مارچ2013 سے پہلے جگندر سنگھ اور دیگر سکھ خاندان تیراہ میں رہائش پذیر تھے تاہم وادی میں شدت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن کی وجہ سے علاقے کے دیگر لوگوں نے ساتھ سکھ اور کچھ ہندوں خاندان نقل مکانی کرکے پشاور، کوہاٹ، حسن ابدال، ننکانہ صاحب اور ملک دیگر علاقوں کو منتقل ہوگئے۔ایک سال بعد سیکورٹی ادروں نے محددو پیمانے پر لوگوں کو واپسی کا اعلان کیا تاہم تمام دوکانیں اورزیادہ ترمکانات منہدم ہوگئے تھے ۔ </p ۔
پاکستان سکھ پربندر کمیٹی کے سابق جنرل سیکرٹری اور سکھ رہنماء صاحب سنگھ کا کہنا ہے کہ ضلع خیبر کے مختلف علاقوں میں ایک ہزار سے زائد، کرم میں 450اور اورکزئی 250سکھ خاندان جبکہ کرم میں چند ہندووں خاندان آباد تھے لیکن خراب امن وامان کے صورتحال کے بناء پر ان لوگوں نے گھر بار چھوڑ کر پشاور گوردوارہ بھائی جوگن شاہ منتقل ہوگئے۔
اُن کا کہنا ہے ابتداء میں اُن لوگوں کے رہائش اور کھانے پینے کا انتظام کیاگیا جن کے لئے گوردوارہ کے تمام کمرے اور محلہ جوگن شاہ میں سکھ برادری کے بڑے گھر ان لوگوں کے لئے خالی کردئیے گئے تاہم لوگوں کے تعداد میں اضافے کی وجہ سے کئی خاندانوں کو گوردوارہ پنجہ صاحب حسن ابدل بھیج دئیے۔صاحب سنگھ کے بقول لوگوں کے سہولیات مہیاکرنے کی تمام ذمہ داریاں پاکستان گوردوارہ پربندر کمیٹی اور گوردوارہ بھائی جوگن شاہکمیٹی نے سنبھال لی تھی۔
موجودہ وقت میں صرف ایک خاندان وادی تیراہ میں رہائش پذیرہے۔قبائلی اضلاع میں خراب امن وامان کی وجہ سے وہاں پر موجودہ سکھ ہندؤں اور مسیحی برادری کے لوگ بے گھر ہوگئے تاہم سب سے زیادہ مسائل کے شکار ہندؤں برادری کے لوگ تھے کیونکہ سکھوں کے مدد کے لئے گوردواروں کے دروازے کھول دئیے گئے تھے جبکہ صرف 230 مسیحی خاندان شمالی وزیر ستان کے تحصیل میرانشاہ سے بے گھر ہوگئے تھے جن کے باقاعدہ رجسٹریشن کیاگیاتھا۔کونڈلعل کا تعلق ضلع کرم سے ہے اور 2006سے علاقے میں شیعہ سنی فسادات شروع ہونے کی وجہ سے اپنا گھر مجبوراچھوڑکر پہلے کوہاٹ اور بعد میں پشاور منتقل ہوگئی۔
موجودہ وقت میں وہ ایک نجی ادارے میں معمولی تنخواہ پر کام کررہاہے۔ اُنہوں نے کہاکہ گھر کا کرایہ، بجلی اور گیس بل کے ساتھ بچوں کے فیسں بمشکل پوری ہوتی ہے تاہم علاقے میں گھراپنا تھا اور زرعی زمینوں سے گندم اورسبز ی کی بڑی مقدار میں حاصل کیاجاتا ہے جس سے گھر کے بہت ہی کم اخرجات ہوتے تھے۔ وہ اس نتظار میں ہے کہ حکومت کے طرف سے اُن کو واپس اپنے گھر جانے کہا جائے۔
قبائلی اضلاع سے بے گھر افراد کے رجسٹریشن اور دیگر سہولیات مہیاکرنے کی ذمہ داری فاٹا ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ساتھ تھی لیکن2018 میں ان علاقوں کا خیبرپختونخوا میں انضما م کے بعد مئی 2019میں یہ ادارہ پروفیشنل ڈائزاسٹرمنجمنٹ اتھارٹی کاحصہ بنا کر کے کیمپ ایمرجنسی ونگ بنایا گیا۔
ادارے کیمطابق قبائلی اضلاع سے بے گھر اقلیت برادری کے حوالے سے کوئی اعدادوشمار موجود نہیں موجود نہیں کیونکہ متاثر علاقوں میں رہائش پزیر اقلیتی برادری کا الگ رجسٹریشن نہیں کیا گیا بلکہ دیگر عام افراد کے ساتھ ان لوگوں کے نام بھی درج کردئیے گئے۔اہلکار کے مطابق شمالی وزیر ستان فوجی آپریشن ضرب عضب 15جون 2014کو شروع ہوا تو میرانشا ہ سول کالونی سے بے گھر 220مسیحی خاندانوں کے رجسٹریشن کیا گئے تھے جن کو اپریل 2017میں واپس وزیر ستان بھیج دیا گیا ہے۔
ادارے کے ریکارڈ کے مطابق تمام قبائلی اضلاع سے،باجوڑ، مہمند،خیبر، کرم، اورکزئی،شمالی اور جنوبی وزیر ستان چار لاکھ52ہزار بے گھر خاندان ررجسٹرڈ ہوچکے تھے جن میں 98فیصد سے زائد خاندان اپنے علاقوں کو واپس بھیجے جاچکے ہیں۔
پنجاب تحصیل حسن ابدال میں قائم سکھوں کے مقدس مقام گوردوارہ پنجہ صاحب میں وادی تیراہ کے جگندرسنگھ کے بڑے بھائی گوربچن سنگھ تالاب کے صفائی میں مصروف ہے۔2013میں ضلع سے بے گھر ہوکر اوکزئی منتقل ہوگئے تاہم 2017میں وہاں سے ہجر ت کرکے حسن ابدال میں رہائش پزیر ہوئے۔
گوربچن سنگھ خود بڑے دوکان کا مالک تھا لیکن بدامنی کی وجہ سے نہ صرف اُن کا کاروبارختم ہوا بلکہ بےروزگاری اور گھر کے خراجات پورا کرنے کے لئے اُن کو اپنا آبائی جائیداد بھی فروخت کرنا پڑا۔اُن کا کہنا ہے کہ پہلے اور موجودہ زندگی میں کافی فرق ہے کیونکہ اب مالی مسائل کے بناء پر مشکلات بڑھ چکے ہیں اور بچوں کے فیس بھی ایک دوست ادا کرتاہے جبکہ گھر کے اخربات پورا کرنے کے لئے دو بھائی سینکڑوں کلومیٹر دور وادی تیراہ میں کاوربارکرتاہے۔
گوربچن سنگھ اور کئی دوسرے خاندان نے پی ڈی ایم اے کے ساتھ اپنا رجسٹریشن کروایا تھا،کچھ مدت کے لئے اُنہیں راشن بھی ملتا رہا لیکن امدادی مرکز کے مقام کے بار بار تبدیلی اور تقسیم کے طریقہ کار میں مسائل کے بنا ء پر تمام سکھ خاندانوں نے راشن کے حصول تر کردیا اور اپنے کاروبار کے طرف متوجہ ہوئے۔ صاحب سنگھ کا کہنا ہے کہ بے گھر سکھ خاندانو ں کے رجسٹریشن کا کوئی خصوصی انتظام موجود نہیں تھا جس کے وجہ سے بمشکل پانچ فیصد بے گھر سکھ خاندان حکومت کے ساتھ رجسٹرڈ ہوئے۔
اس حوالے سے کئی بار گوردوارے میں متاثرہ خاندانوں کے معلومات آکٹھے کرکے متعلقہ حکام کے حوالے کیں لیکن اُس پر کوئی عمل نہیں ہوا۔صاحب سنگھ نے کہاکہ قبائلی اضلاع خیبر، کرم اور اورکزئی کے اقلیتی برادری کے اسی فیصد لوگوں نے اپنے زمینیں نہیں بھیجے اور واپسی کے انتظار میں ہے جبکہ باقی بیس فیصد ایسے ہیں کے اُنہوں نے مجبورا اپنے جائیداد بھیج دیایا مقامی آبادی جبرا قابض ہوچکے ہیں۔
ہندؤ برادی کے رہنماء اورسماجی کارکن حکم داس اپر کرم کے علاقے سلطان سے بے گھر ہورکر پہلے پشاور اور ا ب حسن ابدال میں زندگی گزررہے ہیں۔ اُنہوں نے کہاکہ علاقے میں 650ہندؤخاندان موجود تھے لیکن 2006سے جب علاقے میں شیعہ سنی فسادات شروع ہوئے تو مذکورتمام خاندانوں نے علاقہ چھوڑ کر کوہاٹ، پشاور اور حسن ابدال منتقل ہوگئے۔
اُن کے بقول کسی فریق نے اقلیتی برادری کو کوئی نقصان نہیں پہنچا یا البتہ لوگ خوف کی وجہ سے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ حکم داس کا گاؤں میں اپنا کاروبار تھا لیکن یہاں پر اُن کے پاس کچھ نہیں سیوائے انتظار کہ جب وہ اپنے آبائی علاقے واپس جاکر زندگی شروع کرسکے۔ اُنہوں نے جائیدادؤں اور عمل کوٹ کے علاقے میں ہندؤں برداری کے قبرستان جہاں پر وہ اپنے چھوٹے بچوں دفن کرتے لوگ قبضہ کرنے کی کوشش کررہاہے جوکہ تشویش ناک ہے۔ موجودہ وقت میں کرم شدید بدامنی کے لپٹ میں ہے۔
خیبر پختونخوا کمیشن برائے وقار نسواں کے ممبر اور ضلع کرم سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن مالاکماری کاکہنا ہے کہ موجودہ وقت میں پوری ضلع میں صر ف آٹھ ہندؤں خاندان رہائش پزیر ہے جبکہ مسیحی برادری کے لوگ سرکاری کالونی میں رہتے ہیں۔اُن کاکہنا تھا کہ ہندؤ ں برادری کے لوگ مسلمانوں کے گاؤں میں ایک ایک یا دو دو خاندان آباد تھے جو کاشتکاری یا اپنا کاروبار کرتے تھے۔
اُنہوں نے کہاکہ زیادہ تربے گھر اقلیتی برادری ملک کے شہری علاقوں میں شدید مسائل کے شکار ہے جس کے وجہ سے یہ لوگ چاہتے ہیں جلداز جلد واپس اپنے علاقے چلا جائے تاہم اُن کے لئے ماضی کی طرح رہنا ممکن نہیں جس کے لئے حکومت کو ایک کالونی بنانا چاہیے تا کہ ان کی زندگی آسان ہو۔
جگندر سنگھ کے لئے گھر سے دور زندگی گزرنا مشکل ہے لیکن اُردو یا پنجابی بولنے اور سمجھنے میں اور مالی مشکلات کی وجہ سے وہ حسن ابدال میں اپنا کاروبار شروع نہیں کرسکتاہے۔اُن کاکہنا ہے کہ تیراہ میں خاندان کا مشترکہ چارکنال زرعی زمین جو تقریبا انفرادی طور پر چار سو بندوں اور سولہ خاندانوں کی ملکیت ہے تاہم حکومت کے جانب صرف تین مسمار گھروں کے سروے تین سال پہلے ہوچکے ہے لیکن اب تک ہمیں چیک نہیں ملیں۔ متاثر تاجروں کے امداد کے سلسلے میں بھی سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائز ڈویپلپمنٹ اتھارٹی(سمیڈ) کے جانب سے بھی تین سال پہلے مالی معاونت کے لئے سروے کیاگیالیکن تاحال اُس میں بھی کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔
نوجوان اندر جیت سنگھ حسن ابدال میں کاسمیٹکس کا کاروبار کرتاہے۔ وہ خیبر سے بے گھر ہوکرتین سال پشاور میں رہنے کے بعد 2015 اپنے خاندان کے ساتھ حسن ابدال آئے۔ اُنہوں نے آٹھویں جماعت میں پڑھائی آدھوری چھوڑ دی کیونکہ والد کواُردو اور پنجابی بولنے اور سمجھنے میں مسئلہ تھا جس کے وجہ سے اُن کو کاروبار کرناممکن نہیں تھا۔اُن کاکہنا ہے کہ یہاں پر بچو ں کو بہتر تعلیم مل رہاہےاور خواتین کو گھروں میں سہولیات ہے لیکن اس باجود بھی ہم اپنے آبائی علاقے کو نہیں بھول سکتے کیونکہ کوئی پشتون اپنا آبائی علاقہ نہیں چھوڑ سکتااور جب بھی حالات بہتر ہوجائے تو لازم اپنے علاقے کو واپس جائینگے۔
قبائلی اضلاع سے بے گھر اقلیتی برادری کے اپنے علاقوں کے واپسی کے لئے اب تک حکومت نے باقاعدہ طور پر کوئی لائحہ عمل تیار نہیں کیا البتہ سابق اقلیتی ممبر صوبائی اسمبلی اور وزیر اعلی خیبر پختونخوا کے معاون خصوصی برائے اقلیتی امور وزیر زادہ کاکہنا ہے کہ حکومت نے رواں مالی سال کے سالانہ ترقیاتی بجٹ میں قبائلی علاقوں کے اقلیتی برادری کے فلاح وبہود کے لئے 45کروڑ روپے مختص کردئیے ہے جن میں نوجوانوں کو روزگار کے لئے قرضے، عبادگاہوں تزئین وآرئش، تعلیمی سکالرشپ،بے گھر افراد کے دوبارہ آبادی کاری کے لئے سہولیات مہیاکرناشامل ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ اُن کا متاثرہ علاقوں کے دورے کرنے کے بعد وہاں کے مسلم آبادی کے طرف یہ مطالبہ سامنے آیا کہ بے گھر اقلیتی برادری کے لوگوں کو واپس اپنے علاقوں میں لایا جائے یا اُن کے لئے رہائشی کالونی تعمیر کیا جائے۔
اُن کاکہنا ہے کہ یہ ان علاقوں میں مذہبی ہم آہنگی کا ایک بہترین مثال ہے اور جلد اس حوالے سے وزیر اعلی خیبر پختونخوا کے ساتھ مشاورت کی جائیگی تاکہ پہلے فرصت میں اُن غریب خاندانوں کے واپسی کا انتظام کیاجائے جو غربت کی وجہ شہری علاقوں میں رہائش پذیر ہیں ۔