
سومیا آفریدی ضلع خیبر کے تحصیل لنڈی کوتل کی اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون ہے جو بلدیاتی انتخابات میں بطور خاتون ممبر منتخب ہوئی ہے۔ سومیا کیلئے بلدیاتی انتخابات میں شرکت آسان فیصلہ نہیں تھا، انہیں انتخابات میں حصہ لینے کیلئے گھر والوں سے بہت مشکل سے اجازت ملی لیکن ان تمام کوششوں کے پیچھے یہ جذبہ تھا کہ وہ اپنے علاقے کی خواتین کیلئے کچھ کر پائی گی۔
”میں سوچتی تھی کہ صوبے کے دیگر علاقوں کے نسبت ہمارے علاقے میں مقامی آبادی اور خصوصا خواتین صحت، تعلیم اور ہنر جیسے بنیادی سہولیات سے کیوں محروم ہیں۔ ان تمام مسائل کے حل کے لئے میرے پاس مقامی حکومت میں ایک منتخب نمائندے کے طور پر آنے کے علاوہ کوئی حل نہیں تھا، تین سال پورے ہونے کو ہے لیکن فنڈ اور اختیارات نہ ہونے کی وجہ سے ابھی تک کچھ نہیں کر پائے ہیں”۔
خیبر پختونخوا میں دسمبر 2021 اور مارچ 2022 میں دو مرحلوں میں مقامی حکومتوں کے انتخابات موجودہ صوبائی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے دور اقتدار میں ہوئے تاہم اختیارات کم اور فنڈ نہ دینے کے لئے مقامی حکومتوں کے ایکٹ میں ترامیم کرکے اس نظام کو غیر فغال کردیا گیا۔ مقامی حکومتوں کے باقاعدہ انتخابات پہلی بار ضم قبائلی اضلاع میں ہوئے اور لوگوں کودرپیش مسائل کے حل کے لئے کافی اُمیدیں وابستہ رہے لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ ضلع خیبر تحصیل لنڈی کوتل تحصیل چیئرمین شاہ خالد شینواری ان تمام مسائل کے ذمہ دار صوبے میں تیسری بار برسر اقتدار جماعت پی ٹی آئی کو قرار دے رہاہے۔ اُنہوں نے کہاکہ قانون کے مطابق ترقیاتی بجٹ کا تیس فیصد مقامی حکومتوں کے نمائندوں کی ذریعے خرچ کرناتھا لیکن جب انتخابات میں بری ناکامی کاسامنا کرناپڑا تو خود پی ٹی آئی کے ارکان صوبائی اور قومی اسمبلی کے دباؤ کے سبب ایکٹ میں ترامیم کرکے اس نظام کو غیر فغال کردیا گیا۔
صوبے میں موجودہ وقت میں پی ٹی آئی جماعت کی تیسری بار حکومت ہے جوکہ مقامی حکومتی نمائندوں کا اُن کا سامنا ہے۔ جب انتخابات ہورہے تھے تو ایک منتخب حکومت تھی لیکن چند مہینے بعد نگران اور اب پھر ایک منتحب حکومت موجود ہے۔ ضم قبائلی اضلاع میں پہلی بار بلدیاتی اداروں کا قیام عمل میں آیا جن میں ویلج، نیبرہڈ اور تحصیل میونسپل کونسلیں شامل ہیں۔
تیمور کمال ضلع پشاور کے تحصیل پبی سے ویلج کونسلر منتخب ہوا ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ تینوں حکومتوں کے ساتھ مقامی حکومتوں کے مسائل کے حل کے حوالے نہ صرف بات ہوچکی ہے بلکہ پشاور ہائی کورٹ میں کیس اور صوبے کے سطح پر بڑے احتجاجی ریلوں کے باوجود بھی کچھ مثبت تبدیلی سامنے نہیں آئی ہے۔ اُنہوں نے مقامی حکومت کے نمائندوں کو پیدائش، وفات، نکاح رجسٹریشن اور دیگر بنیادی مسائل کے حل کی ذمہ داریاں سونپ دئیے ہیں لیکن دوسرے جانب ماہانہ اعزازیہ جن کا وعدہ کیاگیا تھا بھی نہیں دیا جارہا ہے جبکہ صرف دفتر کا کرایہ، بجلی اور انٹرنیٹ کے بل کے مد میں کچھ پیسے دئیے جاتے ہیں۔ اُنہوں نے انتخابات میں سیاسی اور برادریوں کے وابستگی کے بنیاد پر لوگوں نے اپنے نمائندوں کا چناؤ کیا تھا لیکن اب کچھ نہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف عوام بلکہ منتخب نمائندوں کو مسائل کاسامنا ہے۔
اسلام آباد میں کام کرنے والے غیرسرکاری تحقیقی ادارے، سنٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشی ایٹوز (سی پی ڈی آئی) کے سربراہ مختار احمد علی نے اس موضوع پر بات کرتے ہوئے مقامی حکومتوں کیلئے قوانین میں تبدیلیوں سے منفی اثرات کی ذمہ دار پاکستان تحریک انصاف کو ٹہراتے ہیں۔ اُن کے بقول ایسی تبدیلیاں ایک افسوس ناک امر ہے جو پاکستان میں جمہوریت کے استحکام کیلئے کی جانے والی کوششوں کیلئے نقصان دہ ثابت ہو گی۔
ساجدہ اقبال ضلع کرم کی تحصیل صدّہ سے مقامی حکومتوں کے انتخابات میں خواتین کی مخصوص نشست پر رکن منتخب ہوئی ہے، انتخاب سے پہلے بھی وہ علاقے میں خواتین کو درپیش مسائل کے حل کیلئے اپنے طور پر کام کررہی تھی۔ تاہم زیادہ بہتر طریقے سے لوگوں کی بہبود کا کام کرنے کے لیے اُنہوں نے مقامی حکومتوں کے انتخابات میں حصہ لیا۔
خواتین کو درپیش مسائل کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ان کے علاقے میں خواتین کو نادرا کے دفاتر اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت مالی مدد کے حصول میں مشکلات اور ہسپتالوں میں سہولیات کی کمی کا سامنا ہے۔
”یہاں قائم بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے مرکز میں بہت زیادہ رش ہوتا ہے جبکہ عملے کی تعداد بہت ہی کم ہے جس کی وجہ سے شدید گرمی میں خواتین بچوں کے ساتھ اپنی باری کے لیے کئی گھنٹے انتظار کرتی ہیں جبکہ بعض خواتین کے کارڈز بنا کسی ٹھوس وجہ کے بلا ک کردیے جاتے ہیں اور اُن کی صحیح رہنمائی اور مدد کیلئے کوئی انتظام موجود نہیں ہوتا۔
ساجدہ کے بقول نادرا دفتر میں خواتین کی انتظار گاہ میں دھوپ سے بچنے کیلئے سائے، پینے کا پانی اور واش روم کی سہولت دستیاب نہیں ہے، جبکہ ہسپتالوں کے بعض شعبہ جات میں خواتین عملہ نہ ہونے کی وجہ سے علاج میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
”جب ہم ان مسائل کے حل کیلئے سرکاری حکام سے بات کرتے ہیں تو اُن کا یہی جواب ہوتا ہے کہ آپ کو ان چیزوں میں مداخلت کا کوئی قانونی اختیار نہیں کیونکہ یہ معاملات مقامی حکومتوں کے تحت نہیں آتے، یہی وجہ ہے کہ دو سال گزرنے کو ہیں لیکن خواتین کو درپیش مسائل جوں کے توں ہیں۔”
نگراں حکومت کی جانب سے صوبے کو درپیش مالی مسائل پر انہوں نے کہا کہ ایسا ممکن نہیں کہ کسی خاص شعبے کیلئے حکومت بالکل فنڈ جاری نہ کرسکے۔
انتخابی عمل کے مکمل ہونے کے کچھ ہفتوں بعد، 3 جون 2022 کو ایک قانونی ترامیم کے ذریعے کی گئی ان تبدیلیوں کے چیدہ چیدہ نکات درجِ ذیل ہیں:
چیئرمین تحصیل کونسل کے اختیارات اور ذمہ داریوں کی تفصیل قانون سے حذف کر دی گئی ہے۔ اس کے بجائے ان قواعد و ضوابط کا حصہ بنا دیا گیا ہے جو صوبائی حکومت نے نئے قانون کے نفاذ کے لیے بنائے ہیں۔ میئر اور سٹی گورنمنٹ کے اختیارات اور ذمہ داریوں کو بھی قانون سے نکال کر قواعد و ضوابط میں ڈال دیا گیا ہے۔ ایک اضافی ترامیم کے ذریعے یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ مقامی حکومتوں کی موجودگی کے باوجود صوبائی حکومت کو یہ اختیار حاصل رہے گا کہ وہ کسی بھی مقامی حکومت کی حدود میں کوئی بھی ترقیاتی کام کر سکتا ہے۔ نجی رہائشی سکیموں کی منظوری کے اختیارات تحصیل کونسلوں سے لے لیا ہے۔
اس تبدیلیوں کے نفاذ کے لیے متعلقہ قواعدوضوابط 23 جون 2022 کو جاری کیے گئے جن کا خلاصہ یہ ہے کہ مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کو عملاً تحصیل کی سطح کے سرکاری افسروں کے ماتحت کر دیا گیا ہے۔ ان کے مطابق ہر تحصیل کے اسسٹنٹ کمشنر کو وہاں پائے جانے والے مقامی حکومت کے تمام محکمے چلانے کا اختیار دیا گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں مقامی نمائندے ان محکموں کے اہل کاروں کو براہِ راست کوئی حکم نہیں دے سکتے بلکہ اس کے لیے انہیں اسسٹنٹ کمشنر کو کہنا پڑے گا۔ اسی طرح تمام شہری سہولیات کی فراہمی کی ذمہ داری تحصیل میونسپل آفیسر (ٹی ایم او) کو سونپ دی گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مقامی نمائندے روزمرہ کے شہری مسائل کے حل کے لیے بھی اسی کے مرہون منت ہو گی۔ مقامی حکومتوں کو ترقیاتی کاموں کے لیے دیے گئی پیسوں کے استعمال کا اختیار بھی ٹی ایم او کو دیا گیا ہے۔ وہ تحصیل ترقیاتی کمیٹی کی سربراہ بھی ہو گا اور ضرورت کے پیش نظر سکیل ایک سے 16 تک کی اسامیوں پر بھرتیاں بھی کر سکے گا۔ گاؤں اور محلے کی کونسلوں کے تمام امور کی انجام دہی کے اختیارات ان کے سیکرٹریوں کو سونپ دیے گئی ہیں (اگرچہ وہ چیئرمینوں کی منظوری کے بغیر کوئی انتظامی فیصلہ نہیں کر سکیں گے)۔ لیکن ان کونسلوں کو کسی بھی ترقیاتی منصوبے پر رقم خرچ کرنے کے لیے اپنی تحصیل کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر بلدیات سے منظوری لینا ہو گی۔
خیبر پختونخوا میں مقامی حکومتوں کے نمائندوں کی تنظیم لوکل کونسل ایسوسی ایشن کے صدر اور مردان کے میئر حمایت اللہ مایار ان تمام تبدیلیوں کو غیرقانونی سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے نفاذ کے لیے بنائے گئے قواعد وضوابط دراصل خیبرپختونخوا لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019 کی منظوری کے فوراً بعد وضع کر دیے جانے چاہیے تھے۔ ان کے مطابق ان قواعد و ضوابط کی تشکیل میں تین سال کی تاخیر کا مطلب ہے کہ صوبائی حکومت نے مقامی حکومتوں کے انتخابی نتائج کو پیشِ نظر رکھ کر بنایا ہے جو کہ ایک غیر قانونی عمل ہے۔
انہوں نے قانون میں کی جانے والی تبدیلیوں اور قواعدوضوابط کی تشکیل کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹشن بھی دائر کیا ہے جس کی پہلی سماعت 7 جولائی 2022 کو ہوئی۔ عدالت کے دو رکنی بنچ کے سامنے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ بلدیاتی نمائندوں کے اختیارات قانون سے نکال کر قواعد وضوابط میں ڈالنا اور پھر ان قواعدوضوابط کے ذریعے میئر اور چیئرمین کے اختیارات لے کر افسر شاہی کو دینا آئین میں دیے گئے اس تصور کے منافی ہے جس کے تحت اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی ایک ضروری آئینی تقاضہ ہے۔ ان کے بقول یہ عمل صوبائی حکومت کی بدنیتی کو ظاہر کرتا ہے۔
ضلع خیبر باڑہ سے پاکستان تحریک انصاف کے ممبر صوبائی اسمبلی عبدالغنی آفریدی نے اس تاثر کو رد کردیا کہ صوبائی حکومت منصوبہ بندی کے تحت مقامی حکومتوں کے نظام کو غیر فغال کررہاہے۔ اُنہوں نے کہاکہ مقامی حکومتوں کے نمائندوں کے تنخواہوں کے لئے مالی سال 2024-25 میں تین سو ارب جبکہ ترقیاقی منصوبوں کے لئے تین سو بیس ارب روپے مختص کردئیے گئے۔ اُنہوں نے کہاکہ ویلج اور نبرہوڈ چیئرمین کے تنخواہ بیس سے بڑھا کر تیس ہزار جبکہ تحصیل چیئرمین کے چالیس سے اسی ہزار کردیا گیا ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ مقامی حکومتوں کے نمائندوں کے احتجاج کے بعد ایک کمیٹی بنائی گئی جنہوں نے وزیر اعلٰی علی امین گنڈاپور کے ساتھ ملاقات کی اور تمام مسائل کے حل کے نہ صرف یقین دہانی کرائی گئی بلکہ عملا اُس کام پر آغاز ہوا۔
صوبائی وزرات خزانہ کے اعلی عہدیدار کا کہنا ہے کہ مالی سال (22-2021) میں پراونشل فنانس کمیشن ایوارڈ کے تحت مقامی حکومتوں کیلئے 15 ارب روپے رکھے گئے تھے۔ اگرچہ اپریل 2021 میں مقامی حکومتیں قائم ہو چکی تھی لیکن مالی سال کے اختتام یعنی 30 جون 2021تک اس مد میں ایک پیسہ بھی جاری نہیں کیا گیا۔
اُن کا مزید کہناتھا کہ مالی سال (2022-23) میں بھی مقامی حکومتوں کیلئے اس ایوارڈ کے تحت 41 ارب روپے رکھے گئے ہیں لیکن صوبائی حکومت نے تمام کے تمام فنڈز روک دئے ہیں جس کی وجہ سے مقامی حکومتیں مفلوج ہو کر رہ گئی ہے اور پچھلے دو سال میں صوبے بھر میں مقامی حکومت کے نمائندوں کو نہ ہی فنڈ جاری کیا گیا اور نہ اُن کو ماہانہ اعزازیہ دیا گیا ہے۔