افغانستان کے صوبہ لوگر کے پچاس سالہ نور گل اپنے خاندان اور بھیڑوں کی ریوڑ کے ساتھ سال بھر سفر کرتا رہتا ہے۔ وہ وہی مقام پرعارضی قیام کرتاہے جہاں پر تازہ چارہ دستیاب ہوں۔
موجودہ وقت میں افغانستان کے سرحد پر واقع ضلع خیبر کے تحصیل لنڈی کوتل کے علاقے باچا مینہ میں خیمے میں موجود ہے۔ اُنہوں نے گرمی کا چوتھا سیزن بھی پاک افغان سرحد کے قریب علاقوں میں اس اُمید سے گزاری کہ ماضی کی طرح وہ خاندان اور پانچ سو بھیڑوں کے ساتھ سرحد پار اپنے ملک افغانستان جاسکے لیکن یہ انتہائی مشکل ہے کیونکہ خاندان میں کسی کے پاس پاسپورٹ موجود نہیں جبکہ پہاڑی راستوں سے سرحد پار جانا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
پاک افغان سرحدعلاقوں میں افغان خانہ بدوش جن کومقامی زبان میں کوچیان بھی کہتے بھیڑ، بکریوں کے ریوڑ پالتے ہیں جبکہ ضرورت کے سامان گدھوں اور اونٹوں پر لے جاتے ہیں تاہم بہتر موسم او زیادہ چارہ کی تلاش میں سال بھر سفر کرتے ہیں۔ یہ لوگ گرمی میں افغانستان جبکہ سردی میں پاکستان آکر زندگی گزار رہے ہیں۔
بنیادی طور پر ان کاتعلق ہمسایہ ملک افغانستان کے مختلف علاقوں سے ہے تاہم یہ خانہ بدوش دونوں ممالک میں شناخت سے محروم ہیں کہی پر ان کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں ان لوگوں کے معاش کا واحد ذریعہ بھیڑ بکریاں پالنا ہے۔ "کوچیان "یا خانہ بدوش کھلے مقامات پر خیمے لگا کر زندگی گزارتے ہیں۔
موجودہ وقت میں افغان خانہ بدوش دو بڑے مسائل کے شکارہے جن میں ایک سرحد پار جانے کے لئے سفری دستاویزات کا نہ ہونا جبکہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچنے کے لئے بروقت اور مناسب مقام تک رسائی میں مشکلات شامل ہے۔
خیبر پختونخوا کے محکمہ لائیوسٹاک اینڈ ویٹرنری آفسر ڈاکٹر مختیار کا کہنا ہے کہ افغان خانہ بدوش جو پاکستان یا افغانستان میں زندگی گزار رہے ہیں اُن کے محفوظ پناہ گاہیں غیر محفوظ اور جانوروں کے لئے مناسب ماحول کا فقدان پید ا ہوگیا ہے جبکہ بارشوں کا سلسلہ کافی متاثر ہوا ہے، کہی تو ضرورت سے زیادہ اور کہی پر بہت ہی کم ہوتے ہیں جس کی وجہ سے چارے کے مقدار میں کمی کی بناء پر جانوروں کے پیداواری صلاحیت کم، بیماروں میں اضافہ اور زندگی خطر ے میں پڑجاتا ہیں۔
اُن کے بقول ترقی کے دور میں تیل اور گیس کے استعمال میں اضافہ ہوچکا ہے اور کارخانوں سے خارج ہونے والی زہریلی گیسز اور فضلہ عالمی سطح پر درجہ خرارت میں اضافے کا سبب بنا ہے جبکہ اس پوری عمل سے پودے، انسان اور جانور بھی براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔اُنہوں نے کہا کہ سرحد پر آنے جانے میں مسائل کے بناء پر ان لوگوں کے مشکلات کافی بڑھ چکے ہیں۔
ان کا نہ کوئی ہمسایہ ہوتا ہے اور نہ ان کا کوئی جاننے والا، بس ان کا سبزہ زار ہوتا ہے وہاں پر مال مویشیوں کو بہتر طریقے سے پالنے کے بناء پر اپنے زندگی وقف کرلیتے ہیں لیکن موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے 2005 سے علاقے میں پہلے کے نسبت بارشیں کم ہوئے جس کے وجہ سے قدرتی طور پر اُگنے والا چارے کے مقدار میں کمی ہوئی جبکہ دوسرے جانب شدید گرمی کی وجہ سے تھوڑا بہت چارہ جلد سوکھ جاتا ہے۔
نوجوان محمد آغا جو آفغانستان کے صوبہ لغمان کے رہائشی ہے اپنے دوسرے ساتھیوں کے ہمراہ چار سو تک بھیڑ بکریوں کی ریوڑ صبح سویرے چروانے کے لئے لے جاتے ہیں جبکہ شام کو واپس اپنے مالک کے خیمے میں رات گزارنے کے لئے آتے ہے، دونوں کو ماہانہ بیس بیس ہزار تنخواہ دیا جاتا ہے۔ آغانے کہا کہ پورا دن چارے کے پیچھے مویشی دوڑتے ہیں اور انسانوں کے طرح جب خوب سیر کرنہیں کھاتے تب تک آرم نہیں کرتے، ان کی زندگی بہت مشکل ہوگئی ہے لیکن کیاکریں،چارہ گاہیں ختم ہوگئے، آبادی بڑھ گئی ہیں اور جو زمین خالی پڑا تھا اُس کو لوگوں نے زیر کاشت لایا اور وہاں پر قریب بھی کسی کو نہیں چھوڑتے۔
پشاور یونیورسٹی شعبہ نباتات کے پروفیسر ڈاکٹر لعل بادشاہ محسو د نے پی ایچ ڈی کی تحقیق جنوبی وزیرستان کے پہاڑی علاقوں میں پیدا ہونے والے جڑی بوٹیوں اورماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے چارہ گاہوں کی کمی پر کی ہیں۔اُنہوں نے کہا کہ صدیوں سے پاک افغان سرحد کے دونوں جانب افغانستان سے تعلق رکھنے والے خانہ بدوش جو سردی میں پاکستان اور گرمی اپنے ملک میں گزارتے تھے لیکن پچھلے کچھ سالوں سے جب سرحد پر باڑ لگانے اور آمد ورفت کے لئے ویزے کے شر ط لازمی قرار دیاان کا آمد ورفت شدید متاثر ہوچکاہیں۔
اُنہوں نے کہاکہ جنگلات کے بے دریغ کٹائی، طوفانی یا کم مقدار میں بارشوں، 2010 میں خطرناک سیلاب، عمارتوں کے تعداد میں اضافہ اور بنجر زمینوں کو زیرکاشت لانے کی وجہ سے چراگاہیں بڑی حد تک متاثر ہوچکے ہیں۔اُنہوں نے کہا کہ خانہ بدوشوں میں اکثریت کا تعلق افغانستان سے ہیں اس وجہ سے بہت سے علاقوں جہاں پر سبزہ زار زیادہ ہیں وہاں پر حکام کے جانب سے جانے کی اجازات نہیں دیاجاتاہے۔
اُن کے بقول گاڑیوں کے تعداد میں اضافہ، بڑی تعداد میں تجارتی مرکز اور رہائش کے ساتھ بڑے شاہراہوں پر خانہ بدوشوں کا سفر ممکن نہیں رہا جبکہ سفر کے دوارن راستے میں انسانی آبادی میں اضافے کے بناء پر وہ چراگاہوں کو اپنے وقت پرنہیں پہنچ جاتے۔جہاں پر جانوروں کے لئے کئی ہفتے چارہ دستیاب نہ ہونے کے وجہ سے کئی مسائل کا سامناکرنا پڑتا ہے۔
افغان خانہ بندوشوں کے سماجی زندگی
نور گل کے دوبیٹے اور دو بیٹاں اُن کے ساتھ خیمے میں زندگی گزار رہے ہیں۔ بڑے بیٹے سید محمد آغا نے بتایاکہ وہ افغانستان میں اپنے گاؤں میں دو سال تک اپنے بھائی کے ساتھ سکول پڑھنے جاتا تھا لیکن تین چار سال پہلے جب پاکستان آئے ہیں تو یہاں پر پڑھنے کا کوئی انتظام نہیں۔ وہ دینی تعلیم جبکہ چھوٹا بھائی گل آغا سکول کی پڑھائی چاہتاہے تاہم متواتر سفر اور مالی مسائل کے بناء پر یہ ممکن نہیں۔
نور گل کی چالیس سالہ بیوی سعیدہ کہتی ہے کہ جب زیادہ وقت کے لئے افغانستان میں قیام پزیر تھے بچوں کو سکول بھیجتے تھے تاہم پاکستان آتے ہی یہ سلسلہ ادھورہ رہ گیاہے۔ اُنہوں نے سفر ہی میں لڑکیوں کے شادی اور بچے پیدا ہوجاتے ہیں اور طبی مدد کا نام ونشان ہی نہیں ہوتاہے۔
پاکستان میں افغان مہاجرین کی مدد کے لئے کام کرنے والے غیر سرکاری ادرہ سوسائٹی فار ہومین راٹس اینڈ پرزنز (شارپ) کے سربراہ محمد مدثر کاکہنا ہے کہ افغان خانہ بندوشوں کے حقوق کے لئے کوئی ادارہ کام نہیں کررہاہے جس کے وجہ سے ان لوگوں کے اصل تعداد کے بارے میں بھی معلومات دستیاب نہیں۔ اُن کاکہنا تھاکہ ان لوگوں کے بچوں اور خواتین کے اتنہائی مشکل زندگی گزرہی ہے کیونکہ ایک تو بچے پڑھائی عمل سے دور رہتے جبکہ خواتین زجگی دوران سفر بغیر کسی طبی سہولت کے ہوجاتے ہیں جوکہ انتہائی تکلیف دہ عمل ہوتاہے۔
سید کریم ضلع مہمند کے علاقے خویزی میں اپنے خاندان کیساتھ رہتاہے۔ اُنہوں نے کہاکہ سرحد پر سفری دستاویزات کے شرط لازمی قرار دینے کی وجہ سے وہ اپنے رشتہ داروں کے غم اور خوشی میں شرکت بھی نہیں کرسکتے۔ اُن کے بقول تمام زندگی کے سماجی سرگرمیاں سفر کے دروان ہی ہوتے رہتے جبکہ رابطوں کی کمی کے بناء پر ایک دوسرے کے بارے میں بہت کم معلومات رکھتے ہیں۔
سرحد کے بندش سے افغان خانہ بدوشوں پر موسمیاتی تبدیلی کے برے اثرات
پاکستان دنیا کے ان دس ممالک کے فہرست میں شامل ہیں جہاں پر موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات بہت زیادہ ہے۔ چالیس سالہ سید محمد بھی افغان خانہ بدوش ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کافی زیادہ بڑھ چکے ہیں جس کی وجہ سے مویشوں کے بیماریوں میں کافی اضافہ ہوا ہے اور پچھلے سال سو سے زائد بھیڑیاں پراسرار بیماری کے وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے جو بڑا مالی نقصان تھااور یہ سلسلہ پچھلے کئی سالوں سے جاری ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ حکومت کے جانب سے کوئی سہولت نہیں دیا جاتا ہے اور بیماری کے تدراک کے لے بازار جاکر اپنے پیسوں سے دوائی خرید لیتے ہیں اور گھریلوں ٹوٹکوں کا استعمال کرتے ہیں۔ میرے اندازے کے مطابق یہ سب کچھ گندہ پانی کے وجہ سے ہوتا ہے جو مویشی راستے میں جوہڑوں سے پیتے ہیں۔
ڈاکٹر مختیار کے مطابق افغانستا ن اور پاکستان کے پہاڑی علاقوں سے تعلق رکھنے والے خانہ بدوش جو بڑی تعداد میں بھیڑ بکریا ں پالتے ہیں بڑے مقدار میں گوشت اور دودھ کے ضروریات پورا کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہیں لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کے بناء پر چراگاہیں ختم اور قدرتی طورپیدا ہونے والے چارہ کے مقدار میں بڑی حدتک کمی آئی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے بناء پر پانی کے ذخائر میں کمی ہوئی اور جوپانی دستیاب ہوتا ہیں اس میں کارخانو ں اور انسانی آبادی کافضلا شامل ہوکر استعمال کے قابل نہیں رہتے لیکن سفر کے دوران جہاں پر بھی خانہ بدشوں کوپانی ملتاہے تو وہ اپنے جانوروں کو پھیلاتے ہیں جس کے وجہ سے نہ صرف خطرناک بیماریاں پیدا ہوتے ہیں بلکہ یہ وبائی شکل اختیار کرکے پوری ریوڑ کے ہلاک ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔
نقل مکانی کیسے خانہ بدوشوں پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کم کرسکتے ہیں
ماہرین کے مطابق اگر سرحدپر خانہ بدوشوں کے آمدورفت کی مویشوں کے ساتھ اجازت ہو، تو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کم ہوسکتے ہیں۔ خانہ بدوشوں کو بہتر سہولیات مہیا کرنے کے لئے خیبر پختونخوا کے محکمہ لائیوسٹاک نے کچھ عرصہ پہلے اس حوالے سے تحقیقی کام مکمل کرلیا ہے جن میں جانوروں کے تعداد، چرواہوں اور اُن خاندان کے لوگوں کے تعداد، سفر کے اوقات، قیا م گاہیں، چراگاہوں اور راستوں کے نشاندہی شامل تھی، جن میں شمالی علاقہ جات میں صرف ایک دو مقامات پرموبائل ڈاکٹراور ادویات کے سہولیات کے علاوہ کچھ نہیں ہوا۔
ادارے کے اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے شرط پر بتایاکہ عالمی اداروں کے تعاون سے تحقیقی کام کا بنیادی مقصد چراگاہوں کو محفوظ اور مزید مقامات تک رسائی میں مدد فراہم کرنا، دوران سفر اور قیام کے دوران بہتر سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ڈاکٹراور ادویات کے بروقت فراہمی شامل تھا لیکن پچھلے کئی سالوں سے افغان سرحد پر ان کے آمد ورفت پر پابندی کے بناء پورا منصوبہ سردخانے کے نظر ہوا۔
حال ہی میں خیبر پختونخوا حکومت کے محکمہ لائیوسٹاک نے پالیسی مرتب کی جس میں موسمیاتی تبدیلوں کے بڑھتے ہوئے برے اثرات پر قابو پانے کے لئے منصوبہ بندی کی نشاندہی کرائی گئی ہے۔ ادارے میں متعلقہ ماہرین کے ایک ٹیم نے مسائل کے نشاندہی کیں ہیں اور اُ ن کے حل کے منصوبے بندی سمیت بجٹ مختص کرنے کا عمل بھی مکمل کرلیا گیا ہے جس پر جلد عملی اقدامات شروع کیں جائینگے۔
نور گل کے بچے اپنے رہائشی خیمے کے قریب بھیڑ اور بکریوں کے بچے چراتے ہیں اور بڑے جانوروں کے ساتھ نہیں بھیجتے کیونکہ گرمی کی وجہ سے اُن کے اموات ہوسکتے ہیں۔
ڈاکٹر لعل بادشاہ محسود کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت کے جانب سے بلین ٹری منصوبہ انتہائی اہم اقدام ہے جس کو قبائلی اضلاع تک توسیع دینا چاہئے۔ اُنہوں نے کہا کہ اس سے نہ صرف موسمیاتی اثرات پر قابو پایا جاسکتا ہے بلکہ اس سے چراگاہیں محفوظ ہو جائینگے۔گھاس، پودوں کے پتے کھانے سے ان موشیوں کے گوبر سے بیج بھی ایک جگہ سے دوسرے جگہ منتقلی میں کافی مدد ملے گا جوکہ مستقبل میں مزید پودوں کے خود بخود اُگنے کے آسان اور موثر طریقے ہیں اور ماحول پر اس کے کافی مثبت آثرات مرتب ہونگے۔
خانہ بدوش پاکستان اور افغانستان میں عید قربان کے لئے بڑی تعداد میں دنبے اور بکریاں مارکیٹ میں بھجتے ہیں۔اول گل پشاور میں جی ٹی روڈ پر واقع بڑی مال مویشی کے منڈی میں بیوپاری ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ افغانستان سے خانہ بدوشوں کے آمد پر پابندی کے بناء پر بڑے عید کے موقع پر چھوٹے جانور کے منڈیوں میں تعداد کم قیمت کئی گناہ بڑھ جاتاہے جبکہ افغانستان طورخم کے راستے مویشی لانے پر یا تو پابندی لگائی جاتی ہے اور ٹیکس اتنا بڑھاجاتاہے کہ عام آدمی کے خرید سے دور ہوجاتاہے۔
آنے والے موسم بہار کے لئے سید محمد کافی پر اُمیدہے کہ اُن کے موشیوں کو زیادہ چارہ دستیاب ہونگے ماضی کے مقابلے میں بہار کے دن بہت کم ہوچکے ہی۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ دوسرے علاقے منتقل ہونے کی تیاریاں کررہے ہیں۔ سامان کے منتقلی کے لئے اونٹ اور گدھے جبکہ رات کوچوکیداری اور حفاظت کے لئے کتے پال رکھے ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ پہلے بہار کا موسم خوشگوار، سبزہ زار زیادہ اور لمبے عرصے کے لئے ہوتا تھا لیکن اب ایسا نہیں۔ اُن کے لئے اب یہ ایک مشکل فیصلہ ہے کہ وہ کس علاقے کا انتخاب کریں جہاں پر گھا س زیادہ مقدار میں موجود ہواور مقامی آبادی کے فصلو ں کو مویشیوں سے خطرہ نہ ہوں۔
خانہ بدوشوں کے ایک سے دوسرے علاقے کو منتقلی کا انتہائی مشکل مرحلہ ہوتا ہے لیکن موسمیاتی تبدیلی نے ا سے مزید پیچیدہ بنا رکھا ہے۔ نورگل کے بچے تو سکول نہیں جاتے البتہ وہ جس علاقے میں چند ہفتوں کے رہائش اختیار لیتے ہیں تو وہ اُن کے لئے نیا نہیں رہتا لیکن دوسرے علاقے منتقلی اُن سمیت خواتین کے لئے کافی تکلیف دہ عمل ہوتا ہے۔ گرمی اور سردی سے بچاؤ کا کوئی خاص انتظام موجودنہیں ہوتا۔ اب گھر میں کسی کو کچھ معلوم نہیں اگلا پڑاؤ کہا پر ہوگاالبتہ موجودہ مقام کے قریب بازار اور برساتی نالے سے پانی کے دستیابی اور چند گز کے فاصلے پر گھر ان کے لئے سکون کا سبب ضرور تھا۔
خانہ بدوشوں کے لئے سرحدی قوانین
افغان خانہ بدوشوں کو درپیش مسائل کے حوالے سے نے عالمی ادارہ برائے مہاجرین کے ترجمان قیصر آفریدی کا کہنا تھا کہ یہ لوگ موسم کے تبدیلی سے ایک ملک سے دوسرے ملک چلا جاتاہے اور نہ ان لوگوں کے کوئی قانونی دستاویزات موجود نہیں۔ اُن کے بقول اسلام آباد یا کابل ان کے حیثیت مانے کو تیار نہیں تو اس وجہ ادارہ حقوق کے لئے کچھ نہیں کررہے ہیں۔
محمد مدثر نے کہاکہ افغان خانہ بدوش چترال سے لیکر بلوچستان تک سرحدی مقامات پر موسم سرما شروع ہوتے ہی اکتوبراور نومبر میں پاکستان جبکہ مارچ اور اپریل کو واپس اپنے مال مویشی اور خاندان کے ساتھ واپس افغانستان چلے جاتے تھے لیکن ان لوگوں کے لئے پاکستان میں باقاعدہ کوئی قانونی انتظام نہ ہونے کی وجہ سے سرحد پر آمد ورفت کے سخت شرائط کی وجہ سے ان کے مسائل اضافہ ہوگیا ہے۔
اُنہوں نے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں سیکورٹی کے صورتحال نے ان لوگوں کے مسائل مزید اضافہ کردیا ہے اور ایک علاقے سے دوسرے علاقے یا سرحد پار آنا جانا اس قدر مشکل بنادیا گیا کہ ان ان کے تعداد بتدریج کم ہورہی ہے اوریواین ایچ سی آر اور شارپ ان لوگوں کے مسائل کے حل کے لئے کچھ نہیں کررہے ہیں۔