تیس سالہ عرفان اپنی والدہ، بیوی اور بچوں کے ساتھ باڑہ بازار میں قائم گاڑیوں کے اڈے سے تیراہ جارہے ہیں تاہم سردی کے موسم میں گرم علاقوں سے لوگوں کا جانا کم ہوجاتاہے جس کی وجہ سے ایک گاڑی کے نکلنے میں دو سے تین گھنٹے کا وقت لگتا ہے۔ گاڑی بھرنے کے لئے عرفان خود ہائیس میں جبکہ باقی لوگ نزد ایک ایسے جگہ پر انتظار کررہے ہیں جہاں گندگی کا ایک بڑا ڈیر ہے اور ساتھ پبلک واش رومز بھی ہیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ گاڑیوں کے آڈے میں نہ صرف خواتین کے لئے مناسب انتظار گاہ اور واش روم کی کوئی سہولت نہیں ہیں بلکہ مردوں کے لئے بھی کوئی انتظام موجود نہیں ہے۔
ضلع خیبر کے تاریخی تجارتی مرکز باڑہ میں چار بڑے جبکہ کئی چھوٹے آڈے قائم ہیں جہاں سے پشاور، تیراہ، اورکزئی، شین کمر، مستک اور آکاخیل کے دور درز علاقوں کو مسافر گاڑیاں جاتی ہیں تاہم ان اڈوں میں مسافروں کے سہولت کے لئے واش روم، انتظار گاہ، پینے کے صاف پانی، نکاس اب اور مسجد کے سہولت موجودہی نہیں ہے۔ سب زیادہ مسائل سفر کرنے والے خواتین کو سامنا کرنا پڑرہاہے۔
محمد عارف ایک آڈے میں منشی ہے اور اپنے مدد آپ کے تحت خواتین کے لئے انتظارگاہ اور واش روم کے سہولت کا دعوی کر رہا ہے تاہم بظاہر وہاں پر ایسا کوئی سہولت نظر نہیں آیا ہے۔ مردوں کے لئے پینے کی پانی کا کوئی حاص انتظام نہیں تھا جبکہ سٹیل بینجیز تھے۔ آڈے کے اجازت نامے کے سوال پر اُنہوں نے کہا کہ باقاعدہ طور پر خیبر پختونخوا ٹرانسپورٹ ریگولیٹرٹی آتھارٹی(آرٹی اے) نے اُن کو اجازت نامہ جاری کردیا ہے اور سالانہ ایک لاکھ بیس ہزار فیس ادا کر ر رہے ہیں۔ اُنہوں نے الزام لگایا کہ دوسال پہلے امدادی ادارے کے مالی معاونت سے اڈوں کو جو سہولیات مہیاکی جارہی تھی اُن کی تقسیم سیاسی اثر رسوح کے بنیاد پر ہوئی۔ اُنہوں نے کہا تین بڑے اڈوں میں صرف ایک ہی اڈے میں پینے کا فلٹر پلانٹ، واش رومزاور انتظار گاہ کی سہولت مہیا کی گئی۔
2022-23 میں باڑہ غیر سرکاری ادارے کے جانب سے یو ایس آئی ایڈ کے مالی معاونت سے سب زیادہ دہشت گردی سے متاثرعلاقہ ضلع خیبر کے تحصیل باڑہ کے تجارتی مراکز میں بنیادی سہولیات مہیاکرنے کے لئے اقدمات کیں گئے ہیں۔
ستمبر 2009میں دہشت گردی کے خلاف فوجی آپریشن کے بناء پر پورا بازار بند ہوگیا۔ تجارتی مراکز اور گاڑیوں کے اڈے بٹہ تل بازار منتقل ہوگئے تاہم فروری 2015میں سیکورٹی حکام کے جانب سے علاقہ کلیئر قرار دئیے جانے کے بعد باڑہ میں گاڑیوں کا پہلا آڈہ گل مین مارکیٹ جو مین خیبر چوک میں باڑہ پشاور روڈ منتقل کردیا گیا۔ اڈے کی اجازت نامہ سیکورٹی حکام کے جانب سے جاری کر دیا گیا تھا۔یہاں سے پشاور، تیراہ، اورکزئی اور آکاخیل کے مختلف علاقوں کوگاڑیاں جاتے ہیں۔ اس آڈے میں امدادی ادارے کے مالی مدد سے خواتین کے لئے چار واش رومز، انتظار گاہ، صاف پانی کا فلٹرپلانٹ اور ٹھنڈے پانی کے لئے نو واٹر کولر نصیب کیں گئے۔ تاہم بدقسمتی سے مارکیٹ میں تاجروں کے عدم تعاون کے سبب آٹھ واٹر کولراور فلٹر پلانٹ بجلی کی عدم دستیابی کے بناء پر بند پڑے ہیں۔ تین ٹیوب ویل جن کو چلنے کے لئے شمسی توانائی کا انتظام موجود ہے باقاعدہ استعمال کیا جارہاہے جن سے کئی مارکیٹوں کو پینے کا پانی مہیا کیا جا رہا ہے۔ باڑہ تزائن و آرائش منصوبے کے تحت تعمیر ہونے والے فرش بندیوں کے تعمیر ادھارہ رہ جانے کے کی بھی شکایت سامنے آئی۔
ادارے کے دستاویزات کے مطابق ایک آڈہ جوکہ باڑہ پشاور روڈ پر جنوب کے طرف واقع کو آر ٹی اے کے طر ف سے اجازت نامہ جاری کردیا ہے گیا اور ماہانہ پندرہ ہزر روپے ادارے کو فیس کی مد میں ادا کیاجاتا ہے تاہم اس آڈے میں مردو ں کے پہلے سے واش روم اور محدود انتظار گاہ موجود تھا لیکن پینے کا پانی، نکاس اب اور صفائی کا کوئی انتظام موجود نہیں تھا۔ امدادی ادارے کے تعاون سے بنائے گئے دو واش رومز ہیں جن کی استعمال کے پیسے لی جاتے جس سے واش رومز کے صفائی کا خرچہ پوری کیاجاتاہے۔ ان واش رومز کے سامنے خواتین کو کھلے آسمان تلے زمین پر بیٹھایا جاتا ہے جبکہ قریب گندگی کے ڈھیر اورمارکیٹ کے درمیان یہ زیادہ رش رہتاہے۔
جمرود روڈ پر واقع آڈے کی اجازات نامہ تحصیل مونسپل کمیٹی کے طرف سے جاری کردیا گیا ہے۔یہاں سے جمرود، لنڈی کوتل اور دیگر قریب علاقوں کو چھوٹے گاڑیاں جاتی ہے۔ یہاں پر انتظار گاہ، پینے کی پانی، صفائی، واش روم اور دیگر بنیادی سہولیات کا نام ونشان تک نہیں ہے۔
چوتھے آڈے کو آر ٹی اے کے جانب سے اجازت نامہ جاری کردیاگیا ہے اور یہ بھی باڑہ پشاور روڈ پر شمالی کے جانب واقع ہے۔ یہاں سے وادی تیراہ کے لئے ہائیس اورموٹرکاریں جاتے ہیں۔ یہاں پر بھی بنیادی سہولیات کا فقدان ہے تاہم آڈے کے منشی محمد عارف نے دعوا کیا کہ اپنے مدد آپ کے تحت خواتین کے لئے انتظار گاہ اور واش روم کی سہولت مہیاکی گئی ہے تاہم جہاں سے گاڑہاں نکلتی ہے تو وہاں پر صرف مردوں کے لئے محدود نشستیں انتظار گاہ میں موجود تھے۔ اُنہوں نے الزام لگایاکہ امدادی ادارے کے منصوبے میں سیاسی بنیادوں پر منصوبوں کی تقسیم کرائی گئی جس کی وجہ سے یہاں پر کوئی منصوبہ نہیں کریا گیا۔
خیبر چوک میں تیراہ کے لئے ایک نیا اڈہ قائم کیاگیا ہے تاہم ابتک کسی بھی سرکاری ادارے کے جانب سے ان کو اجازت نامہ جاری نہیں کیا گیا ہے۔ یہ انتہائی محدود جگہ ہے جہاں پر بنیادی سہولیات میسر کرنا ممکن ہی نہیں۔
امدادی ادارے کے اس منصوبے کے تحت مختلف مارکیٹ میں بنیادی سہولیات مہیا کرنے کے لئے اقدامات کرائے گئے جن میں میران خیل مارکیٹ میں چار وش رومز اور ٹھنڈے پانی کے لئے تین واٹر کولر نصیب کرائے گئے۔ ملک خیلوں مارکیٹ میں دو واش رومز اور دو واٹر کولرجبکہ قیوم خیلوں مارکیٹ میں چار واش رومز، پانی ذخائرہ کرنے کے لئے پلاسٹک کے چار بڑے ٹینک، اور ٹیوب کے لئے شمسی توانائی کی سہولت مہیا کی گئے ہیں۔ مینار مسجد کے قریب جان پلاز ے میں خواتین کے لئے چار واش رومز، واش بیسن لگائے ہیں۔ گل پلازے میں دو واٹر کولر نصیب کیں گئے جبکہ ٹیوب لگانے کے لئے مناسب جگہ نہ ہونے کی وجہ سے خیبر چوک میں شیخان مسجد کو شمسی توانائی سہولت مہیاکرکے پانی کی کنکش مارکیٹ کو فراہم کیاگیا۔
اس منصوبے میں باڑہ بازار سے مغرب کے جانب کوھی چوک میں سولہ مارکیٹوں میں خواتین کے لئے آٹھ واش روم،مارکیٹس میں گلیوں کے مرمت اورجگہ ہال کے لئے ٹیوب ویل اور شمسی توانائی پلانٹ نصیب کیاگیا ہے۔ یہاں سے مزید چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع قبیلہ کمرخیل کے تجارتی مرکز بازگھڑ میں چھ واش رومز، ایک ٹیوب و شمسی توانائی پلانٹ اور چھ واٹر کولرز لگائے گئے تھے۔ ان تمام منصوبوں پر پندرہ سے بیس کروڑ روپے خرچ کیں گئے۔
ٹرانسپورٹ ریگولیٹرٹی اتھارٹی(آر ٹی اے)کے جانب سے آڈے کے اجازت نامے کے لئے جو شرائط لازمی ہیں اُن چار کنال زمین، پینے کا پانی، نکاس اب، خواتین و مرودوں کے لئے الگ الگ انتظار گاہ واش رومز اور مسجد جیسے بنیادی سہولیات ہونا لازمی ہے۔
انجمن تاجران باڑہ کے صدر علی محمد آفریدی نے کہاکہ باڑہ بازار میں چھ ہزار دکانیں اور پندرہ سے زیادہ اڈے موجود ہیں جبکہ کچھ آڈے مناسب مقامات پر نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو مسائل کا سامنا ہے اور اس حوالے سے ضلعی انتظامیہ اور متعلقہ محکموں کو بار بار شکایت کے باوجود بھی اس میں کوئی مثبت اقدام نہیں اُٹھایا گیا۔ اُنہوں نے کہاکہ غیر سرکاری تنظیموں کے جانب سے باڑہ بازار میں مختلف منصوبوں پر کام کیا گیا ہے تاہم جن منصوبوں میں تاجر برادری کو مشاورت میں شامل نہیں کیاگیا تو اُن منصوبوں کا وہ فائدہ سامنے نہیں ملنا چاہیے تھا۔ اُن کے بقول بعض مارکیٹس میں واش رومز کی تعمیر اور فرش بندی کرائی گئی جن کے دیکھ بال کے باقاعدہ طور پر مارکیٹ کے سطح پر کمیٹی بنایاگیا ہے تو اُس سے لوگوں کو فائدہ مل ہے لیکن اس کے برعکس بہت سے منصوبے سیاسی بنیادوں پر کرائے گئے ہیں جن تاجر برادری اورمسافروں کو کوئی فائدہ نہیں۔
باڑہ بیوٹیفیکیشن منصوبے کے تحت باڑہ اور دیگر قریب تجارتی مراکز میں چار کروڑ روپے سابق دور حکومت میں خرچ کرنے تھے۔ یہ منصوبہ تحصیل مونسپل کمیٹی کے زیر نگرانی شروع ہوا تھا جن میں اب تک دو کروڑ روپے خرچ کیں گئے ہیں تاہم نگران حکومت کے دور میں فنڈ کے منتقلی بند کردی گئی جس کے وجہ سے ابتک یہ منصوبہ مکمل نہیں کیا جاسکا۔
ٹرانسپورٹ ریگولیٹرٹی اتھارٹی(آرٹی اے) خیبر پختونخوا کے آفس اسیسٹنٹ زبیر حسین باڑہ میں قائم اڈوں کا نگران ہے۔ اُنہوں نے رابطے پر بتایاکہ جلدباڑہ میں قائم تمام اڈوں کے معائنہ کیاجائیگا اور اس بات کو یقینی بنایا جائیگا کہ عوام کو بنیادی سہولت میسر ہوں۔ اُن کے بقول بنیادی سہولیات کے کمی کے کافی زیادہ شکایت موصول ہورہے ہیں۔ اُن کے بقول تمام سہولیات کو میسر کرنے کے لئے ایک ۔ اُنہوں نے کہاکہ باڑہ میں دو مسافر اڈوں کو آر ٹی اے کے جانب سے اجازت نامہ جاری کردیا گیا ہے جبکہ کو قانونی دائر ے میں لانے کے لئے اقدامات کیں جائینگے۔ جن دو آڈوں آرٹی اے کے جانب سے اجازت نامے جاری کردئیے گئے۔
تحصیل میونسپل ایڈمنسٹیریشن (ٹی ایم او) باڑہ کے مطابق پوری باڑہ بازار میں سولہ سٹینڈ قائم ہے تاہم ان میں ایک کو بھی ٹی ایم او کے جانب سے اجازت نامہ جاری نہیں کردیاگیا ہے جس کے وجہ سے اڈوں میں بنیادی سہولیات کو یقینی بنانے براہ راست ان میں مداخلت کی مجاز نہیں۔ ادارے نے باڑہ میں تمام اڈے اور گاڑیوں کے سٹینڈکو غیر قانونی قرار دئیے اور موقف اپنا یا کہ جب تک ٹی ایم او ان اڈوں کے لئے الگ عمارت تعمیر نہیں کرتے یہ نظام اسطرح ہی رہے گا۔
علی محمد نے کہاکہ بس ٹرمینل کے تعمیر اور وہاں پر تمام اڈوں کے منتقلی سے لوگوں کے مسائل کم ہونے کے بجائے اضافہ ہوگا کیونکہ اُن اڈے میں ضروریات کی سامان سمیت پہنچنے کے لئے اُن کو رکشہ یا دوسرے گاڑی کو اضافی کرایہ ادا کرنا ہوگا جبکہ بہتر یہ ہے کہ موجودہ وقت میں باڑہ میں ایک بڑی تعداد میں مارکیٹس غیر آباد پڑے ہیں جن میں آڈوں کو قائم کرکے لوگوں کو روزگار کے مواقعیں میسر آئینگے۔