ثانیہ جان (فرضی نام) اپنے خاندان کے ساتھ اس اُمید کے ساتھ اپنا ملک افغانستان چھوڑ کر پاکستان آئی کہ یہاں پر سکون کے ساتھ زندگی گزار سکیں گی لیکن یہاں پر بھی اُن کے مشکلات کم نہیں ہوئے۔ افغانستان کے مشرقی صوبے کنڑ کے مرکز اسدآباد سے تعلق رکھنی والی ثانیہ جان اگست 2021 تک طالبان کے حکومت سے پہلے اپنے بھائی محمد آصف (فرضی نام) کے ساتھ وزارت عدلیہ میں پراسیکیوٹر کے عہدے پر کام کررہی تھی۔ تین سال پہلے اُنہوں نے اپنے خاندان سمیت اُس وقت ملک چھوڑ کر پاکستان آئے جب ایک رات کچھ مسلح افراد اُن کے گھر آئے اور اُن کے بھائی محمد آصف کا نام لیکر ملنے کو کہا، تاہم گھر کے چھت سے دوسرا بھائی پورا منظر دیکھ رہا تھا۔ دروازہ کھولنے کے بجائے ثانیہ جان اورآصف نے گھر کے دوسرے دروازے سے نکال کر ہمسایوں کے گھر میں پناہ لی۔ ثانیہ کا کہنا ہے کہ پہلے سے اُن کو یہی اندیشہ تھا کہ افغان طالبان اُن کو جان سے مار نہ ڈالے تاہم اُس رات جو کچھ ہوا تو شک یقین میں تبدیل ہوا۔ اُن کا کہنا ہے کہ رات کے تاریکی میں وہاں سے نکل کر صبح سویرے طورخم سرحدی گزرگاہ سے پاکستان آئے۔

سرحدی حکام نے اُس سمیت ان کے بھائی، چار بھتیجوں اور ایک ذہنی مریضہ بہن کو رشوت کے بدلے پاکستان آنے کی اجازت دی کیونکہ اُن کے پاس سفری دستاویزات موجود نہیں تھے۔

اگست 2021میں افغانستان میں منتخب جمہوری حکومت کے خاتمے اور اقتدار افغان طالبان کے حوالے کرنے کے بعد ملک سے تیسری بار لوگوں نے بڑی تعداد میں دیگر ممالک کو نقل مکانی ہوئی۔ پہلی بار 1979میں افغان روس جنگ، دوسری بار 9/11کے بعد امریکہ اور اتحادی افواج کا حملہ اورطالبان حکومت کے خاتمہ، تیسری اور آخری بار افغان طالبان کا براسرقتدار آنے کے بعد بڑی تعداد میں لوگ دوسرے ممالک کو ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔

وزارت داخلہ کے اندازے کے مطابق افغانستان سے آخری نقل مکانی میں چھ لاکھ جبکہ امدادی اداروں کے اعداد وشمار کے مطابق دس لاکھ کے قریب مہاجرین پاکستان آئے ہیں جن میں اکثریت کے پاس قیام کے لئے قانونی دستاویزات موجود نہیں جن میں زیادہ تر وہی لوگ ہیں جو سرکاری، امدادی اداروں، اتحادی افواج اور بیرونی ممالک کے سفارتحانوں میں نوکری کرتے تھے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یواین ایچ اسی آر)کے مطابق پچھلے تین سالوں میں پاکستان میں قیام پزیر ساڑھے چار لاکھ افغان باشندوں نے بیرونی ممالک منتقلی کے لئے اپنا اندراج کردیاہے۔

پچھلے کئی سالوں سے پاکستان میں افغان مہاجرین کے مدد کے لئے غیر سرکاری ادارہ سوسائٹی فار ہومین راٹس اینڈ پرزنر (شارپ) بھی کام کررہی ہے۔ ادارے کے چیف ایگزیکٹو محمد مدثر نے کہا کہ شارپ نے پچھلے تین سالوں میں جتنے بھی افغان مہاجرین پاکستان آئے ہیں اُن کو بین الاقوامی امدادی اداروں اور حکومت کی طرف سے بالکل توجہ نہیں ملی جس کی وجہ سے ان لوگوں کا باقاعدہ کوئی رجسٹریشن نہیں کرایا گیا اور اصل اعداد و شمار کے بارے میں بھی معلومات موجود نہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ شارپ کے پاس چار لاکھ افغان مہاجرین کا اندراج ہو چکا ہے اور اُن کے تمام کاروائی مکمل ہونے کے بعد مزید کاروائی کے لئے یواین ایچ سی آر کو بھیج دیا گیا ہے تاہم اس بار پاکستان آئے ہوئے اصل تعداد سات سے گیارہ لاکھ تک ہیں۔ اُن کے بقول اس دفعہ بڑی تعداد میں ججز، وکلاء، فنکار، خواتین کھلاڑی، پبلک پراسیکوٹرز، صحافی، شوبز کے لوگ، خواجہ سراء، بیرونی ممالک کے سفارتحانوں اورغیر سرکاری امدادی اداروں کے ملازمین شامل ہیں۔ یہ سارے وہی لوگ ہیں جن کو اپنے ملک میں خطرات درپیش ہیں۔ اُن کے بقول مہاجر بچوں اور خواتین کے مسائل بہت زیادہ ہے تاہم یہی لوگ کسی دوسرے ملک میں پناہ کے حصول کے لئے ویزے کا انتظار کررہے ہیں لیکن پاکستان کے غیر قانونی طورپر مقیم بیرونی ممالک کے باشندوں کے انخلاء کے فیصلے کے بعد ان لوگوں کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ ان میں اکثریت ویزوں کے مدت ختم ہوچکا ہے اور بالکل سفری دستاویزات موجود ہی نہیں جبکہ واپس اپنے ملک جانا خطرناک ہے۔

دنیا عزل افغانستان کے ایک نامور گلوکارہ ہے جن تعلق افغانستان کے صوبہ بلخ سے ہے۔ موجودہ وقت میں اسلام آباد میں زندگی گزار رہی ہے۔اُنہوں نے کہاکہ تین سال پہلے جب طالبان برسراقتدار آئے تو مجھے سمجھ نہیں آرہا تھاکہ یہ سب کیسے ہوا کیونکہ میں ایک فنکار تھی اور جان سے مارنے کا خوف ڈر تھا۔ اُن کے بقول افغانستان میں موسیقی کے پروگراموں میں زیادہ مصروف رہتی تھی لیکن یہاں پر تین سال میں ایک بھی میوزک یا ٹی وی کے کسی بھی پروگرام میں مد عو نہیں کیا گیاہوں۔ اُن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ایسا محسوس کررہی ہوں کہ زمین اور آسمان ایک ہوچکے ہیں۔

افغان پراسیکیوٹرز ایسویشن کے اعداد شمار کے مطابق موجودہ و قت میں پاکستان میں چار سو سے زائد افغان پراسیکیوٹرز مقیم ہیں جو افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار آنے سے پہلے عدلیہ میں اپنے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ مزکورہ اعداد شمار میں نصف تعداد خواتین کی ہیں۔ ایسویشن کے مطابق یہی لوگ اپنے جان بچانے کے لئے پاکستان آکر بیرونی ممالک جانے کے لئے عالمی ادارہ برائے مہاجرین کے ساتھ اپنے آپ کو رجسٹر کرچکے ہیں تاہم یہی لوگ ایک طرف کیس پر کاروائی کے عمل سست روی کا شکار ہے جبکہ دوسری جانب پاکستان حکا م کے جانب سے ملک میں مقیم غیر قانی مہاجرین کے انخلاء کے کاروائیاں شروع کرنے سے مسائل میں دن بدن اضافہ ہورہاہے۔

محکمہ داخلہ کے مطابق پاکستان میں سترہ لاکھ افغان مہاجرین غیر قانونی طورپر پہلے سے پاکستان میں مقیم ہے۔ وزارت سیفران نے رجسٹرڈ افغان مہاجرین کے قیام کے مدت میں توسیع کا اعلان کردیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق توسیع کا اطلاق یکم جولائی 2024 سے 30 جون 2025 تک ہوگا۔

یواین ایچ سی آر کے ترجمان قیصر آفریدی نے کہاکہ حکومت پاکستان نے 2006-07 میں مہاجرین کے رجسٹریشن کا فیصلہ کرلیا تھا اور ساڑھے چودھا لاکھ لوگوں کو پی او آر کارڈ(پروف آف رجسٹریشن کارڈ) جاری کردیا گیا لیکن اس کے باوجود بھی بڑی تعداد میں لوگ اندارج سے رہ گئے تھے۔ اُن کے بقول پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد حکومت نے نیشنل ایکشن پلان کے تحت ملک میں تمام غیر رجسٹرڈ افغانیوں کے اندراج کا فیصلہ کرلیا اور اس کے تحت 2017 میں ساڑھے آٹھ لاکھ مہاجرین کو افغان سٹیزن کارڈ جاری کردیا گیا۔

حکومت کے اعداد شمار کے مطابق ساڑھے چار لاکھ افغان مہاجرین رجسٹریشن سے رہ گئے تھے جبکہ دو سال پہلے چھ لاکھ نئے مہاجرین پاکستان آئے تاہم یہ اُس وقت اندازہ ثابت ہوئی جب پچھلے سال تین اکتوبر کے اعلی سطحی اجلاس میں چاروں صوبوں کے اہم عہدایداروں کے پاس اس حوالے کوئی مستند اعداد موجود نہیں تھے۔ اجلاس میں سترہ لاکھ غیر قانونی مہاجرین کے انخلاء کے بارے میں بتایا گیا۔

سعیدہ نوری ا فغانستان صوبہ ننگرہار میں آٹھ سال تک پولیس میں رہی اور بھائی بیرونی ملک سفارتحانے میں ترجمان تھا۔ جب طالبان اقتدار میں آئے تواُن کے بھائی نورآغا نوری کو طالبان نے گھر سے گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔ سعید ہ نے بتایاکہ کافی کوششوں کے بعد بھائی کی رہائی ہوئی تاہم گھر میں کسی کو یقین نہیں تھا کہ وہ دوبارہ زندہ سلامت گھر لوٹ آئے گا۔ اُن کے بقول بھائی کو شدید تشدد کا نشانہ بنایاگیا تھا، کافی ڈرا ہوا تھا جبکہ ذہنی مریض بن چکاتھا۔ اُنہوں نے کہاکہ وہاں پر ابتدائی علاج کرایا گیا لیکن جلدی میں بغیر سفری دستاویزات کے چمن کے راستے پشاور آکر کرائے کے فلیٹ میں رہائش پزیر ہوئے۔اُنہوں نے کہاکہ بھائی رواں سا ل بیس فروری کو مارکیٹ سے سودا لینے کے لئے گیا لیکن پولیس نے گرفتار کرکے اُن کو ڈی پورٹ کردیا کیونکہ اُن کے پاس ویزہ نہیں تھا۔اُنہوں نے کہاکہ ہمیں یہ خوف تھاکہ یہ واپس جاکر طالبان ان کو مار نہ ڈالے لیکن چند دن بعد وہ چمن کیسرحد پر پیسے دیکر دوبارہ پاکستان آیا تاہم یہ سب کچھ آسان نہیں تھا۔

دیگر مہاجرین کی طرح سعیدہ بی بی کے خاندان نے بھی بیرونی ملک منتقلی کے لئے یو این ایچ سی آر کے ساتھ اپنا نام درج کرلیا ہے اور پہلے انٹرویو کے بعد بتایا گیا کہ تین مہینے کے اندر آپ لوگوں کے ساتھ دوبارہ رابطہ کیا جائیگا تاہم اُس کے بعد کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے۔ اُن کے بقول ایک پاکستانی دوست کے شناختی کارڈ پر لی گئی موبائل سم بند ہونے کی وجہ سے ہر ہفتے خود پشاور میں قائم یواین ایچ سی آر کے دفتر اپنے کیس کے بارے میں پوچھنے کے لئے جاتی ہوں لیکن وہاں پر کوئی رہنمائی کے لئے باہر کوئی موجود نہیں اور اندر جانے کی اجازت نہیں دیا جاتا ہے۔

قیصر آفریدی نے بتایاکہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد بیرونی ممالک منتقلی کے لئے یو این ایچ سی آر کے ساتھ ساڑھے چار لاکھ لوگ رجسٹرڈ ہے اُن سب کو اپنے ملک میں جان کا خطرہ درپیش ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ ادارہ ایک طریقہ کار کے بنیاد پرکام کررہاہے اور جو زیادہ خطرے سے دوچارہے اُن کو ترجیح دیا جاتا ہے تاکہ وہ جلد محفوظ مقام پر منتقل ہوجائے۔ اُن کے بقول اتنی بڑی تعداد میں افغان مہاجرین کی بیرونی ممالک منتقلی ممکن نہیں کیونکہ ہرایک ملک مخصوص تعداد کے لوگ قبول کرلیتے ہیں اور یواین ایچ سی آر کو بتاتا ہے کہ وہ اتنے بندوں کو پناہ دیں سکتاہے۔

محمد مدثر کے مطابق 2016کے بعد جن آفغان مہاجرین نے شارپ سے بیرونی ملک پناہ کے لئے رابطہ کیا ہے اُن کو کہا گیا کہ بیرونی ممالک میں کسی بھی افغان کو پناہ کی اجازت نہیں اس پر مکمل پابندی ہے تاہم اگست 2021 کے بعد جو افغان مہاجرین پاکستان منتقل ہوچکے ہیں اُ ن کو ہرممکن مدد فراہم کیاجاتاہے جن میں مختلف سفارتحانوں اور ماہرین کے ساتھ ان کے نمائندوں کے ملاقاتیں کرائیے جاچکے ہیں۔ اُنہوں نے پچیس ہزار افغانیوں کے مستقبل کے بارے میں کہاکہ اُن لوگوں کو پاکستان میں مکمل تحفظ فراہم کیاگیا ہے اوراُن کی رہائش و کھانے پینے کے ذمہ داری بھی اُن ہی ممالک کے سفارتحانے یا امدادی ادروں کے ذمے ہے جو افغانستان میں ان کے ملازم تھے۔

پشاور میں رہائش پزیر افغان بیوہ فرشتہ شیخانی گھر کی واحد کفیل ہے وہ اپنے تین بیٹوں کے پڑھائی اور گھر کے اخراجات کو کپڑے بھیج کرپوری کرتی ہے۔ وہ طالبان کے برسراقتدار آنے کے پانچ مہینے بعد پاکستان ہجرت کرکے آئی کیونکہ کابل میں نہ صرف اُن کے بوتیک کو بندکردیا گیا بلکہ حکم نامہ جاری کردیاگیا کہ عورت بغیر محرم کے گھر سے نہ نکلی۔ اُنہوں نے کہاکہ پاکستان سے غیرقانونی افغان مہاجرین کے جاری عمل سے اُن کے مشکلات بڑھ چکے ہیں کیونکہ ویزے کی مدت ختم ہونے کی وجہ سے گھر کے مالک کہتے ہیں کہ پولیس کے طرف سے اُن کو کہا گیا ہے کہ کسی بھی غیرقانونی مہاجر کو کرائے پر گھر نہ دیں۔ اُنہوں نے کہا کہ وہ نہیں چاہتی کہ واپس افغانستان چلے جائے کیونکہ گھر میں مرد ہی نہیں تو وہ کیسے اپنا کمائی اور بیٹوں کے تعلیم جاری رکھ سکے گی۔

پاکستان میں مقیم افغان پراسیکیوٹرز ایسویشن کے مطابق موجودہ وقت میں پچیس سو سے زائد پراسیکیوٹرز افغانستان میں موجود ہیں جن کے زندگی کو شدید خطرات لاحق ہونے کے باوجود بھی کسی دوسرے ملک باحفاظت منتقلی کے لئے عالمی برادری کچھ نہیں کررہی ہے اور ہر ہفتے ان لوگوں کو اغواء اور بعد میں اُن کے قتل کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔

افغان طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ملک میں تمام سیاسی مخالفین اور سرکاری ملازمین کو عام معافی کا اعلان کردیا تاہم انسانی حقوق کا موقف رہا ہے کہ طالبان ملک میں سابق دور حکومت کے مختلف شعبوں میں حدمات سرانجام دینے والے افراد کو نشانہ بناء رہے تھے تاہم طالبان ان الزامات کو مسترد کرتے رہے۔

شارپ کا کہنا ہے کہ حکومت کے طرف سے یہ کہاگیا کہ قانونی دستاویزات کے حامل آفراد کو کچھ نہیں کہاجائیگا لیکن اس کے باجود بھی ملک بھر سے رجسٹرڈ افغان مہاجرین کے طرف سے پولیس کے حوالے سے مختلف شکایت موصول ہورہے ہیں۔ اس صورتحال میں پوری ملک میں شارپ کے قانونی ٹیم مختلف سطح پر افغان مہاجرین کی مدد کررہاہے۔

نومبر2023 کے شروع میں پشاوراور کوئٹہ ہائی کورٹس میں افغان فنکاروں کے زبردستی بے دخلی کے خلاف درخواستیں دائر کردئیے گئے۔ درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ افغانستان میں نہ صرف موسیقی پر پابندی ہے بلکہ فنکاروں کے جان کو خطرہ بھی ہے جس کی وجہ سے ان کو زبردستی بے دخل نہ کیاجائے۔ پاکستان میں یو این ایچ سی آر کے ساتھ یہ لوگ رجسٹرڈ ہے۔ پشاور ہائی کورٹ نے پہلے سماعت میں وفاقی حکومت سے جواب داخل ہونے کو کہا جبکہ دوسری سماعت میں ایک ہزار افغان فنکاروں کے رجسٹریشن اور اعداد و شمار جمع کرنے کا حکم جاری کردیا۔افغان خواجہ سراؤں نے بھی پشاور ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کردیا ہے جن کو اسلام آباد ہائی کورٹ بھیج کرافغان فنکاروں کے کیس سے ساتھ جوڑنے کا فیصلہ ہوا تھا۔

اسلام گل
بانی و مدیر اعلٰی ٹائم لائن اردو، اسلام گل افریدی مختلف قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کےساتھ کام کرنے والے سینئر صحافی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں