
عاصمہ گل
ضلع خیبر کے تحصیل باڑہ کے علاقے اکاخیل کے تیس سالہ زرمینہ گھر کے ضروریات پورا کرنے کے لئے دوکلومیٹر دو رکنواں سے سر پر پانی لا تی ہے۔ ایک طرف جسمانی مشقت تو دوسری جانب گھر میں بچوں کے دیکھ بھال پر توجہ دینا انتہائی مشکل کام ہے۔ اُنہوں نے بتایاکہ گھر کے قریب ٹیوب ویل سے گاؤں کے ایک سو پچاس گھروں کو پانی کے کنکشن مہیا کی گئی جس سے نہ صرف پینے وگھر کے باقی ضروریا ت پوری ہوتی ہے بلکہ پانچ مرلے کے پلاٹ میں سبزیاں بھی سیراب ہوتاتھالیکن دو سال پہلے کنوایں میں پانی خشک ہوگئی۔
پچھلے 27 اگست کو وفاقی وزارت پانی و آبی ذخائر نے ملک میں زیر زمین پانی کے حوالے سے سینٹ میں ایک رپورٹ پیش کیا گیا تھا جس میں کہا گہا تھا کہ پختونخوا کے پانچ اضلاع میں زیر زمین پانی کے ذخائر خطرناک حد کم ہوکر نیچے چلاگیا ہے اور پانی کی سطح تیزی کیساتھ کم ہوتی جارہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک بھر گزشتہ دس سال میں زیرزمین پانی 25 سے 74 فٹ تک نیچے جاچکاہے اورخدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ رپوٹ میں مزید بتایاگیا ہے کہ مطابق خیبر پختونخوا میں 28اضلاع ایسے ہیں جہاں زیر زمین پانی مسلسل نیچے جارہاہے لیکن ان میں پانچ اضلاع سب سے زیادہ متاثر ہے جن میں ضلع خیبر فہرست میں پہلے نمبرپر ہے جہاں گزشتہ 10سالوں میں زیر زمین پانی 74 فٹ، ضلع ہری 61.50 فٹ، ضلع مہمند میں 57.42فٹ، ضلع باجوڑ میں 32.79 فٹ اور پانچویں نمبر پر ضلع کرم زیر زمین پانی 25.75 فٹ نیچے چلا گیا ہے۔ ماہرین نے خدشہ ظاہر کیاہے کہ اگر اسی رفتار سے پانی کی سطح کم ہوتی رہی توآئندہ چند سالوں میں ان اضلاع کے لوگوں کو خشک سالی کا سامنا کرنا پڑسکتاہے۔
زرمینہ کے شوہر تیس سالہ فضل ربی نے بتایا کہ گاؤں کے لئے پینے کے پانی کے لئے سرکاری سطح پر کافی بھاگ دوڑ کے بعد ٹیوب کی منظوری ہوئی جس پر کام آخری مرحلے میں ہے۔ اُنہیں اُمید ہے کہ گھر کے ضروریات کے لئے علاقے کے خواتین کو دور دراز سروں پر پانی لانے جیسے مسئلے سے چھٹکارا مل جائیگا تاہم مکمل کیں گئے ٹیوب ویل کے گہرائی علاقے کے دوسرے ٹیوب ویلوں کے نسبت زیادہ کھودا گیا ہے۔ اُ ن کے بقول یہ ٹیوب ویل 480 فٹ گہرا گھودا گیا لیکن کئی سال پہلے ان علاقوں میں 300فٹ کے گہرائی میں وافرمقدار میں پانی دستیاب ہوتا تھا لیکن اب ایسا نہیں۔
پنتیس سالہ جاوید علی اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ اس ٹیوب ویل کے لئے فلٹرجوڑر ہے ہیں، وہ بورنگ کا کام پچھلے آٹھارہ سالوں سے کررہے ہیں۔ اُنہوں نے کہاکہ 194 فٹ کے گہرائی میں پانی کی اثرظاہر ہوئے ہے جبکہ پہلے چشمے کے پانی 218فٹ تک چلی گئی۔ اُنہوں نے بتایاکہ 449فٹ میں دوسرے چشمے شروع ہوئے جوکہ 13فٹ تک چلا جبکہ احتیاط کے طورپر مزید کھدائی کرکے 480تک پہنچ گئی تاکہ پانی جلد خشک نہ ہوجائے۔اُنہوں نے کہاکہ پچھلے کئی سالوں میں ضلع خیبر کے مختلف علاقوں میں 45سے 50فٹ تک پانی نیچے چلا گیا جس کی وجہ سے بورنگ کا کام مشکل ہوتاجارہاہے۔
پاکستان کونسل برائے تحقیقاتی آبی وسائل یا پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹرریسویسز (PCRWR) ملک میں پانی کے معیار اور ذخائر کو محفوظ بنانے، تحقیق اور دیگر منصوبوں پر کام کررہا ہے۔ خیبر پختونخوا میں ادارے کے سربراہ ڈاکٹر منیب خٹک نے کہاکہ 2004 سے ادارہ ملک کے دیگر حصوں کی طرح خیبر پختونخوا میں بھی کام کررہاہے۔ اُنہوں نے کہاکہ ادارہ پانی کے حوالے سے دو اہم پہلوپر کام کررہاہے جن میں ایک مقدار اور دوسرا معیار شامل ہے تاہم اُن کے بقول سال 2010 کے بعد زیادہ علاقوں میں مذکورہ دنوں چیزیں متاثر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ زیر زمین پانی سالانہ چار سے پانچ میٹر نیچے جارہاہے جس کی بنیادی وجہ ضرورت سے زیادہ پانی نکلنا اور اُن کا ضیاع ہے۔اُن کے بقول موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بارشوں کی مقدار میں کمی، کارخانوں اور رہائشی کالونیوں،کارخانوں اورسروس سٹیشنوں میں پانی کا بے دریغ استعمال کے ساتھ پانی کے ذخائر کو محفوظ بنانے کے لئے منصوبوں پرکام نہ ہونا وہ بنیادی وجوہات ہے جس کے وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح نیچے جارہاہے بلکہ اس کے مقدار میں بھی میں کمی واقع ہورہی ہے۔اُنہوں نے کہاکہ زرعی زمینوں کو روایتی طریقوں سے سیراب کرنے سے بھی پانی کی بڑی مقدار ضائع ہوتاہے جبکہ بغیر کسی حکومتی اجازت کے لوگ ٹیوب ویل اور کنوایں بنا رہاہے۔
تیس سالہ محمدحسین کا تعلق ضلع خیبر کے تحصیل باڑہ قبیلہ شلوبر سے ہے اور پیشے کے لحاظ سے تاجر ہے تاہم کھیتی باڑی اور گھر کے ضرویات پورا کرنے کے لئے اُنہوں نے دس سال پہلے اپنے پیسوں سے 320فٹ گہرا ٹیوب ویل لگایا تھا تاہم سات مہینے پہلے اس میں پانی مکمل طور خشک ہونے کی وجہ سے اُنہوں نے چھ لاکھ روپے کے لاگت سے 420 فٹ نیا بور لگایا۔اُنہوں نے کہاکہ پہلے والے بور پانی کی مقدار زیادہ تھا اور بجلی سے چلنے والے مشین سے تین انچ کے پانی بارہ سے چودہ گھنٹے چلتا تھا تاہم نئے بور پر شمسی توانائی سے چلنے والے دو انچ کا مشین لگایا جوکہ صرف پینے او ر گھر کے دیگر ضرریات پورا کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اُن کے بقول پانچ ایکٹر زمین پہلے سیراب ہوتا تھا اور پوری سال کے گندم، سبزیاں اور مویشو ں کے لئے وافر مقدار میں چارہ دستیاب ہوتاتھا لیکن پانی نہ ہونے کی وجہ سے سارا بنجر پڑا۔
سیلم خان کنواں یا ٹیوب لگانے سے پہلے پانی کے مقدار کے حوالے سے محکمہ پبلک ہیلتھ، محکمہ آبپاشی کے علاوہ نجی سطح پر سروے کا کام پچھلے بیس سال سے کررہے ہیں۔اُنہوں نے کہاکہ خیبر پختونخوا میں زیر مین پانی پینے اور زرعی زمینوں کو سیراب کرنے کے لئے استعمال کیا جاتاہے لیکن ذخائر کے حوالے کوئی مانیٹرنگ نظام موجود نہیں جس کے وجہ سے مختلف سرکاری و امدادی اداروں کے ساتھ ذاتی طورپر لوگ بغیر کسی رو ک ٹوک زیر زمین پانی نکالنے کے لئے کنوایں یاٹیوب ویلز لگا رہے۔ اُنہوں نے کہاکہ عالمی سطح پر پانچ فیصد جبکہ پاکستان میں دس فیصدسے زیادہ پانی زمین سے نکلا جاتاہے۔
خیبر پختونخوا محکمہ پبلک ہیلتھ کے ایک اعلی عہدید ارنے نام ظاہر نہ کرنے کے شرط پر بتایا کہ صوبے میں 500 کے قریب غیر فعال ٹیوب ویل موجود ہے اور اکثر یت میں پانی خشک ہوچکی ہے۔
زیر زمین پانی کو محفوظ بنانے کے لئے حکومتی اقدامات
صوبے میں پانی کے ذخائر کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کے لئے خیبرپختونخوا حکومت نے واٹر ایکٹ 2020 کو دس جولائی 2020 کو اسمبلی سے پاس کرایا گیا جس کا بنیاد ی مقصد ایک اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا جائیگا جو کے پانی کے ذخا ئر کو تحفظ فراہم کرنا، گھریلوں، کمرشل اور صنعتی استعمال کا جائزہ لے گااور پانی کے ضیاع کے روک تھا م کے لئے اقدامات کیں جائینگے۔
خیبر پختونخوا واٹر ایکٹ 2020 کے شق 7 کے تحت اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے حکومت نے 8 فروری 2021 کو خیبر پختونخوا واٹر ریسورس ریگولیٹری اتھارٹی قائم کیا اور ملک میں پہلے صوبے کا اعزاز حاصل کیا۔ اتھارٹی کے چیئرمین ایڈیشنل چیف سیکرٹری جبکہ سیکرٹری محکمہ آبپاشی وائس چیئرمین ہونگے۔اتھارٹی کے اراکین میں چیف انجینئر محکمہ آبنوشی، سیکرٹری لوکل کونسل بورڈ، ڈائریکٹر جنرل انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی، ڈائریکٹر جنرل محکمہ صحت، ڈائریکٹر محکمہ صنعت، چیئر پرسن کی جانب سے نامزد کردہ دو پبلک ہیلتھ ماہرین اور د و پانی ماہرین شامل ہونگے۔اتھارٹی اب تک صرف ایک اجلاس وزیر اعلی خیبر پختونخوا کے زیر صدرات 25اگست 2021 کو منعقد کیا جا چکا ہے۔ ایکٹ کے تحت صرف حیات آباد میں جوکہ بڑا رہائشی علاقہ ہے حکومت کے منظوری کے بغیر ٹیوب ویل لگانے پر پابندی ہے جبکہ پشاور شہر میں سروس سٹیشنوں کے لئے میٹر نصب کیاگیا ہے۔
کیا زیر زمین پانی کےذخائر بڑھ سکتاہے
پاکستان کونسل برائے تحقیقاتی آبی وسائل خیبر پختونخوا کے د و جنوبی اضلاع کوہاٹ اور ہنگو میں زیر زمین پانی کے مقدار میں اضافے کے لئے اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسکو کے مدد سے تحقیقاتی کام کررہاہے۔ ڈاکٹر منیب خٹک نے کہاکہ مذکورہ اضلاع میں بھی میں زیر زمین پانی کئی فٹ نیچے چلا گیا ہے جس کے وجہ سے مقامی لوگوں کو پانی کے حصول میں کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔اُن کے بقول اس وجہ سے ادارہ علاقے میں بارش کے پانی کو چھوٹے ڈیم یا بند بنانے کے لئے منصوبوں کی نشاندہی کررہے ہیں جن کے تعمیر پر مستقبل میں کام کیاجائیگا اور یہ ایک بہترین تجربہ ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ ادارے نے سال 2020-21میں اسلام آباد میں زیر زمین پانی کے مقدار بڑھنے کے لئے ایک منصوبے پر کام کیا جس کے نتیجے میں اُن علاقوں میں دو میٹر پانی کا سطح اوپر آیا۔
ضلع خیبر کے ایک تحصیل جمرود میں جبہ اور تحصیل باڑہ میں مستورہ ڈیم کے فیزبلیٹی رپورٹ کئی سال پہلے مکمل ہوچکے ہیں تاہم اُن پر تعمیراتی کا م شروع نہ ہوسکا تاہم ضلع خیبر ملک کا واحد ضلع ہے جہاں پر پچھلے دس سالوں میں سب سے زیادہ 74فٹ پانی نیچے چلاگیا ہے۔ ڈاکٹر منیب خٹک کا کہنا ہے کہ خیبر سے لیکر وادی تیراہ، اورکزئی، کرم، کوہاٹ، ہنگو، لکی مروت،کرک اور ڈیرہ اسماعیل خان کے اضلاع میں زیر زمین پانی کی مقدار کم ہورہاہے جبکہ خیبر ایک پہاڑی علاقہ جہاں پر مختلف مقامات پر برساتی نالیوں پر چھوٹے اور بڑے ڈیم تعمیر کیں جاسکتے ہیں جس کے مدد سے نہ صرف سیلابی ریلوں کے نقصانات پر قابو پایاجاسکتاہے بلکہ آنے والے نسلوں کے لئے محفوظ کیا جاسکتاہے۔
سیلم خان نے کہاکہ ضم اضلاع کے درہ آدم خیل، ضلع خیبر کے لنڈی کوتل وطورخم، اورکزئی، لوئر وسنٹر کرم اور اورکزئی کے سرحد پر خیبر کے کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں پر زیر زمین پانی پر آپ کوئی بڑا منصوبہ نہیں لگا سکتے کیونکہ یہاں پر پانی کے مقدار کم ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ زیر زمین پانی کے دو بڑے ذرائع ہیں جن میں ایک برف باری اور دوسرا بارشیں جو مذکورہ اضلاع میں وافر مقدار میں موجود ہے تاہم ان سے فائد ہ لینے کے لئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے جن میں گلیشر، بارش اور سیلابی پانی کے لئے چھوٹے ڈیموں کی تعمیرانتہائی اہم جن سے نہ صرف زیر زمین پانی کے مقدار میں اضافہ ہوسکتاہے بلکہ نہرکے شکل میں بھی زرعی زمینوں کے لئے پانی دستیاب ہونگے۔