شدید گرمی میں خیبر پختونخوا کے سیاحتی ضلع شانگلہ سے چھ گھنٹے کا سفر طے کرکے چھبیس سالہ حاجی محمد اور پچیس سالہ نورخان ضلع کوہاٹ کے لیبر کورٹ میں اپنے ایک مقدمے میں سینتیسواں بار حاضرہوئے۔ دونوں پیشے کے لحاظ سے کان کن ہے اورچار سال پہلے ضلع اورکزئی کے علاقے ڈولہ میں کوئلے کے ایک کان میں کام کے دوران دھماکے میں دیگر تین ساتھیوں کے ساتھ جھلس گئے تھے جبکہ اس ہی واقعے میں تین فوت ہوگئے تھے۔ چار سال گزر جانے کے باجود بھی اب تک قانون کے مطابق کمپنی کے طرف سے متاثرہ مزدوروں کو معاوضہ یا مالی معاونت فراہم نہیں کیا گیا۔
نورخان نے بتایاکہ واقعے کے ایک سال بعد بھی جب کمپنی نے مالی معاونت یا معاوضہ ادا نہیں کیا تو دیگر چار ساتھیوں کے ساتھ ملکر اُنہوں نے کوہاٹ کے لیبر کورٹ میں اپنے حق کے لئے کیس دائر کردیا لیکن ہمیں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ رہنمائی کے لئے پاکستان مائن ورکرز فیڈریشن کے ساتھ رابطہ کیا تو اُنہوں نے کافی حوصلہ دیا ہر پیشی میں نتظیم کے عہدیدار موجود ہوتے ہیں۔ اُنہوں نے کہاکہ آج تین سال بعد پہلی بار میرا بحیثیت گواہ بیان ریکاڈ کیا گیا۔ اُن کے بقول عدالت میں کاروائی کا عمل انتہائی سست جبکہ دوسرے جانب مالی مسائل اور کیس میں حاضری کے لئے دور سے سفر کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔
مزکورہ واقعہ 22اگست 2020کو اورکزئی کے علاقے ڈولہ میں الحسینی کوئل مائن کمپنی کے ایک کان میں صبح کام شروع ہوتے ہی گیس بھر جانے کی وجہ سے دھماکہ ہوا جن میں پانچ مزدور جھلس گئے جبکہ تین نے جان سے ہاتھ دو بیٹھے۔ پاکستان میں کام کرنے والے کان کن دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ حادثے میں زخمی یا فوت ہونے والے مزدروں کو قانون کے مطابق مالی معاونت کے حصول میں بھی کافی زیادہ مسائل درپیش ہوتے ہیں۔ پاکستان مائن ورکرز فیڈریشن کے صدر نوراللہ خان یوسفزئی ہر پیشی میں ان مزدورں کے ساتھ عدالت میں پیش ہوتاہے، اُن کا کہنا ہے کہ کام کے دورران حادثات کے شکار کان کنوں کو مالی معاونت کے حصول کا مسئلہ پوری ملک میں ایک جیسا ہے اور متعلقہ عدالتیں بروقت فیصلے نہیں کرتے جس کی وجہ سے محنت کش مسائل اور عدم تحفظ کے شکارہیں۔ اُن کے بقول قانون کے مطابق فوت ہونے والے مزدور کے لواحقین کو سندھ میں نولاکھ، پنچاب میں چھ لاکھ، بلوچستان میں پانچ لاکھ اور سب سے کم خیبر پختوا میں تین لاکھ روپے معاوضہ مقرر کیا گیا۔اُنہوں نے کہاکہ زخمیوں کو مزکورہ رقم اُس کے میڈیکل رپورٹ کے حساب سے دیا جاتا ہے تاہم یہ معاوضہ بہت کم ہے۔
واقعہ کے دن حاجی محمد اور اُن کا بڑا بھائی خضور محمد دیگر نو ساتھیوں کے ساتھ معمول کے مطابق چار سو فٹ کے گہرے کان سے کوئلہ نکالنے کے لئے پہنچ گئے۔ جیسے کام کا آغاز کیا تو کان کے اندر زوردار دھماکہ ہوا جس میں خضور محمد دو ساتھیوں سے سمیت فوت ہوا۔ حاجی محمد نے کہاکہ باہر سے کوئی مدد کے لئے نہیں آسکتا تھا لیکن ہم پانچ ساتھی جو جھلس گئے تھے بڑی مشکل سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے تاہم یہ سب کچھ بہت ہی مشکل تھا اور موت کو قریب سے دیکھا۔ اُن کے بقول ابتدائی علاج کے لئے ان کو کوہاٹ کے سرکاری ہسپتال منتقل کیا لیکن بعد میں مزید علاج کے لئے پشاور میں قائم برن اینڈ پلاسٹک سرجری سنٹر منتقل کردیا۔ اُنہوں نے کہا کہ تمام جھلس مزدوروں کا علاج دس دن تک جاری رہا اور اُس کے بعد سب کو گھر بھیج دیا گیا تاہم پوری ایک سال تک مزکورہ سنٹرکو علاج کے لئے آتے رہے۔ علاج کی ذمہ داری کمپنی نے لی تھی۔
نور خان نے کہاکہ واقعہ سے پہلے مزکورہ مائن میں میتھین گیس کا مقدار بڑھنے اور باہر سے آکسیجن کے ترسیل متاثر ہونے کی شکایت مائن کے مالک اور کمپنی کے متعلقہ افراد کو کئی گئی تاہم کسی نے بھی اس کے حل کی طرف توجہ نہیں دی۔اُنہوں نے کہاکہ تمام خادثات اس وجہ سے رونما ہوتے ہیں کہ کان کے مالک یا کمپنی اصولوں پر عمل درآمد نہیں کرتا تاہم اُنہوں نے کہاکہ اس میں خود مزدور بھی برابر کے شریک ہے اور پیسوں کے لالچ میں ٹھیکیدار مزدورں کے زندگی خطرے میں ڈال کر اُن سے غیر قانونی مشقت حاصل کرلیتاہے۔
پاکستان مائن ورکرز فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری سرزمین افغانی نے کہاکہ صرف ضم ضلاع میں ایک لاکھ سے زائد سے کان کن محنت مشقت میں مصروف ہے تاہم اُن کے بقول کام کے دوران ان کے حفاظت کے لئے کمپنی، مالک، ٹھیکیدار اور مائن انسپکٹر کوئی حاص توجہ نہیں دیتا جس کی وجہ سے خادثات رونما ہوتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ لیبر قوانین کے مطابق کان کنوں اور دیگر شعبوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کے اجرت میں فرق ہوتاہے۔ اُن کے بقول کان کنوں کے اُجرت سہ فریقی کمیٹی طے کریگی جبکہ دیگر شعبہ جات کے محنت کشوں کے لئے حکومت کے طرف سے مقرر کردہ رقم ہی یومیہ یا ماہانہ ادا کیاجائیگا۔ اُن کے بقول کام کے دوران زخمی ہونے والے کان کنوں کے علاج کی ذمہ داری کان کے مالک پر ہوگی اور جب تک وہ دوبارہ کام کے اہل نہیں ہوتا تو اُن کو پورا یا آدھا تنخواہ ادا کرئیگی جبکہ مالی معاونت میڈیکل رپورٹ کے حساب سے مالک یا کمپنی متاثر فرد کو ادا کرئیگی۔ اُن کے بقول فوت مزدور کے لوحقین کے لئے تین لاکھ روپے مقرر ہے جوکہ باقی صوبے کے نسبت سب سے کم ہے۔
مئی 2018 میں پچیسویں آئینی ترامیم کے ساتھ قبائلی علاقے خیبر پختونخوا میں ضم ہونے کے ساتھ دیگر سرکاری اداروں کے ساتھ محکمہ معدنیات کا دائرہ اختیار بھی ان علاقوں تک توسیع کردی گئی۔ اس سے پہلے فاٹاڈوپلمنٹ اتھارٹی کے زیر نگرانی سابق قبائلی علاقوں میں معدنیات کے شعبہ کام کر رہا تھا۔ محکمہ معدنیات کے مطابق سال 2022تک پوری صوبے اور ضم اضلاع کے لئے پندرہ مائن انسپکٹر تعینات تھے جبکہ حال ہی میں مزید سات افراد کو تعینات کرکے یہ تعداد بائیس تک پہنچ چکا ہے۔ ادارکے مطاق یہ تعداد بہت کم ہے جس کے وجہ سے نگرانی کا عمل موثر طریقے سے سرانجام نہیں دیا جاسکتاہے۔
حاجی محمد کاکہنا ہے کہ حادثے کے بعد دھوپ اور کان کے اندر کام نہیں کرسکتاہے کیونکہ وہ طاقت اور حوصلہ اب نہیں رہا۔ اُن کے بقول جب آپ کان کنی کے شعبے میں مشکل کام نہیں کرسکتے توآپ کے آمدن بھی کم ہوگا۔ اُنہوں نے کہاکہ جب صحت مند تھا تو کان کے اندر کام کرتا تھا جن سے وہ بآسانی کے ساتھ ستر ہزار روپے کمالیتے تھے اب زیادہ سے زیادہ باور چی یا چوکیدار کے حیثیت سے کام کرکے بیس سے پچیس ہزار روپے تنخواہ بنتا ہے جن سے گھر کے اخراجات پورا کرنا انتہائی مشکل ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے سربراہی میں تین رکنی بنج نے ایک کیس میں 3اپریل 2018پر فیصلہ سنایا جس میں تمام محنت کشوں کے جسمانی اور مالی تحفظ کے حوالے چاروں صوبوں کو ہدایت جاری کردی۔ فیصلے میں چاروں صوبوں کوتمام محنت کشوں کے رجسٹریشن کا عمل جلد مکمل کرکے ان کوای او بی آئی کے ساتھ رجسٹرڈ کیاجائے۔ خادثات کے شکار محنت کشوں کے مالی معاونت کے لئے یکساں حد مقرر کیاجائے جن کے لئے تمام صوبوں کے مشاورت ضروری ہے۔ کام کے لئے ساز گار ماحول مہیا کرنا اور اُن کے جان کے تحفظ کو یقینی بنانا شامل ہیں تاہم محنت کے حقوق کے لئے کام کرنے والے تنظیموں کا کہنا ہے کہ اب ایک بھی صوبے میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل دارآمد نہیں ہوا۔
نور خان اور حاجی محمد نے دیگر پانچ ساتھیوں سمیت معاوضے کے ادائیگی کے لئے عدالت میں جمع کیں گئی درخواست میں موقف اپنایا کہ اُن کے میڈیکل رپورٹ کے مطابق جھلس جانے اور دوران علاج اور بے روزگاری کا معاوضہ دیا جائے۔درخواست میں نور خان کا جسم کا 26 فیصد حصہ جھلس گیا ہے جس کے مطابق اس کے ایک لاکھ تیس ہزار جبکہ علاج کے دوران نو ماہ بے روزگاری کی وجہ سے دو لاکھ پچیس ہزار روپے بنتی ہے۔ حاجی محمد کا بھی اتناہی معاوضہ بنتاہے۔درخواست میں جوہر احمد کے نام سے ایک شخص کو میڈیکل رپورٹ کے مطابق معذور قرار دیا گیا ہے۔
کوہاٹ ڈویژن کے سینئر انسپکٹر مائن کے مطابق جون 2023سے جون 2024تک 125کانوں کے معائینے کیں گئے جبکہ 68مالکان کے خلاف کاروائی ہوئی جن سے 18لاکھ 35ہزار وپے جرمانہ وصول کیاگیا۔مزید معلومات میں بتایاگیا کہ ایک سال کے مدت میں 32واقعات ہوئے جن میں 32مزدور مارے گئے جن کے معاوضوں کے ادئیگی کے لئے لیبر کورٹ دستایزات بھیجے جا چکے ہیں۔
ضلع خیبر کے سینئر انسپکٹر مائن سے حاصل کیں گئے معلومات کے مطابق خیبر میں 26کان موجود ہے جن سے کوئلہ نکلا جاتاہے۔ پچھلے ایک سال میں 12کانوں کے معائینے ہوئے، ایک حادثہ رونما ہوا ہے جن میں تین مزدور ہلاک جن کے مالی معاونت کے لئے متعلقہ عدالت کو دستاویزات بھیج دیئے گئے۔
ضلع اورکزئی میں 189کوئلے کے کان جن میں 130سے کوئلہ نکلا جاتاہے۔ رواں سال جنوری سے جون تک 90کانوں کا معائنہ کیا گیا جن 12کے خلاف قانونی کاروائی کی گی تاہم اس دوران کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا۔
جس کمپنی کے کان میں نور اور حاجی محمد خادثے کے شکار ہوئے تھے اُس کے ساتھ رابطے کی کوشش کی گئی تاہم اُن کے طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ مقامی مزدر یونین سے معلومات کے مطابق مزکورہ کمپنی کے کان میں کام کے لحاظ سے مزدروں کے لئے خطرناک ہے اور میتھین گیس کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے اکثر کان کے اندر دھماکے ہوجاتے ہیں۔ معلومات کے مطابق ان کانوں میں اکتوبر 2012سے لیکر دسمبر 2020تک پچاس کے قریب مزدور ہلاک جبکہ چالیس سے زیادہ جھلس یا زخمی ہوچکے ہیں۔
ہم نے محکمہ معدنیات کے جانب سے ضلع اورکزئی میں تعینات مائن انسپکٹر کے موقف جانے اور اعداد و شمار کے حصول کے لئے باربار رابطے کی کوشش کی تاہم اُن کے طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوسکا۔
موجودہ وقت میں نورخان درہ آدم خیل میں ایک کمپنی کے ساتھ بیس ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر چوکیدار کے حیثیت سے کام کر رہاہے۔اُن کے بقول موجودہ وقت میں گھر کے اخراجات ماہانہ پچاس ہزار سے بھی زیادہ ہے جبکہ حادثے سے پہلے ماہانہ ساٹھ سے ستر ہزار روپے کما لیتاتھا۔
سید محمد درہ اوکرزئی میں کان سے کوئلہ نکلنے کے لئے ٹھیکیدار کے طورپر کام کررہاہے۔ اُنہوں نے کہاکہ مزدور کو نو سو روپے ٹن کے حساب معاوضہ ملتاہے جبکہ کوئلہ 45 سے 50ہزار وپے ٹن مارکیٹ میں بھیجاجاتاہے۔ اُنہوں نے اس بات سے اتفاق کیاکہ صبح کام شروع ہونے سے باقاعدہ طور پر مائن منیجر کان کے اندر زہریلی گیسوں کے مقدار اور ہوا کے ترسیل کے بارے میں معلومات مزدروں کو فراہم نہیں کرتا۔ اُنہوں نے کہا کہ کان کے اندر خطرات کے بارے میں مزدروں کو نہیں بتایا جاتا کیونکہ مالک یا کمپنی کو کام بند کرنے کے اندیشہ کی وجہ سے نقصان کا خطرہ ہوتاہے۔ اُن کا کہنا تجا کہ اس غیر قانونی اقدام میں ٹھیکیدار بھی ملوث ہے۔
سرزمین آفغان کے مطابق محکمہ معدنیات خیبرپختونخوا سے سال 2010سے 2020تک جواعداد شمار حاصل کیاگیا اُس کے مطابق 620مزدور کام کے دوران ہلا ک ہوچکے ہیں تاہم پچھلے تین یا چار سال کے اعداد شمار باربار درخوست کے باوجود بھی نہیں مل سکے۔ اُنہوں نے کہاکہ سب زیادہ واقعات قبائلی اضلاع میں رونماہوتے ہیں جس کی بنیاد وجہ کان کنی کے شعبے میں غیر قانونی اقدامات ہیں۔