تحریر: سدھیر احمد آفریدی
چونکہ طورخم بارڈر ضلع خیبر کی حدود میں ہے اور ہمارا اپنا علاقہ ہے اس لئے وہاں تقریباً ہر چیز اور ہر سرگرمی براہ راست ہمارے مشاہدے میں آتی ہے یا مقامی لوگ اور ذرائع بتاتے ہیں جو کچھ وقوع پذیر ہوتا ہے درجنوں کے حساب سے کالمز لکھ کر طورخم بارڈر پر مسافروں، عام لوگوں، مزدوروں اور ٹرانسپورٹروں کو درپیش مسائل اور ان کے حل پر اپنی آراء اور تجاویز پیش کیں ہیں لیکن متعلقہ حکام کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی ہے صرف طورخم بارڈر پر اگر آسانی اور سہولیات فراہم ہوں تو بڑی حد تک پاکستان افغان عوام کے دل جیت سکتا ہے لیکن میں نہیں سمجھتا کہ اتنی سختی کا فائدہ کیا ہوگا ویسے یہ ایک حقیقت ہے کہ قیام پاکستان سے قبل سے لیکر چند سال پہلے تک طورخم بارڈر پر دونوں ممالک کے عوام کو اتنی مشکلات درپیش نہیں تھیں جتنی آج ہیں کہیں ویزہ تو کہیں افغان تذکرہ اور افغان سیٹیزن کارڈ پر لوگ جاتے ہیں لیکن واپس اگر افغان شہری پاکستان آنا چاہے تو پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر یہ عمل انتہائی مشکل ہے الایہ کہ وہ سخت بیمار ہو اور علاج کے حوالے سے قانونی دستاویزات رکھتا ہوں اور پاکستانی چاہے وہ مقامی قبائلی ہو یا کوئی اور بغیر پاسپورٹ اور ویزے کے جانے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تاہم پہلے ایسا نہیں تھا پہلے طورخم بارڈر دونوں ممالک کے عوام کے لئے روزگار کا وسیلہ تھا، آمدورفت کوئی مسئلہ نہیں تھا ایک خاصہ دار دو کھڑے ہوتے تھے جو کسی کو رات گئے آنے سے بھی منع نہیں کرتے تھے صرف زنجیر نیچے کرکے آنے اور جانے کی اجازت دیتے تھے اور یہ منظر ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے خوشحالی تھی کوئی ٹینشن نہیں ہوتی تھی طورخم بارڈر پر کبھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش ہی نہیں ہوتا تھا ہاتھ میں سامان لانے اور لیجانے پر کوئی پابندی نہیں تھی لیکن آج صورتحال مختلف ہے ہم مقامی باشندے بھی طورخم بارڈر پر تعینات درجنوں اداروں کے اہلکاروں کو جانتے تک نہیں آج ایک تو کل دوسرا بندہ کھڑا ہوتا ہے جن کے ساتھ کوئی شناسائی نہیں بنتی اور پھر ایف سی،ایف آئی یو اور ایف آئی اے کے اہلکاروں کو جاننا یا ان کے ساتھ تعلق بنانا جوئے شیر لانے کے برابر ہے اور تعلق بنانا ان کے فائدے میں بھی نہیں کیونکہ پھر ان کو بغیر رشوت کے سفارش کی بنیاد پر کام کرنا پڑتا ہے جو کہ وہ نہیں چاہتے مگر افغان بھائیوں کا خیال ہوتا ہے کہ چونکہ ہم مقامی لوگ ہیں اس لئے ہماری بات ہر کوئی مانتا ہے اور جس کی سفارش کریں وہ مسترد نہیں ہوگی لیکن اب ایسا نہیں ہم اپنے علاقے میں پرائے ہو گئے ہیں کوئی مجبور اور ضرورت مند افغان بھائی یا کوئی بہن ہماری جائز سفارش پر جا سکتا ہے اور نہ ہی آسکتا ہے اب طورخم بارڈر پر بااختیار پولیٹیکل انتظامیہ بھی موجود نہیں اب تو انضمام نے سب کچھ پر پانی پھیر دیا ہے خیر کی جگہ نقصان ہی نقصان برآمد ہوا ہے اس لئے اب اگر کوئی افغان شہری آنے جانے میں مشکل اور دقت محسوس کریں تو اگر غریب ہے تو اللہ سے دعا یا بد دعا مانگیں تاکہ اس کا کام ہو سکے اور اگر سرمایہ دار ہے بھاری رشوت دینا برداشت کر سکتا ہے تو کسی کی سفارش کی کوئی ضرورت نہیں مقامی لوگوں کو بھی سفارش ڈھونڈنے کی زحمت نہ دیں بس انسانی اسمگلرز ہر جگہ طورخم کے دونوں طرف موجود ہوتے ہیں ان سے سیدھی بات کریں جتنا وہ مانگتا ہے وہ پیش کریں اور کوئی ڈاکومنٹ دکھائے بغیر جائیں انسانی سمگلرز ہر جگہ بھی دستیاب ہوتے ہیں یہ تو میں طورخم بارڈر کی بات کرنے لگا ہوں انسانی اسمگلرز پیسے لیکر آپ کو امریکہ اور یورپ تک لیکر جا سکتے ہیں لیکن ہمیں یورپ اور امریکہ کی فکر دامن گیر نہیں بلکہ ہم طورخم بارڈر پر آسانی پیدا کرنے کی بات کرتے ہیں تاکہ پاک افغان شہری مشکلات سے دوچار نہ ہوں اگر ہم دیوار چین بھی کھڑی کر دیں تو افغانوں کو پاکستان آنے سے منع کر سکتے ہیں اور نہ ہی روک سکتے ہیں راستے بند کر دئے تو دریا کابل میں چھلانگ لگا کر بھی آئینگے اس لئے ان کو سینے سے لگانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ طورخم بارڈر کے راستے آنے جانے کے لئے انسانی اسمگلروں کے ہتھے نہ چڑھ جائیں اور ان کو بھاری رشوت نہ دینا پڑے اور یہ بھی ایک سچائی ہے کہ طورخم بارڈر پر انسانی اسمگلرز لاکھ،ڈیڑھ لاکھ یا اسی ہزار روپے ایک بندے کے لیکر اکیلے ہڑپ نہیں کر سکتا انسانی اسمگلرز نادرا پوائنٹ پر تعینات پولیس اہلکاروں سے لیکر کام کے مجاز آخری حد تک تمام متعلقہ افراد میں ضرور حصہ بقدر جثہ تقسیم کرتے ہونگے اور اس طرح انسانی اسمگلروں اور متعلقہ سرکاری اہلکاروں کے وارے نیارے ہیں کوئی انسانی سمگلر اکیلے کچھ نہیں کر سکتا ایک پوری چین اور زنجیر ہے جس کی کڑیاں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں اس صورتحال کا علم اس وقت ہوا جب پشاور میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ گزشتہ چالیس سالوں سے رہائش پذیر ایک باعزت افغان شہری کی زبانی یہ داستان سنی جنہوں نے دوستوں کے ذریعے
سفارش ڈھونڈنے کی کوشش کی تاکہ وہ اپنے بھتیجے کو واپس پاکستان لا سکے لیکن ناکام ہوئے پھر انہوں نے کسی انسانی اسگلر یا ایجنٹ کو لاکھ کے قریب روپے دیکر وہی کام کیا جو ان کے دوست سفارش کی بنیاد پر نہ کر سکے یہ ایک مثال ہے اس طرح طورخم بارڈر پر روز ہوتا ہے طورخم نادرا پوائنٹ اس حوالے سے بہت بدنام جگہ بن گئی ہے اب طورخم بارڈر مال بردار گاڑیوں میں اسمگلنگ کرنے والوں اور انسانی اسمگلروں کے لئے منافع بخش رہ گیا باقی ہر کوئی ذلیل ہو کر رہیگا۔
خدا کے عاشق تو ہيں ہزاروں ، بنوں ميں پھرتے ہيں مارے مارے
ميں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پيار ہو گا

دوتانی ڈیجیٹل
رضا دوتانی ڈیجیٹل میڈیا ایکسپرٹ پے جو میڈیا اور صحافت سے وابستہ افراد اور اداروں کو جدید ڈیجیٹل سروسز مہیا کرتا ہے اور جدید طرز کی ویب سائٹس بناتا ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں