس کا بیٹا اپنا ملک چھوڑ کے باہر چلا جائے لیکن باقی لوگوں کی طرح اب وہ بھی چاہتا ہے کہ اس کا بیٹا باہر سیٹل ہوجائے۔

سبزعلی نے بتایا کہ اس کے بیٹے نے کئی جگہ نوکری کے لیے اپلائی کیا لیکن نوکری اُن کو نہ ملنا تھا نہیں ملی جس کے بعد انہوں نے اب مقامی ایجنٹوں سے بات چیت شروع کردی ہے کہ وہ کم پیسوں میں اس کے بیٹے کو باہر بھجوا دیں۔ سبزعلی کے مطابق اس کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، گھر میں کمانے والا کوئی نہیں وہ محنت مزدوری کرکے سب کا پیٹ پالتا ہے سوچا تھا بیٹا بڑا ہوکر تعلیم حاصل کرنے کے بعد نوکری کرلے گا لیکن نوکری ہے نہیں اور مہنگائی اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ جینا محال ہوگیا ہے۔ سبزعلی کا کہنا تھا وہ اس حق میں کبھی بھی نہیں تھا کہ اس کا بیٹا ملک سے باہر جاکر مزدوری کریں۔

یہ حال صرف سبزعلی کا نہیں ہے بلکہ ہر دوسرے تیسرے گھر سے یا تو کوئی جوان باہر جاچکا ہے یا نکلنے کی تیاری میں مصروف ہے۔ پاکستان اکنامک سروے 2023-2024 کے مطابق پاکستان میں تقریباً 45 لاکھ افراد بے روزگار ہیں، جن میں 15 سے 24 سال کی عمر کے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح سب سے زیادہ 11.1 فیصد ہے۔

شازیہ نے بیٹوں کو کیوں باہر بھجوا دیا؟

نوشہرہ کی شازیہ گھر کے صحن میں اداس بیٹھی ہیں۔ وہ اپنے دونوں بیٹوں کو یاد کررہی ہیں جو دونوں ہی بیرون ملک روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں۔

شازیہ بتاتی ہیں اس کے بیٹوں کی عمریں 20 سے 22 سال کے درمیان ہے لیکن غربت اور مہنگائی کی وجہ سے اپنے لخت کے جگروں کو خود سے میلوں دور بھیجا ہے۔ ” ابھی میرے بیٹوں کی عمر باہر جانے کی نہیں تھی، میں خود بھی چاہتی تھی کہ وہ یہاں تعلیم حاصل کرلے لیکن غربت کی وجہ سے میرا یہ خواب پورا نہ ہوسکا، یہاں دو وقت روٹی کے لالے پڑے ہیں تعلیم کہاں سے اور کیسے حاصل کریں گے، کچھ کمائیں گے نہیں تو کہاں سے کھائیں گے” شازیہ نے آہ بھرتے ہوئے کہا۔

وہ مسلسل اپنے بیٹوں کی تصاویر کو دیکھ رہی تھی، دونوں کی تصاویر کو برآمدے کی دیوار پر لگایا ہوا ہے اور صبح و شام انہیں کو دیکھ کر آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتی ہیں۔ شازیہ نے بتایا کوئی بھی ماں نہیں چاہتی کہ اس کے جگر کے گوشے جدا ہو اس سے لیکن ملکی حالات سب کے سامنے ہیں جس کی وجہ سے مائیں بھی مجبور ہوجاتی ہیں اوپر سے نوجوان بھی باہر جانے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔

گزشتہ چند سالوں میں پاکستان سے باہر ممالک جانے والے افراد کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے جس کا اندازہ بیورو آف ایمگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کی ویب سے لگایا جاسکتا ہے۔ 2020 میں یہ تعداد محض 2 لاکھ تک تھی جو اب بڑھ کر 9 لاکھ تک جاپہنچی ہے۔

پچھلے 5 سالوں میں کتنے افراد بیرون ممالک گئے؟

بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کی ویب سائٹ سے حاصل کردہ اعدادو شمار کے مطابق 2020 میں 225213 افراد نے بیرون ممالک کا سفر کیا، 2021 میں 288280، 2022 میں 832339، 2023 میں 862625 افراد بیرون ممالک گئے۔ اسی طرح رواں برس اکتوبر تک 602694 افراد مختلف ممالک جاچکے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ  یہ تعداد وہ ہے جو قانونی طریقے سے باہر کا سفر کرتے ہیں، لاکھوں نوجوان غیرقانونی اور دشوار گزار راستوں کا انتخاب کرتے ہیں جن میں سے اکثر راستے کی سختیاں برداشت نہیں کرپاتے اور جان کی بازی ہاردیتے ہیں۔ کچھ ڈاکووں کے ہتھے چڑجاتے ہیں جبکہ کچھ سمندر کی بے رحم موجوں کی نظر ہوجاتے ہیں لیکن پھر بھی آنکھوں میں بہتر مسقتبل کے خواب سجائے یہ نوجوان انہیں راستوں کا انتخاب کرتے ہیں جو تباہی کی طرف جاتی ہیں۔

دسمبر 2023 میں لیبیا میں غیرقانونی تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے سے 61 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ عالمی تنظیم برائے تارکین وطن (آئی او ایم) کے مطابق لیبیا کے شمال مغربی ساحل پر واقع زوارا سے روانہ ہونے کے بعد کشتی اونچی لہروں کی زد میں آگئی تھی جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں تارکین وطن کی موت واقع ہوگئی۔ کشتی میں 86 افراد سوار تھے جن میں سے 25 افراد کو زندہ بچالیا گیا تھا۔

مردان سے تعلق رکهنے والا شاه فيصل اپني ضروريات پوري کرنے کے ليے دو دو نوکریاں کررہا ہے۔ شاہ فیصل کا کہنا ہے کہ انکا چھوٹا بھائی بیرون ملک مقیم ہے جہاں سے وہ اچھی کمائی کررہا ہے یہاں یہ دو دو نوکریاں کرکے بھی بمشکل ضروریات ہی پوری کرپارہا ہے۔ شاہ فیصل کا کہنا ہے کہ وہ بھی اسی کوشش میں لگا ہے کہ اس کو جب بھی موقع ملے گا وہ یہاں سے دوسرے ملک شفٹ ہوجائے گا۔

نوجوانوں میں مایوسی کیوں پھیل رہی ہے؟

دیر اپر کے عباس زمان نے زوالوجی میں ایم فل کررکھا ہے، وہ نوکری نہ ہونے کی وجہ سے ایک پرائیویٹ سکول میں پڑھاتے ہیں۔ عباس زمان کا کہنا ہے کہ ملک میں نوکریاں نہیں ہے اور جو ہے اس میں شفافیت نہیں ہے۔ عباس زمان کے مطابق آجکل ہر نوجوان کے پاس ایم فل، پی ایچ ڈی کی ڈگری موجود ہے لیکن نوکریاں نہیں ہے ایسے میں نوجوانوں میں مایوسی پھیل رہی ہے۔ عباس زمان کا کہنا ہے کہ یہاں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان مایوس ہوکر باہر ممالک کا رخ کررہے ہیں کیونکہ انکو لگتا ہے کہ یہاں رہ کر خود کو ضائع ہی کریں گے ۔نوکریاں نہیں ہے اور روزگار کے لیے بھی حالات سازگار نہیں ہے، حکومت کو اس معاملے کو سنجیدہ لینا چاہئے کہ اگر پڑھے لکھے نوجوان یہاں سے باہر چلے جائیں گے تو ہمارے ملک کے مستقبل کا کیا ہوگا؟

نہ صرف نوجوان لڑکے بلکہ لڑکیاں بھی خواہش مند ہیں کہ بیرون ممالک جاکر روزگار کریں۔ کچھ عرصہ قبل تک لڑکیاں صرف اس خواہش کا اظہار کرسکتی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اب لڑکیاں بھی نہ صرف پڑھنے جاتی ہیں بلکہ وہاں سیٹل ہوکر نوکری بھی کرتی ہیں۔ ضلع مردان کی رعناز نے ایم ایس سی اکنامکس کررکھا ہے اور ایک این جی او کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ رعناز کا کہنا ہے کہ پچھلے دو سال سے وہ اسی تگ و دو میں ہے کہ کسی طرح بیرون ملک منتقل ہوجائے۔ وہ ایسا کیوں سوچ رہی ہیں اس حوالے سے رعناز نے بتایا کہ ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام، بے یقینی کی صورتحال، مہنگائی، غربت، میرٹ کی بالادستی نہ ہونا شامل ہیں۔

ماہر معاشیات پروفیسر ذلاکت خان کہتے ہیں کہ کسی ملک سے نوجوانوں کا اتنی زیادہ تعداد میں باہر جانے کی دو وجوہات ہوسکتی ہے یا تو وہ اعلی تعلیم کے لیے جانا چاہتے ہیں یا پھر بہتر روزگار کی خاطر۔ ذلاکت خان نے بتایا کہ جب بھی کسی ملک سے اعلی تعلیم یافتہ نوجوان مہاجرت کرتے ہیں تو اس کو برین ڈرین کہا جاتا ہے اور یہ لوگ پھر واپس اپنے ملک نہیں آتے۔

تنخواہ میں ضروریات بھی پوری نہیں ہوتی خواہشات کا سوال ہی نہیں بنتا

رعناز نے بتایا کہ فریش لوگ جب فیلڈ میں آتے ہیں تو انکی بہت حق تلفی ہوتی ہے کم تنخواہ پر ان سے زیادہ کام لیا جاتا ہے اور یہ سب کچھ وہ خود سہہ چکی ہیں۔ ” مہنگائی اتنی ہوگئی ہے کہ تنخواہ میں ضروریات پوری نہیں ہوتی تو خواہشات کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا” رعناز بتاتی ہیں صبح اٹھتے ہی گیس غائب ہوتی ہے بجلی کا نام و نشان نہیں، ٹرانسپورٹ کے الگ مسائل ہیں لہذا میں چاہتی ہوں کہ کسی اچھے ملک میں جاکر بہتر مستقبل تلاش کروں۔

پروفیسر ذلاکت خان سمجھتے ہیں کہ پاکستان سے جانے والے زیادہ تر افراد کے پاس کوئی ہنر نہیں ہوتا جس کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آتے، ان کا کہنا ہے کہ اول تو ان افراد کے لیے ملک میں ہی روزگار اور نوکریوں کا بندوبست کرنا چاہئے تاہم اگر نوجوان جانا چاہتے ہیں تو وہ قانونی طریقے سے جائے اور ایسے ہنر سیکھ کر جائے جس سے وہ باہر اچھا زرمبادلہ کماسکیں اور نہ صرف اپنے لیے کما سکیں بلکہ پاکستان کی معیشت میں بھی اپنا کردار ادا کرسکیں۔

 

 

 

 

 

 

 

ٹائم لائن اردو ٹیم
ٹائم لائن اردو کے رپورٹرز، صحافی، اور مصنفین پر مشتمل ٹیم

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں