
ضلعی پولیس کے مطابق لوئر کرم کے مندوری، بگن، اوچت، ڈاڈکمر اور چارخیل کے علاقوں میں سینیٹائزیشن آپریشن جاری ہے۔ ان علاقوں کو مکمل طور پر مقامی آبادی سے خالی کرا لیا گیا ہے، اور مختلف مقامات پر آرمی، پولیس اور ایف سی کی کارروائیاں جاری ہیں۔
ضلعی پولیس کا کہنا ہے کہ اس آپریشن میں پاک آرمی کے ساتھ ضلعی پولیس بھی حصہ لے رہی ہے۔ آپریشن میں ٹینک، گن شپ ہیلی کاپٹرز ہیوی آرٹلری کا بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ سیکیورٹی صورتحال کے پیش نظر ان علاقوں میں کرفیو نافذ ہے تمام داخلی و خارجی راستے مکمل طور پر بند کر دیے گئے ہیں، اور عام شہریوں کو علاقے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ پولیس کے مطابق تین افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔
پاکستان آرمی نے گیمن چیک پوسٹ پر رجسٹریشن پوائنٹ قائم کیا ہے، جبکہ ضلعی انتظامیہ نے چھپری چیک پوسٹ پر رجسٹریشن کے لیے سہولت ڈیسک کا انتظام کیا ہے۔ چھپری چیک پوسٹ رجسٹریشن ڈیسک کے مطابق اس آپریشن کے اعلان کے بعد نو سو خاندانوں کی علاقہ چھوڑنے کی رجسٹریشن مکمل ہوچکی ہیں جبکہ بگن پر لشکر کے بعد علاقے میں حالات خراب ہونے کی وجہ سے پہلے بھی آٹھ سو کی قریب گھرانوں نے علاقہ چھوڑ دیا تھا۔
ضلع ہنگو کی ضلعی انتظامیہ کے مطابق متاثرین کیلئے ضلع ہنگو میں سولہ سو گھرانوں کیلئے ٹی ڈیپیز (عارضی طور پر بے گھر افراد) کیمپ قائم کیا گیا ہے۔ اب تک سینکڑوں خاندان ہنگو، کوہاٹ، پشاور اور دیگر اضلاع میں منتقل ہو چکے ہیں۔ تاہم، یہ واضح رہے کہ ابھی تک کوئی بھی خاندان ضلع ہنگو میں ٹی ڈی پیز (عارضی طور پر بے گھر افراد) کے لیے قائم کیمپ میں نہیں گیا ہے۔
مقامی مشران کا کہنا ہے کہ اب تک سینکڑوں خاندان ہنگو، کوہاٹ، پشاور اور دیگر اضلاع کی طرف نقل مکانی کر چکے ہیں۔ زیادہ تر لوگ اپنے گھروں سے خالی ہاتھ نکلے ہیں اور مال مویشی وہیں چھوڑ آئے ہیں۔ اگرچہ حکومت نے ہنگو میں کیمپ قائم کیئے ہیں مگر کوئی بھی خاندان ان کیمپوں میں منتقل نہیں ہوا۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ حکومت نے صرف خارجی راستوں پر رجسٹریشن کی، مگر خوراک، پانی یا رہائش کی کوئی عملی مدد فراہم نہیں کی گئی۔
دوسری جانب، پشاور پریس کلب کے سامنے آپریشن کے خلاف احتجاجی دھرنا جاری ہے۔ دھرنے کے منتظمین کا کہنا ہے کہ حکومت کا ایک مہینے کے اندر یہ تیسرا بار آپریشن ہے۔ پہلے اسلحہ جمع کیا گیا، پھر سرچ آپریشن کیے گئے اور اب پورے علاقے کو خالی کرا کے بمباری کی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے ایک ہفتے میں علاقہ کلیئر کرنے کا وعدہ کیا ہے، بصورت دیگر دھرنے کو پورے ملک تک وسعت دی جائے گی۔
مقامی مشران کا کہنا ہے کہ علاقہ مکمل طور پر خالی کیا تھا اور مال مویشی کو گھروں سے باہر چھوڑ دئے تھے۔ اب کسی کو بھی وہاں رہنے نہیں دیا جاتا ہے۔ ان کے مطابق اگر آپریشن جلد ختم نہ گیا تو مال مویشی کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔