تحریر سیف الرحمان

اس 21ویں صدی میں بہت سے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی لوگ امن اتحاد اور خوشحالی کی خواہش رکھتے ہیں تاہم ہماری درپیش سب سے بڑی چیلنجوں میں سے ایک ہمارے اپنی ذہنیت کو بدلنا ہے اگر ہم معاشرے میں مثبت اثرات دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنا نقطہ نظر کو ترقی رواداری اور افہام و تفہیم کی طرف موڑ کر شروع کرنا چاہیے ایک اچھی ذہنیت نہ صرف ایک افراد کی زندگی کو تقویت بخشتی ہے بلکہ سماجی مسائل کو حل کرنے اور کمیونٹی کے احساس کو فروغ دینے کے مواقع بھی پیدا کرتی ہے.

انسان کی سوچ اس کی شخصیت اعمال اور رویے کی بنیاد ہوتی ہے اگر سوچ منفی ہوگی تو ہم ہمیشہ مسائل اور ناکامیابیوں میں الجھے رہیں گے جبکہ مثبت سوچ سے رستے اسان اور مسائل کا حل ممکن نظر اتا ہے معاشرے میں تبدیلی کے لیے ہمیں اپنی سوچ کو تعمیر اور مثبت بنانا ہوگا.

معاشرے کو ترقی کی راہ پر لانے اور خوشحال کرنے کے لیے عورت اور مرد کی دونوں کی اچھی تعلیم اور تربیت بہت ضروری ہے جس معاشرے میں عورت کے حقوق تعلیم اور تربیت اچھی نہ کی جائے وہ معاشرہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا کیونکہ ایک عورت ہی اپنے معاشرے کی نسل کو چلاتی ہے تو ایک معاشرے کو ترقی پر لانے کے لیے عورت کو بھی تعلیم اور تربیت دینا بہت ضروری ہے

انسانی سوچ پر شیکسپیئر نے ایک کہانی لکھی ہے جس کا لب و لباب یہ ہے کہ

” ایک شخص جب جوان تھا تو اس نے سوچا میں اپنے ملک کو بدلوں گا جب ملک کو بدل نہ پایا تو اس نے کہا میں اپنے صوبے کو بدل دوں گا جب صوبے کو بھی بدل نہ پایا تو اس نے کہا میں اپنے میں اپنا شہر بدلوں گا اور جب شہر کو بھی بدل نہ پایا تو اس نے کہا میں اپنا قصبہ بدلوں گا اور جب قصبے کو بھی بدل نہ پایا تو اس نے اخر میں کہا میں اپنا خاندان بدلوں گا جب عمر کے ایک خاص حصے میں پہنچا تو اس کو سمجھ ایا کہ میں خاندان بھی نہیں بدل سکتا پھر اسے اپنی سوچ ہی غلط نظر ائی شخص نے سوچا کہ اگر میں خود کو بدلتا تو خود سے خاندان سے کذبہ اور کسبے سے شہر شہر سے صوبہ اور صوبے سے ملک بدل سکتا تھا”

اس کہانی سے ہم یہ اخذ کر سکتے ہیں کہ گویا اگر ہم اپنی سوچ بدلے تو اس تو اس سے ہم معاشرہ ضرور بدل سکتے ہیں۔

 

ٹائم لائن اردو ٹیم
ٹائم لائن اردو کے رپورٹرز، صحافی، اور مصنفین پر مشتمل ٹیم

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں