
ڈپٹی کمشنر قبائلی ضلع باجوڑ شاہد علی خان نے ماحول دوست اقدامات کے تحت ضلع بھر مں نان بائوسڈیگریڈیبل (ناقابل تحللب) پلاسٹک شاپنگ بگزی کے استعمال، فروخت اور تقسمد پر دفعہ 144 (CrPC) کے تحت مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر باجوڑ کے آفیشل فیسبوک پیج پر 24 جون کو باقاعدہ ایک نوٹیفیکیشن (آرڈر) جاری کیا گیا تھا۔ ڈپٹی کمشنر نے باجوڑ کی عوام سے اپیل کی کہ نان بائولڈیگریڈیبل (ناقابل تحللہ) پلاسٹک بگزح کے خاتمے میں حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کریں۔
اس آرڈر میں کہا گیا ہے کہ فصلہ انسانی صحت اور ماحولاڈتی تحفظ کے لےھ ناگزیر قرار دیا گائ ہے، پلاسٹک بگز مں موجود زہریلے کزلس خوراک اور پانی کو آلودہ کرتے ہںف جو مختلف بمایریوں کا باعث بنتے ہںظ۔خلاف ورزی کی صورت مں دفعہ 188 تعزیرات پاکستان کے تحت قانونی کارروائی عمل مںد لائی جائے گی۔ عوام الناس سے گزارش ہے کہ اس ماحول دوست اقدام میں ضلعی انتظامہا سے بھرپور تعاون کریں ۔صاف ستھرا، سرسبز اور محفوظ باجوڑ ہم سب کا مشترکہ خواب ہے۔
پلاسٹک شاپنگ بیگز کے استعمال کے جانداروں کے صحت پر منفی اثرات:
ماہرین ماحولیات کے مطابق پلاسٹک اشیاء براہ راست کوئی اس طرح کا نقصان دہ نہیں ہے جس طرح دوسری چیزوں کا ہے کہ اگر وہ انسان کھائے یا پئے تو اس کو نقصان ہوتاہے جیسا کہ اگر کوئی زہریلی دوائی کھا لیں وغیرہ لیکن پلاسٹک کے نقصانات خفیہ ہے جو عام طور پر کسی کو نظر نہیں آتا لیکن اس کو آہستہ آہستہ صحت کے مختلف مشکلات سے دوچار کرتاہے۔ پہلا نقصان اس میں ماہرین کیمطابق یہ ہے کہ پلاسٹک کے برتن میں 30سینٹی گریڈحرارت والی خوارکی اشیاء کے استعمال سے انسان کینسر جیسی موذی مرض کا شکار ہو جاتا ہے۔ یعنی اس میں جب حرارت تیس30 ڈگری سے زیادہ ہو جائے تو اس میں ایک کیمیکل جس کو الڈی ہیڈکہتے ہیں جو چائے اور دودھ میں پایاجاتا ہے اس میں آتا ہے جو کینسر کا سبب بنتاہے۔
اکثر ہم ایسے مرد و خواتین دیکھتے ہیں کہ جو شاپنگ بیگز میں گرم دودھ، ترکاری اور سوپ وغیرہ لاتے ہیں جو نقصان دہ ہے۔ اس کے بعد جب ہم شاپنگ بیگز سے اپنی ضرورت پوری کر تے ہیں تو پھر اس کو صحیح طریقے سے ٹھکانے نہیں لگا تے اور اکثر اس کو گلی کوچوں میں پھینک دیتے ہے جو ہوا کے زریعے کھیتوں میں پہنچ جاتے ہیں اور وہاں پر اس کے وجہ سے پھر تخم کے اگنے میں مسئلہ پیدا کرتا ہے کیونکہ پلاسٹک زمین میں تحلیل نہیں ہوتا اور وہ کئی عشروں تک اپنی حالت میں پڑا رہتا ہے ماہرین کے مطابق یہ ایک ارگینک کمپاونڈہے جس کو پی وی سی یعنی پالی وینائل کمپاونڈ کہتے ہیں۔
ماحول آلودہ کرنے میں پلاسٹک شاپنگ بیگز کا کردار:
اس کی بائینڈنگ اس طرح ہے کہ اس پر بیکٹیریا یا وائرس اثر نہیں کرتا اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ کوئی کھانے کی چیز نہیں ہے کہ اس کو بیکٹیریا کھاسکیں۔ تواس لئے یہ زمین میں تحلیل نہیں ہوتا تواس سے پھر تخم اپنی مقرر وقت میں نہیں اگتا تو اس سے ہماری زرعی پیداوار پر اثر پڑتا ہے کیونکہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن پھر بھی ہم اس شعبہ میں وہ مطلوبہ مقدار ابھی تک حاصل نہیں کرسکیں جو ہونا چاہئے تھا۔ تو اس سے اس میں مزید کمی واقع ہو سکتی ہے۔ اسی طرح اگر یہ ندیوں میں چلاجاتاہے تو وہاں پھر یہ آبی حیات کے لئے دوشوریاں پیدا کرتی ہے اور اس کے زندگیاں بھی خطرے میں پڑ تی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اگر پلاسٹک ٓلودگی کا یہی حال رہا اور اس کے روک تھام کے لئے فوری اقدامات نہیں کئے گئے تو عنقریب سمندروں میں مچھلوں سے پلاسٹک زیادہ ہوگی کیونکہ نہ صرف پاکستان کا بلکہ پورے ترقی پذیر ممالک اپنا پلاسٹک سمندروں میں پھینکتا ہے۔ اس کے علاوہ پلاسٹک سے نکاس اب کے نالیاں اکثر بند ہو جاتی ہے جس کے وجہ سے پانی کی نکاس اسی طرح نہیں ہو جاتی جس طرح ہونی چائے تو پھر اس سے ماحول گندہ ہونے کے ساتھ ساتھ معا شی مسائل بھی پیدا ہو جاتی ہے جو پاکستان جیسے تر قی پذیر ملک کے لئے اچھی بات نہیں ہے کیونکہ پھر اس کو کنٹرول کرنا پاکستان کے لئے آسان نہیں ہوگا۔
پلاسٹک شاپنگ بیگز کے خاتمے کے لئے پہلے اٹھائے گئے اقدامات کتنے موثر تھے؟
یاد رہے کہ تین سال پہلے بھی ضلع باجوڑ میں خیبر پختون خواہ حکومت کے طرف سے پلاسٹک شاپنگ بیگز کے استعمال پر پابندی عائد کرنے کے حکم نامے کے بعد اس پر عملی اقدامات شروع کر دئے گئے تھے اور صوبے کے دوسرے اضلاع کی طرح قبائلی ضلع باجوڑ میں بھی اس پر عمل درآمد شروع ہواتھا۔ اور ضلعی انتظامیہ کے طرف سے دوکانداروں کو سات دن کا وقت دیا گیا تھا کہ اس میں تمام پلاسٹک شاپنگ بیگزکوتلف (ختم)کریں لیکن مقررہ وقت ختم ہونے پر پھر بھی اس کا استعمال جاری تھا۔
جس پر پھر ضلعی انتظامیہ کے طرف سے باجوڑ کے مختلف بازاروں جن میں خار، صدیق آباد پھاٹک، عنایت قلعہ۔ نواگئی۔ارنگ،رغگان اور پشت کے بازار شامل ہیں میں چھاپے مارے گئے تھے اور بڑی مقدار میں پلاسٹک شاپنگ بیگز قبضے میں لئے گئے تھے اور دوکانداروں کو وارننگ دی تھی کہ اگر آئندہ کسی نے پلاسٹک شاپنگ بیگز کا استعمال جاری رکھا جس پر حکومت نے پابندی لگائی ہے تو اس کو جرمانہ کیا جائے گا۔اس کے بعد باجوڑ میں اب دوکانداروں نے اس پلاسٹک شاپنگ بیگز کا استعمال ترک کرنا شروع کیا تھا جس سے ماحول کے آلودگی میں اضافہ ہورہا تھا اور بیماریوں کا بھی سبب بن رہاتھا۔
اس وقت چند دوکانداروں نے اس حکم پر عملدارآمد شروع کیا جن میں دوکاندار محمدسعید خان بھی تھا جو کئی سالوں سے خار باجوڑ بازار میں پلاسٹک شاپنگ بیگز کے ہول سیل کاروبار سے وابستہ ہے ۔کہتے کہ حکومت کے پلاسٹک شاپنگ بیگز پر پابندی کے اعلان کے بعد انہوں نے اس کو ترک کیا ہے اور اب انہوں نے ماحول دوست پلاسٹک شاپنگ بیگز کی فروخت شروع کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ پہلے سے کپڑے اور دوسرے ماحول دوست شاپنگ بیگز کو ترجیح دے رہے تھے اور گاہکوں کو بھی اس کے استعمال کے ترعیب دے رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ عام لوگوں میں اس بارے شعور بیدار کرنے کے لئے انہوں نے مختلف جگہوں پر پوسٹر بھی چسپاں کئے ہیں۔ اور اب اس کے پاس تمام ماحول دوست شاپنگ بیگز دستیاب ہے۔
ان سخت انتباء اور اقدامات کے باوجود بھی باجوڑ میں پلاسٹک شاپنگ بیگز کی خریدو فروخت جارہی تھی۔ اب حکومت نے ایک بار پھر اس کے روک تھام کے لئے اقدامات شروع کئے ہیں۔
پلاسٹک کے اقسام اور دنیا میں استعمال کا اعداد و شمار:
ماہرین کے مطابق پلاسٹک کے عام طور پر دو اقسام ہے جس میں ایک نرم پلاسٹک ہے جو زیادہ ترشاپنگ بیگز کے بنانے میں استعمال ہوتا ہے اور دوسرا سخت پلاسٹک ہے جو پائپ،برتن اور بجلی کے تاروں وغیرہ کے چیزوں کے بنانے میں اس کا زیادہ استعمال ہوتاہے۔ پاکستان میں پچلے برسوں ایک سروے ہوا تھا جس میں یہ کہا گیاتھا کہ پاکستان میں سالانہ فی کس تین کلو پلاسٹک استعمال ہوتا ہے اسی طرح چین میں سات کلو، ہند وستان میں تین اشاریہ تین کلو ہے اور پوری دنیا میں سترہ کلو ہے۔ ان سب ملکوں کے مقابلے میں پاکستان میں اس کا استعمال کم ہے لیکن پھر بھی ان ملکوں کے لئے وہ اتنا خطرہ نہیں ہے جتنا پاکستان کے لئے ہے اور اس کا بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں پر اس کے استعمال کے بعد اس کے ضائع کرنے کا کوئی مناسب ا نتظام نہ ہونے کے وجہ سے یہ خطرے کا باعث بن رہی ہے۔
پشاور یونیورسٹی کے ایک تحقیق کے مطابق1985 ء تک پلاسٹک کا 75 %فیصد استعمال یورپ میں ہورہاتھا اور پاکستان میں 25% پچیس فیصدہ ہوتا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس میں اضافہ ہوتا جارہا تھا اور اب اس کا استعمال پاکستان میں دگنا ہوا ہے۔
حالیہ سروے کے مطابق پوری دنیا میں 400 ملین ٹن پلاسٹک کچرا ہر سال پیدا ہوتا ہے جبکہ پاکستان میں سالانہ 3.3 ملین ٹن پلاسٹک کچرا پیدا ہوتا ہے جو دو کے ٹو پہاڑ سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس سروے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ایک پلاسٹک بوتل کی عمر 450 سال ہوتا ہے یعنی ایک پلاسٹک کی بوتل ڈی کمپوز ہونے میں 450 سال لگتے ہیں۔
کیا نان بائویڈیگریڈیبل (ناقابل تحلیل) پلاسٹک بیگز کا خاتمہ ممکن ہے:
اب یہ بات کہ پلاسٹک کے اشیاء اور خاص کر شاپنگ بیگز کے استعمال سے کس طرح چھٹکارہ حاصل کیا جائے تاکہ ماحول کو صاف ستھرا رکھا جائے تو پہلی بات تو یہ ہے کہ پلاسٹک بنانے والے کارخانوں کو لائسنس جاری نہ کیا جائے اور جو ہے اس کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ ماحول دوست پلاسٹک شاپنگ بیگز بنائے بلکہ پلاسٹک کے بجائے کاعذ کے استعمال پر زیادہ سے زیادہ زور دیا جائے اور اس میں سرمایہ کاری کو راعب کیاجائے۔ اس کے ساتھ لوگوں میں بھی شعور اجاگر کرنے کے لئے سمینارز کا اہتمام کیاجا ئے اور میڈیا میں بھی ایک موثر مہم چلائے تاکہ لوگ اس کے نقصانات سے آگاہ ہوسکیں اور وہ خود اس کے استعمال میں احتیاط کر سکیں۔
اسی طرح عام لوگوں کو چاہئے کہ وہ پلاسٹک کے بے جا استعمال سے پرہیز کریں اور اب جو ماحول دوست شاپنگ بیگز دستیاب ہیں تو اس کا ستعمال کیا کریں اگر بازار وغیرہ سے کوئی چیز لانا ہو تو اس کے لئے کپڑے کے تویل ں کے استعمال کو ترجیح دیں جس طرح پہلے وقتوں میں ہمارے بزرگ کیا کرتے تھے۔اسی طرح پلاسٹک کے برتنوں میں گرم خوراک کے کھانے سے پرہیز کریں۔تو ان طریقوں سے ہم اپنے صحت کو محفوظ اور اپنے ماحول کو صاف رکھ سکتے ہیں۔
تمام تر حکومتی اقدامات کے باوجود صوبے کے دیگر اضلاع کی طرح ضلع باجوڑ میں بھی نان بائو ڈیگریڈیبل (ناقابل تحلیل) پلاسٹک بیگز کا خاتمہ نہ ہوسکا اور اب بھی اس کا فروخت کھلے عام جاری ہے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ اس بار اس پر پابندی کے اقدامات کتنے موثر ثابت ہوتے ہیں۔