
پشاور کے رنگ روڑ سفیدڈھیری کے چالیس سالہ جاوید علی ایک ایکڑ سے بھی کم زمین میں جانوروں کے چارے کے کاشت کے لئے ہل چلارہاہے۔ وہ چند سال پہلے تک گاؤں کے مختلف لوگوں کے تیس ایکڑ ز سے زیادہ زمین پر گند م،سبزیاں اور چارہ کاشت کرتے تھے لیکن ا ب حالت بالکل تبدیل ہوچکے ہیں اور محدود زرعی زمین رہ چکاہے جس پر کاشتکاری ہوتی ہے۔ اُنہوں نے بتایاکہ کاشتکاری اُن کا آبائی پیشہ ہے اور اُن کے دوبھائی آدھے آمدن کے حساب سے گاؤں میں لوگوں کے زرعی زمین سنبھالیتی تھی۔اُن کے بقول زرعی زمینوں کا زیادہ حصہ مالکان نے پراپرٹی ڈیلر کو بیچ دی جس کی وجہ سے کاشتکاری کے لئے زمین کم ہوئی۔
موجودہ وقت میں پاکستان آبادی میں اضافہ اور زرعی اجناس کے کم پیدوار جیسے اہم مسئلے سے دوچار ہے۔ ڈاکٹر مراد علی خان محکمہ زراعت ڈائریکٹریٹ جنرل توسیع خیبر پختونخوا میں ڈائریکٹر فلڈ آپریشن کام کررہاہے۔ اُنہوں نے کہاکہ دنیا کہ ہر ملک اس کوشش میں ہے کہ زرعی زمین کے رقبہ کم ہونے کے بجائے اُس میں اضافہ کرسکے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں پہلے سے ضرورت سے کئی گنا زرعی زمین کم تھا لیکن وقت کے ساتھ اس میں مزید کمی ہورہی ہے جس سے مستقبل ہمیں خوارک کی کمی جیسے بنیادی مسئلہ مزید سنگین ہو جائیگا۔ زرعی زمینوں کے بچاؤ کے حوالے سے اُنہوں نے کہاکہ عوامی سطح پر اس حوالے سے آگاہی کی بہت کمی ہے جبکہ حکومتی سطح پر بھی کوئی مضبوط نظام موجود نہیں اور بغیر منصوبہ بندی کے رہائشی اور کمرشل استعمال کے لئے زرعی زمین کو استعمال میں لایا جارہاہے۔
پشاور ڈوپلمنٹ اتھارٹی(پی ڈی اے) میں عمارتوں کے تعمیرکنٹرول کے ڈائریکٹر بہادرعلی خان نے بتایاکہ پی ڈی اے 2015 سے قانون کے تحت نجی سطح پر بنے والے رہائشی منصوبوں کے نگرانی کررہا ہے تاہم 2021کے نئے قانو ن اور نئے بلدیاتی نظام کے آنے کے بعد یہ اختیارات حال ہی میں تحصیل مونسپل ایڈمنسٹریشن (ٹی ایم او) کو منتقل ہوگئے ہیں۔ اُن کے بقول موجودہ وقت میں پی ڈی اے کے حدود میں بننے والے رہائشی یا کمرشل منصوبوں کے ذمہ داری اُن کے پاس جبکہ باہر ٹی ایم اوز کے پاس ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ نجی رہائشی تعمیراتی منصوبوں کے لئے ضلعی اور تحصیل سطح پر سکرونٹی کمیٹی موجود ہے جوکہ ڈپٹی کمشنر اس کے سربراہ ہوتے ہیں اور این او سی یا اجازت نامہ پوری جانچ پڑتال کے بعد جاری کردیتاہے۔اُنہوں نے کہااب تک 237چھوٹے بڑے منصوبوں کے چانچ پڑتال ضلع پشاور میں پی ڈے اے کرچکی ہے جن میں 8منصوبوں کو اجازت نامے جاری کردی گئی ہیں۔ 18منصوبوں کے چانچ پڑتال کاعمل جاری ہے اور 33منصوبوں کی کیس نیب میں زیر سماعت ہے۔
ستر سالہ اختر محمد اچینی پشاور کا رہائشی ہے اور وہ گاؤں کے مختلف لوگوں کے بیس ایکڑ زمین آدھے آمد ن کے حساب سے کئی دہائیوں سے کاشت کرتاتھا لیکن موجودہ وقت میں صرف اتنی زمین اُن کے خاندان کے پاس ہے جس پر ضرورت کے لئے سبزیاں ہی کاشت کرتے ہیں۔ اُنہوں نے کہاکہ زمین کے مالکان مقامی پراپرٹی ڈیلر ز کو آدھی ایڈونس ادائیگی پر اپنے زمین حوالے کرکے وہ آگے لوگوں سے بھاری پیسے لیکر اُن کو بھیج دیتاہے۔اُن کے بقول زمینوں کے سیراب کرنے کے لئے پانی کے وافر مقدا ر موجود تھی لیکن اب کھیتوں پر عمارتیں کھڑے کرنے کی وجہ سے نہر میں آنے والے پانی لوگوں کے مشکلات کا سبب بن رہاہے۔
ڈاکٹر مراد علی نے بتایا کہ تقسیم ہند کے وقت پاکستان کے مشرقی حصے کی آبادی چارکروڑ تھی لیکن اب وہ چوبیس کروڑ سے تجاوز کرگیا ہے اور اُس وقت ضرورت کے لئے ستر فیصد خوردنی تیل پیدا کرتے تھے جبکہ تیس فیصد درآمد کیاجاتاتھا۔موجودہ وقت میں صرف آٹھ فیصد ملک میں پیدا ہوتا ہے جبکہ 92فیصد درآمد کیاجاتاہے۔ اُن کے بقول پچھلے سال دو بلین ڈالر گند م جبکہ 5.32بلین ڈالر خوردنی تیل اور چار بلین ڈالرز کے دالیں دارآمد کیں گئے جوکہ بہت بڑا رقم ہے۔
پشاوررنگ روڈ اچینی چوک کے قریب رہائش پذیر جاوید علی کہتے ہیں کہ ماضی میں سبزیاں، میوجات، گندم اور مکئی وافر مقدار میں گاؤں میں پیدا ہوتے تھے اور لوگوں کو کم قیمت اورباسانی ملتے تھے لیکن اب دو تین کلومیٹر دور بڑے شاہراہ پر قائم مارکیٹ میں جانا پڑتاہے۔اُنہوں نے کہاکہ قبائلی علاقوں اور خصوصاضلع خیبر میں فوجی آپریشن کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگوں نے نقل مکانی کرکے پشاور کے مختلف علاقوں میں نہ صرف رہائش پذیر ہوگئے بلکہ یہاں پر اُنہوں نے گھروں کے تعمیر کے لئے زمینیں خریدی جس کے وجہ سے زمین زرعی زمین کے رقبے میں کمی جبکہ قیمت میں کافی اضافہ ہوا۔


مذکورہ ایکٹ کے تحت صوبائی اور اضلاع کے سطح پر مختلف سرکاری محکموں کے ذمہ دار وں پر مبنی کمیٹیاں قائم کیں گئے ہیں جو کہ کسی بھی منصوبے کے اجازت نامہ یا این او سی جاری کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ زمین کا مختلف سرکاری اداروں کے ذ مہ داران معائنہ کرلیتاہے اور ہر ایک ادارہ الگ الگ جواب جمع کرنے کی پابند ہے۔ سب سے زیادہ ذمہ داری محکمہ زراعت کے پاس ہے کیونکہ تمام اداروں کے منظوری کے بعد سب سے آخر میں مذکورہ ادارے کے ضلعی آفسر اس بات کا جائزہ لیتاہے کہ مذکورہ زمین زرعی پیداوار دیتاہے یا مستقبل میں کوئی فصل اس پر کاشت ہوسکتاہے کہ نہیں۔ کوئی فرد یاکمپنی قانون کے خلاف ورزی کے صورت میں دس لاکھ روپے جرمانہ اورتین سے دس سال تک قید کی سزا ہوسکتی ہے۔