عاصمہ گل

چالیس سالہ گل محمد (فرضی نام) لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور میں مریضوں کے استعمال شدہ گند کو ٹھکانے لگانے کا کام کررہاہے تاہم چھ سال پہلے ایڈز کی تشخص کے بعد وہ اپنے ہی ہسپتال میں رجسٹرڈ ہے اور باقاعدگی سے ادویات استعمال کررہے ہیں۔ اُنہوں نے کہاکہ ایک دن سبز رنگ کے ڈرم جس میں عام استعمال کے چیزیں ڈال دئیے جاتے ہیں کوخالی کررہاتھا کہ اُس میں استعمال شدہ سرنج اور خون آلودہ بلیڈزوارڈ کے عملے نے ڈال دئیے اور میرے ہاتھوں پر دستانے نہ ہونے کی وجہ سے میرے انگلیاں اُس سے زخمی ہوگئے۔اُن کے بقول اس نے یہ معمول سمجھ کر پانی اور سپرٹ سے ہاتھ صاف کرکے پٹی لگائی تاہم وقت کے ساتھ جسمانی کمزوری ا اور بخار ہونا شروع ہوا۔ اُن کے بقول بعد میں ٹیسٹ کرانے کے بعد معلوم ہوا کہ میں ایڈز بیماری سے متاثر ہوچکا ہوں۔

تیمور شہزاد خیبر تدرسی ہسپتال پشاور میں فیسلیٹی منیجر کے حیثیت سے کام کررہاہے۔ اُنہوں نے کہا کہ روزانہ تقریباً تین مختلف شعبوں میں دس ہزار سے زیادہ مریض علاج کے لئے آتے ہیں اور ہسپتال میں پیدا ہونے والے فضلہ کی مقدار کا انحصار بھی مریضوں کی تعداد پر ہے۔ اُن کے بقول فضلہ کے حوالے سے ہسپتال میں ایک منظم نظام موجود ہے جس کے مطابق روزانہ آٹھ سو کلو گرام خطرناک جبکہ سترہ سو کلوگرام میونسپل فضلہ پید ا ہوتا ہے۔ اُن کے بقول پچھلے تین سالوں سے خطرناک فضلہ کو ٹھکانے لگانے کے لئے ایک کمپنی کو ماہانہ پندرہ لاکھ روپے ادا کیں جاتے ہیں جبکہ میونسپل فضلہ اُٹھانے کا معاہدہ واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروسز پشاور( ڈبیلو ایس ایس پی) کے ساتھ ہے۔

طبی فضلہ نہ صرف طبی مراکز کے ملازمین اور کباڑ کے کاروبار کرنے والے لوگوں کے لئے خطرہ ہے بلکہ ماحول کو آلودہ کرنے کا بھی سبب بن رہا ہے۔ ماحول کی حفاظت ایکٹ (انوائر مینٹل پروٹیکشن ایکٹ 1997) کے تحت سرکاری اور نجی طبی چھوٹے بڑے مراکز سے خارج ہونے والے فضلہ کو باحفاظت ٹھکانے لگانے کے لئے ویسٹ منیجمنٹ رولز بنائے گئے ہیں۔ اس عمل کی نگرانی کی قانونی ذمہ داری صوبے میں انوائرمینٹل پروٹکیشن ایجنسی (ای پی اے)کے پاس ہوتاہے۔ خیبر پختونخوا میں اس ادارے کے رمضان علی ریسرچ ڈوپلیمنٹ اینڈکورڈنیشن سیل کے انچارج ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ ہر سرکاری اور نجی طبی مرکز سے ہر قسم کے خارج ہونے والے فضلہ کی چھان بین کیاجاتاہے تاکہ ماحول کو اُس سے کوئی نقصان نہ پہنچے۔ اُن کے بقول ہرایک طبی مرکز میں نیلا، سرخ اورزرد رنگ کے تین الگ الگ کے کوڑے دان نصب کرنا لازمی ہے اور ہر ایک میں الگ الگ نوعیت سے کوڑا ڈالا جاتاہے اور بعد میں اُس کو طریقہ کار کے مطابق ٹھکانے لگایاجاتاہے۔اُنہوں نے کہاکہ نیلے رنگ کے کوڑے دان میں مونسپل کوڑا جن میں مشروبات کے بوتلیں، شاپنگ بیگ اور کاغذات شامل ہے، سرخ رنگ کے کوڑے دان میں علاج کے دوران تیز دھار آلات ڈالے جاتے ہیں جن میں ٹوٹی ہوئی بوتلیں، انجکشنز، شیشے،بلیڈز، فلاسک اور ٹیسٹ ٹیوب جبکہ زرد رنگ کے کوڑے دان میں جراثم آلودہ مواد ڈالے جاتے ہیں جن میں بلڈ بیگ، دستانے، پٹیاں، کپڑااور ڈراپ شامل ہیں۔

پچیس سالہ افغان مہاجر سلطان محمد کے گھرکے کمائی کا ذریعہ ضلع پشاور کے بڑے رہائشی بستی حیا ت آباد رنگ روڈ کے قریب برساتی نالے میں ڈالے جانے والے فضلہ سے قیمتی ایشاء آکٹھا کرکے بھیجنا ہے۔ اُس کی کمائی تب زیادہ ہوتی ہے جب اُن کو ہسپتالوں اور کلینکس کے فضلا ہاتھ لگ جائے۔ اُنہوں نے کہاکہ استعمال شدہ سرنج، ڈرپ اور تیزدار آلات 160روپے کلو جبکہ گتہ، کاغذ اور پلاسکٹ چالیس سے ساٹھ روپے کلو بھجتے ہیں۔ اُن کے بقول کچھ عرصہ قبل رات کے تاریکی میں لوگ گاڑی میں یہاں پر گند کے ڈھیر میں طبی فضلہ ڈال دیتے تھے جس سے ہم اپنے ضروریات کے چیزیں آکٹھے کرلیتے تھے لیکن وقت کے ساتھ اس میں کمی آئی ہے تاہم جہاں پر پرائیوٹ کلینکس اور لیبائرٹرزموجودہیں وہاں پر استعمال شدہ طبی آلات گندگی کے ڈبوں سے باسانی ملتے ہیں۔

محمد اللہ پچھلے پچیس سال سے اندرونی شہر پشاور کے گنجان آباد علاقہ شاہ ڈھنڈ میں کباڑ کے کاروبارکررہاہے۔ وہ گتہ، کاغذ، پلاسکٹ، سرنج اور ڈراپ خریدتے اور آگے اُس کو کارخانو ں پر بھیجتے ہیں جو ان کو پوری عمل سے گزار کر دوبارہ مختلف اقسام کے چیزیں تیار کرتے ہیں۔اُنہوں نے بتایاکہ استعمال اور ردی چیزیں شہر کے مختلف علاقوں سے لوگ آکٹھے کرکے لاتے ہیں جبکہ ہسپتال کے زیر استعمال چیزیں اُن علاقوں سے آتے ہیں جہاں پر کلیکنس یا ہسپتال موجود ہو۔اُن کے بقول وقت وہ ہفتے میں پانچ سے چھ سوکلو استعما ل شدہ طبی آلات 160روپے فی کلو خریدکر اُس میں چھان کرکے اُس کو آگے210 فی کلوبھجتے ہیں تاہم اس کام کے دوران متاثر چیزوں سے زخمی ہونے اور بیماری لگنے کا خطرہ ہوتاہے۔

پشاور ڈبگری گارڈن میں سینکڑوں کی تعداد میں نجی کلنکس اور ہسپتال موجود ہے۔ ایک نجی ہسپتال میں کام کرنے والے شخص نے نام نہ ظاہر کرنے کے شرط پر بتایاکہ دوران علاج استعمال شدہ چیزیں یہاں پر کام کرنے والے عملے کے لوگ جمع کرکے کباڑوالے کو بھیج دیتے ہیں جبکہ کچھ چیزیں کوڑے دان میں ڈال کر وہاں سے بچے جمع کرکے آگے بھیج دیتے ہیں۔

جاوید علی پندرہ سالوں سے کباڑ کی چھانٹی کا کام کررہاہے۔اُنہوں نے کہاکہ دو سال پہلے اُن کو ہیباٹاٹیس سی ہوا تھا اورشدید تکلیف کا سامنا کرناپڑا۔ اُن کے بقول وہ گودام میں طبی فضلہ کے چھانٹی میں کام کے دوران کئی بار استعمال سرنج سے زخمی ہوا تھا اور پوری علاج کے بعد اب صرف پلاسکٹ کے عام کباڑ اور کاغذ کے چھانٹی کا کام کررہاہے۔

رمضان نے بتایا کہ ہر ایک بڑے طبی مرکز کو قانون کے مطابق انسینیریٹرنصب کرنا لازمی ہے جن میں مونسپل فضلہ کے علاوہ باقی کو جلاکر راکھ میں تبدیل کیاجاتاہے تاہم اگر کسی بھی مسئلے کے بناء پر ہسپتال کے ساتھ اپنا نظام موجود نہ ہو تو باہر کسی نجی کمپنی کے ساتھ معاہد ہ کرکے انتظام کرونا ہوگا۔ اُنہوں نے کہا کہ ای پی اے اس پوری عمل کی نگرانی کرتاہے تاکہ کہی پر عفلت نہ برتی جائے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ آگر ہسپتال میں فضلہ ٹھکانے لگانے کا انتظام ہو یا یہ عمل کسی کمپنی سے کراتاہوتو دونوں صورتوں میں ای پی اے کو ریکاڈ مہیا کرنا لازمی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ پیدا شدہ فضلہ کو مکمل طورپر ٹھکانے لگایاگیا ہے یا نہیں۔اُنہوں نے کہاکہ پشاور میں صوبے کے تین بڑے حیات آباد میڈیکل کمپلکس اور لیڈی ریڈنگ میں اپنا انسنیر یٹرموجود جبکہ خیبر تدرسی ہسپتال موجودہ وقت میں ایک کمپنی کے خدمات حاصل کررہاہے تاہم اُن کے مشنری پہنچ چکی ہے اور جلد وہ کام شروع کریگا۔بڑے نجی ہسپتالوں میں فضلہ کو ٹھکانے کی عمل پر بھی کھڑی نگرانی کیاجاتاہے۔

پشاور کے ایک بڑے نجی ہسپتال کے ذرائع نے بتایاکہ ماہانہ ساڑھے چھ ہزار کلو گرام طبی فضلہ پیدا ہوتاہے جن کو ضائع کرنے کے لئے ایک کمپنی کو 135روپے فی کلو معاوضہ دیاجاتاہے۔ اُن کے بقول ای پی اے کے طرف سے ہسپتال میں انسینریٹرنصب کرنے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ اس سے خارج ہونے والی آلودگی انسانی زندگی کے لئے خطرناک ہے۔

تیمور شہزاد کاکہنا ہے کہ تین سال پہلے خیبر تدرسی ہسپتال میں فضلہ کوانسینریٹرمیں جلانے سے پید ا ہونے والے آلودگی کے بارے میں ای پی اے نے یونٹ کو بند کرنے حکم جاری کیا جس کے خلاف عدالت میں کیس دائر کیاگیا اور فیصلہ ہسپتال کے حق میں آیا ہے تاہم مشنری کافی پرانی ہونے اورمارکیٹ میں اس کی پرزے ناپید ہونے کی وجہ سے اُن کو دوبارہ فعال کرنے کے بجائے آٹھارہ کروڑ کی لاگت سے بیرونی ملک سے جدید مشنری درآمد کرکے کئی ہفتے پہلے ہسپتال پہنچ چکی ہے۔

طبی مراکز سے اخراج ہونے والے فضلہ کے خلاف کس قانونی کے تحت کاروائی ممکن
ای پی ایمعمول کے مطابق پوری صوبے اور خصوصاً پشاور میں سرکاری اور نجی طبی مراکز کے نگرانی کرتاہے۔ رمضان کے مطابق کسی بھی قسم کے شکایت کے صورت میں متعلقہ مقام کا معائنہ کیاجاتاہے اور آگر کوئی مسئلہ موجود ہو تو ذمہ داران کو ہائیرنگ نوٹس جاری کرکے اُن کو اپنے وضاحت پیش کرنے کا موقع دیاجاتاہے۔ اُن کے بقول اگر تسلی بخش جواب ملتاہے تو نوٹس کو اُس وقت ہی منسوح کردیا جاتاہے اور دوسرا نوٹس جاری کرکے ایک ماہ کے مدت میں مسئلہ ختم کرنے کو کہاجاتاہے اور اس دروانیہ میں بھی شکایت دورنہیں کیاجاتاہے تو قانونی اختیار کے مطابق پچاس ہزار سے ستر ہ ملین تک جرمانہ کیاجاسکتاہے۔ادارے کے مطابق عموماًنجی ہسپتالوں میں ایڈمنسٹریشن کا حصہ سیل کیاجاتاہے تاکہ مریضوں کے علاج میں کوئی خلل نہ آسکے۔

لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کے ترجمان عاصم خان کے مطابق ہسپتال میں روزانہ نو سے دس ہزار لوگ طبی سہولیا ت کے حصول کے لئے آتے ہیں جوکہ صوبے کے سطح پر سب سے بڑی تعداد ہے۔ اُن کہناہے کہ دیگر مسائل کے ساتھ ہسپتال میں پیدا ہونے والا فضلا بھی ہے جس کو سائنسی طریقے سے تلف کرنے کے لئے جدید انسینر یٹر مشنری موجود ہے جوکہ ایک گھنٹے میں پانچ سو گلوگرا م فضلا ء جلنے کی صلاحیت رکھتاہے اور چوبیس گھنٹے کام کرتاہے۔اُن کے بقول ہستپال ماہانہ 34ہزار کلوگرام فضلا خارج کرتاہے۔

طبی فضلاء کے نقصانات
ڈاکٹر عائشہ مقبول پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائینسز (پیمز)کے میڈکل شعبے میں کا م کررہی ہے۔اُنہوں نے کہاکہ عالمی طبی اصولوں کے مطابق ہسپتال اور کلینکس میں زیر علاج افراد کے لئے استعما ل شدہ تمام چیزوں کو محفوظ طریقے سے تلف کرنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ ان طبی فضلے سے ایک صحت مند بندے کو خطرناک مسئلہ ہوسکتاہے۔اُنہوں نے کہاکہ یہی فضلہ بازاروں میں لوگ جمع کرکے اُن کی چانٹی کرکے ایک جگہ سے دوسرے جگہ منتقل کرتے وقت خون آلودہ تیز دار اور نوکیلوں چیزوں سے زخمی ہونے کے بہت مواقعیں ہوتے جو یرقان، ایڈز اور دیگر خطرناک بیماریوں کا باعث بن سکتے ہیں۔
رمضان علی کے مطابق ای پی اے طبی مراکز کے فضلے کو آگر صحیح طریقے سے تلف نہیں کیاجاتا تو یہ انسانی زندگی کے لئے براہ راست خطرناک ہے جبکہ اس کو کھلے فضاء میں ڈالنے سے ہوا اور پانی کو متاثر کرکے انسان اور جانو ر کے لئے خطرے کا باعث بن سکتاہے۔اُنہوں نے کہاکہ ان تمام مسائل کو مدنظر رکھ کر ای پی اے اس عمل کی سختی سے نگرانی کررہے ہیں تاکہ اس میں کہی کوئی کو تاہی سامنے نہ آئے۔

انسینر یٹر کیا ہوتاہے
عاصم خان کے مطابق یہ ایک بڑی مشنری ہے جوکہ فضلے کو تین مرحلوں میں جلا کر رکھ بناتی ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ انسینر یٹرمیں بیک وقت پانچ سو کلوگرام فضلہ ڈال دیا جاتاہے اور پہلے مرحلے میں تین سو درجہ سنٹی گریڈ تک درجہ حرارت پہنچایا جاتاہے اور جبکہ مرحلہ وار طریقے سے سترہ سوڈگری تک پہنچ کر تمام مواد راکھ بن کر اُس کو نکل کر عام گند کے ڈرم میں ڈال دیا جاتاہے جوبے ضرر ہوتاہے۔اُن کے بقول لوہے سمیت تمام چیزیں بالکل ختم ہوجاتے ہیں۔ اُنہو ں نے کہاکہ انسینر یٹرسے خارج ہونے ولے آلودگی کو ماحول دوست بنانے کے لئے اُس میں کیلشم بائی کاربونیٹ استعمال کیاجاتاہے۔

ٹائم لائن اردو ٹیم
ٹائم لائن اردو کے رپورٹرز، صحافی، اور مصنفین پر مشتمل ٹیم

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں