
پشاور کے سب سے بڑے رہائشی علاقے حیات آباد کے مغرب میں تیرہ کلومیٹر کے فاصلے پر ضلع خیبر کے تحصیل جمرود کے علاقے جبہ کے پچیس سالہ جاوید کے شادی اس وجہ سے تاخیر کاشکار ہے کہ حکومت نے 2009سے پوری علاقے میں نئے تعمیرات پر پابندی لگائی ہے اور اُن کاگھر میں الگ کمرہ نہیں۔ اُنہوں نے بتایاکہ یہ پابندی ڈیم کے تعمیر کر نے کی وجہ سے لگایاگیا۔اُنہوں نے کہاکہ پچھلے پندرہ سالو ں میں کسی نے گھر یا گھر میں تعمیر نہیں کرائی ہے۔
چار اگست 2008کے سیلاب نے جبہ گاؤ ں جو پشاور کے رہاشی علاقے حیات آباد کے مغرب کے جانب تیراہ کلومیٹر جبکہ جمرود بازار کے جنوب میں بارہ کلومیٹر کے فاصلے پر جبہ ڈیم واقعہ ہے کو بری طرح متاثر کردیا تھا۔ گھر، زرعی زمین، قبرستانیں، باغات، پن چکی، سڑک سب کچھ پانی کے نظر ہوا۔ برساتی نالے کے قریب جمرد اور پشاور کے کچھ علاقے میں متاثر ہوئے تاہم مستقبل میں سیلاب کے نقصانات کو کم کرنے اور سیلاب کے پانی کو ذخیرہ کر نے اور اُن کو استعمال میں لانے کے لئے فاٹاڈوپلیمنٹ اتھارٹی نے 2009میں یہاں پر ڈیم بنانے کے فیصلہ کرلیا تھا۔ علاقے میں سیکشن فور نافذکرکے نئے تعمیرات پر پابندی لگادی گئی۔ طویل انتظار کے بعد محکمہ آپبائشی اور تعمیرات کے جانب سے پچھلے سال کے اوئل کے ڈیم کے تعمیر کے لئے باقاعدہ ٹینڈر کروایاگیا۔ مقامی آبادی کا مطالبہ ہے کہ جب تک اُن کوزمینوں،جائیداد کے بہتر معاوضے اور قبرستانوں کے منتقلی کے لئے موثر اقدامات نہیں کیں جاتے تب تک منصوبے کے تعمیر کی اجازت نہیں دی جائیگی۔
جبہ ڈیم کے متاثرین کے بتیس رکنی کمیٹی کے سربراہ حاجی منظور آفریدی نے کہاکہ ہمارا مطالبہ واضح ہے کہ ضلعی انتظامیہ اور دیگر متعلقہ ادارے جبہ ڈیم کے حوالے مقامی آبادی کو اعتماد میں لیے بغیر کوئی اقدام نہ کریں کیونکہ ہم پچھلے پندرہ سالوں سے بنیادی سہولت کے بغیر انتہائی مشکل زندگی گزررہے ہیں۔ اُنہوں نے کہاکہ ڈیم کے تعمیر کافیصلہ ہو چکا ہے تاہم مقامی آبادی کو اُن کے گھروں اور زمینوں کے معاوضوں کے حوالے کچھ نہیں کررہاہے اور اپنے طرف سے فیصلے کررہے جوکہ کسی بھی قیمت پر مقامی آبادی ماننے کو تیار نہیں۔ اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ ایک ہزار ایکڑ سے زیادہ زمین، ایک ہزار گھر، تین قبرستانیں، پرائمری سکول، مڈل سکول، گرلز کمیونٹی سکول،بنیادی صحت کا مرکزاور ویٹر نری ہسپتال ڈیم کے حدودو میں واقع ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ حکومت کے ساتھ مذکرات کاعمل جاری ہے تاہم اُس وقت کام شروع کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی جب تک مقامی آبادی کے خدشات دور نہیں کی جاتے۔
جبہ ڈیم کے پروجیکٹ ڈائریکٹر سے منصوبے کے تعمیر اور اس کے اہمیت کے حوالے معلومات کے لئے رابطہ کیاگیا تاہم اُنہوں نے کسی بھی قسم کے معلومات دینے سے انکارکردیا۔ معلومات تک رسائی کے قانون 2013کے تحت 29نومبر کو محکمہ آپباشی خیبر پختونخوا کو درخواست جمع کردی ہے تاحال اُ ن کے طرف سے باقاعدہ کوئی جواب موصول نہیں ہوسکاہے۔ لوگ سجاگ کو منصوکے حوالے سے دوسرے ذرائع ہے دستاویزات موصول ہوچکے ہیں جس کے مطابق منصوبے کا ابتدائی سروے کا آغاز فاٹاڈوپلمنٹ اتھارتی نے 2008 میں کیاتھا جبکہ 2018 میں اس کی تفصیلی ڈیزائن تیا ر کیاگیا ہے۔ 2019 میں منصوبے کے تعمیرا کا تحمینہ 9906.485 لگایا جبکہ اگست 2022 میں 8706.934 ملین روپیہ کی منظور ی دی گئی۔ چارسالہ منصوبے کے جنوری 2024 میں باقاعدی ٹینڈر ہوئی جبکہ متعلقہ کمپنی کو نومبر میں کام کا اجازت نامہ جاری کردیا گیا ہے۔دستاویز کے مطابق مقامی آبادی کو زمین کے معاوضے کے لئے 741.266 ملین روپے محتص کردئیے گئے ہیں جن میں فاٹا ڈوپلمنٹ اتھارٹی نے 2018 سے پہلے ادا کردیا ہے جبکہ 19.38 ملین پچھلے سال مئی میں، 48.96 ملین ستمبر میں اد ا کرکے ٹوٹل 254.94 ملین روپے ادا کردیاگیا ہے جبکہ باقی 486 ملین روپے مرحلہ وار ادا کردیا جائیگا۔مذکورہ رقم ضلع خیبر کے ڈپٹی کمشنر کے اکاونٹ منتقل کردیا گیا ہے تاہم مقامی افراد میں سے کسی نے وصول نہیں کیاہے۔
کمیٹی کے ممبر سید نظیر آفریدی نے زمین کے رقم کے ادئیگی کے مدمیں جاری اعداد شمار کے بارے میں موقف اپنا یاکہ علاقے میں کسی نے ایک روپیہ بھی وصول نہیں کیا ہے جس کی بنیادی وجہ گھروں کے 2022میں سروے ہوا تھا اور رقم مقرر کی گئی تھی جبکہ موجودہ وقت میں مہنگائی کافی بڑھ چکے اور دیا جانے والے رقم کم ہے۔ اُن کے بقول زرعی اور بنجرزمینوں کی ایک تو پیمائش کم لی گئی جبکہ دوسرا اُن کا ریٹ بھی بہت کم ہے۔اُنہوں نے کہاکہ کمیٹی نے فیصلہ کرلیا ہے۔
حکومت نے سروے میں چارسو بیاسی کنال زمین شامل کردیا ہے جبکہ مقامی لوگ کہتے کہ یہ رقبہ اس زیادہ ہے کیونکہ ڈیم کے کیچمنٹ ایریا پانچ سو بارہ مربع کلومیٹرہے۔ سروے میں چار سو پندرہ گھر شامل کیں گءے ہیں۔ ڈیم کے حدود میں تین قبرستانیں، پرائمری سکول، مڈل سکول، گرلز کمیونٹی سکول،بنیادی صحت کا مرکزاور ویٹر نری ہسپتال ڈیم کے حدودو میں واقع ہے۔ چار سو سترہ گھروں کو سروے میں شامل کردیا گیا جبکہ ساٹھ کے قریب مقامی باشندے یہ شکایت کررہے ہیں کہ اُن کے گھروں کے سروے میں شامل نہیں کیاگیا ہے ۔ کمیٹی کا حکومت سے ان گھروں کو بھی شامل کرنے کا مطالبہ ہے۔
دستاویز کے مطابق پینے کے لئے دس کیوسک پانی جمرود، تین کیوسک شاہ کس، سنتیس کیوسک پانی حیات کو فراہم کیاجائیگا۔ تین کیوسک پانی سے شاہ کس کے 450ایکٹر زمین سیراب کیاجائیگا۔منصوبے کے تعمیر سے چھ لاکھ 46ہزار 317افراد کو پینے کے صاف پانی فراہم کیاجائیگا جن میں حیات آباد کے تین لاکھ جبکہ باقی جمرود اور شاہ کس کے آبادی کو فراہم کیاجائیگا۔ادارے کے مطابق منصوبے کے تعمیر سے سیلاب سے ہونے والے تباہ کاریاں و زرعی زمینوں کے کٹائی کا عمل رک جائیگا، قریب علاقو ں میں زیر زمین پانی کے مقدار بڑھ جائیگااور زیر زمین پانی نکلنے کے مد میں خرچ ہونے والے بجلی کے بچت ہوگی۔تیس سالہ ریاض خان علاقے کے سماجی کارکن ہے۔ اُنہوں نے بتایاکہ اُن کے چار ایکڑ زرعی زمین سیلاب کی وجہ سے مکمل طورپر ختم ہوکر اُن میں ریت کے بڑے ڈیرے موجود ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ 2008 کے سیلاب سے پہلے مقامی آبادی کھانے پینے کی ضروریات اپنے زرعی زمینوں اور مال مویشیوں کو پالنے سے پورا کرتے تھے اب موجودہ وقت میں پوری گاؤں میں ایک انچ زرعی زمین نہیں بچا ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ سیلاب کے مزید تباہ کاریاں روکنے لئے حکومت اور غیر سرکاری اداروں سے حفاظتی پشتوں کے تعمیر کے لئے کروڑں کے منصوبے منظور کرائے گئے تاہم حکومت کی پابندی کے بناء پر اُس پرکام شروع نہ ہوسکاجس کے وجہ سے ہر سال علاقے میں سیلاب اور شدید بارشوں کی وجہ سے لوگوں کو کافی بھاری نقصان اُٹھانا پڑتاہے۔
جبہ کے علاقے کو جمرود اور پشاور سے ملانے والے ایک ہی سڑک ہے جو برساتی نالے سے ہی گزرتاہے۔بارشوں کی وجہ سے یہاں پر کئی دنوں تک آمد ورفت کا سلسلہ معطل رہتاہے۔
چار سال کے ڈیم کے تعمیر کے منصوبے کے لئے مختص فنڈ میں سے مالی سال 2024-24میں 2524.14ملین، دوسرے سال 2634.62ملین،تیسرے سال 2144.85ملین چوتھے اور آخری سال 1051.74ملین یعنی کل 8706.92ملین روپے خرچ کیں جائینگے۔ املاک اور زمینوں کے ادائیگی کے مد میں مزید 486 ملین، آگاہی مہم کے لئے 656ملین، منصوبے کے معیار کے نگرانی کے لئے کنسلٹ کو 600ملین جبکہ محکمہ آپباشی ڈریکٹریٹ کے اخراجات کے مد میں 50ملین روپے خرچ کیں جائینگے۔
ریاض خان کے دوبڑے بھائیوں نے چند سال پہلے اس وجہ سے اپنا علاقہ چھوڑ کر شاہ کس کے علاقے میں کرائے کے گھر میں رہائش پذیر ہوئے کہ شادی کے لئے اُن کے گھر میں کمر ے موجود نہیں تھے۔ اُنہوں نے کہاکہ مہنگائی دور میں گھر کے اخرجات پورا کرنا انتہائی مشکل ہے لیکن مجبوری کے تحت جبہ کے مقامی لو گ علاقہ چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں رہائش اختیار کرلیتے ہیں۔ اُنہوں نے کہاکہ حکومت کے طرف سے 2008-09سے نئے تعمیرات پر پابند ی کے باوجود علاقے میں تین ہزار سے زیادہ شادیں ہوچکے ہیں جس کے اندازہ لگا یا جاتاہے کہ مقامی آبادی کتنے مشکل سے اپنی زندگی گزاررہے ہیں۔
کمیٹی کے سربراہ حاجی منظور کے مطابق سروے ٹیم نے علط اعداد شمار آکٹھے ہیں جس کے وجہ سے لوگوں کے آبائی جائیدا د کو کم ناپا گیا ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ سیلاب سے پہلے برساتی نالہ دس سے پندرہ فٹ چوڑا تھا لیکن موجودوقت میں 650میٹر سے بھی بڑھ چکا ہے۔اُنہوں نے کہاکہ ضلعی حکام، ممبر صوبائی اور قومی اسمبلی کے سامنے اپنے مطالبات پیش کردئیے جن میں گھروں، زرعی اور بنجرزمینوں کے ریٹ موجودہ وقت کے مطابق طے کرنا، سروے کے تفصیل کمیٹی کے حوالے کرنا، سروے کے عمل مکمل کرنا، معاوضوں کی آدئیگی یکمشت کرنا، ڈیم کے حدد د کا تعین کرنا تاکہ اُس سے باہر مقامی لوگ وہاں پر اپنے لئے گھر تعمیر کرسکے،ڈیم میں مقامی لوگوں کو نوکری دلانا اور مقامی آبادی کو ڈیم سے پینے کے صاف پانی مہیاکرنے کے لئے اقدمات شامل ہیں۔
کمیٹی ممبر سیدنظیر کے مطابق حکومت نے غیری آباد زمین کے ریٹ پچاس لاکھ ایکڑ جبکہ زرعی اور آبادی کے زمین کے ریٹ 96لاکھ روپے گ فی ایکڑ لگایا گیا ہے جبکہ مکانات کا ایک جنرل فارمولہ طے کیاگیا ہے کہ اور زمین کے حساب سے چھ سو روپے فٹ حساب کیاگیا ہے۔
کمیٹی کے جانب سے درختوں کو سروے میں شامل کرنے کے لے محکمہ آپباشی کو درخواست جمع کردیا گیا تاہم اُس کے حوالے سے اب تک جواب موصول نہیں ہوا ہے۔
سرکاری سطح پر زمینوں کے مقرر کردہ ریٹ کے سوال پر مقامی لوگوں کے کاکہنا ہےکہ جبہ کا علاقہ شہرسے دور تاہم جب لوگ یہاں سے بے گھر ہوکر تحصیل جمرود کے دوسرے علاقوں میں جب اپنے گھروں کے تعمیر کے لے زمین کی خریداری کریگی تو ان علاقوں میں ایک ایکڑزمین کےمالیت ایک کروڑ سے بالکل کم نہیں تواس وجہ سے مقامی آبادی اس ریٹ کو کم سمجھتے ہیں۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کے اپریل 2019میں دورہ ضلع کے مواقعے پر تحصیل جمرود میں جبہ ڈیم، تحصیل باڑہ میں باڑہ ڈیم اور لنڈی میں پینے پانی کے شلمان منصوبے تعمیر کرنے کا اعلان کردیا تھا۔
ضلع سے ممبر قومی اسمبلی محمد اقبال آفریدی جبہ ڈیم متاثرین اور متعلقہ حکام کے درمیان جاری مزکرات کا حصہ ہے۔ اُنہوں نے بتایاکہ ڈیم متاثرین کے نمائند کمیٹی کے ابتک دو ملاقاتین ہوچکے جن میں پہلا صوبائی وزیر آب آپباشی کے دفتر میں تمام متعلقہ حکام کے ساتھ جبکہ کل دوسرا ڈپٹی کمشنر خیبر کے دفتر میں ہوئی۔ اُنہوں نے کہاکہ ڈیم کے تعمیر کے حوالے سے تمام حدشات حکام کے سامنے رکھے گئے جن میں گھروں کے سروی کے حوالے سے بتایاگیاکہ یہ کئی سال پہلے ہوا چکا ہے اور اس کے بعد لوگوں بھی لوگوں نے تعمیرات کرچکے جن کے معاوضوں کے ادائیگی بھی یقینی بنانے کا مطالبہ کیاگیا۔ اُنہو ں نے کہاکہ حکام کو واضح پرتو پر کہاکہ پینے پانی کے لئے آبادی کے جو اعداد شمار بتایاگیا اُس میں میں بھی سروے کے بعد کافی اضافہ ہوچکا ہے اور موجودہ آباد ی کے بنیاد پر پینے کے لئے پانی مختص کردیا جائے۔ اُن کے بقول ضلع کے تحصیل جمرود اور باڑہ کے بہت سے علاقے جہاں پینے کے پانی تک دستیاب نہیں جس کے لئے حکام کو بتایاگیا کہ حیات کو ایک لیٹر پانی دینے کے لئے تیار نہیں جب تک ہمارے علاقے کے لوگوں کو پینے اور زرعی زمینوں کو سیراب کرنے کے لئے سہولت مہیانہیں کرجاتی ہے۔اُنہوں بتایاکہ ڈیم کے تعمیر سے مقامی آبادی کو نقصان اُٹھنا پڑیگا جبکہ اس کا فائدہ حیات آباد کے عوام کو دیاجائیگا جوکہ ہرگزقبول نہیں۔
ڈیم کے تعمیر کے لئے جبہ کا مقام کیوں
جبہ ڈیم کو دو برستاتی نالیوں کے سنگم پر تعمیر کیاجارہاہے جن میں شما ل میں لنڈی کوتل جبکہ جنوب میں چورا علاقے سے نکل آتا ہے۔ہرسال شدید بارشوں کی وجہ سے ان نالیوں میں طغیانی آتاہے جس سے تحصیل جمرود او ر ضلع پشاور کے مختلف علاقے متاثر ہوتے ہیں۔ مذکورہ مقام پر پاکستان بنے سے پہلے انگریز دور میں جمرود تحصیل اورقلعہ کو یہاں سے پینے اور دیگر ضروریات کے لئے پانی مہیاکرنے ایک منصوبہ تعمیر کرایا گیا جس کے اثراب تک موجود ہے۔ جبہ کے مقامی باشندے ساجد نواز نے بتایاکہ اس منصوبے کے تحت برساتی نالے میں مختلف مقامات پر چھوٹے کنوایں تعمیرا کرائے گئے تھے جن میں ارد گر انٹیوں کے فلٹر تعمیر کرائی گئے۔ اُن کے بقول ان کنوایں کو ایک نظام کے تحت ایک بڑے کنویں کے ساتھ جوڑا گیا جہاں سے پانی ایک نالے کے مدد سے جمرود کے ولی باباعلاقے میں ا یک بڑے تالاب کو منتقل کردئیے جاتے تھے اور جہاں سے جمرود تحصیل اور قلعے کو پانی مہیا کی جاتی تھی۔
1836میں سکھ دور حکومت میں جمرود کے قلعے کے تعمیر کے لئے بھی پانی کا بہت بڑا مسئلہ تھا جس کے وجہ سے قلعے کے اندار ایک بڑا کنواں تعمیر کرایا گیا جو اب بھی موجود ہے۔
ضلع خیبر اور پشاور میں زیر زمین پانی کے مقدار خطرناک حد کم
شاہ حسین کا تعلق تحصیل جمرود کے علاقے شاکس ہے۔ حکومت نے پینے کے پانی کے لئے چند سال پہلے 570فٹ گہرا ٹیوب لگایاتھا تاہم اُن کے بقول علاقے میں تین سو بیس فٹ تک پانی کے اثرظاہر ہونا شروع ہوجاتاہے۔ اُ ن کاکہنا تھا کہ علاقے کے کئی ٹیوب ویلز خشک ہوگئے جبکہ چند ایسے مقامات ہے جہاں پر زیر زمین کا نام ونشان تک نہیں رہا۔
کچھ عرصہ قبل سینٹ کے قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل کو بتایا گیا کہ پچھلے دس سالوں میں ملک بھرمیں زیر زمین پانی کے سطح نیچے چلا گیا،یہ مقدارضلع خیبر میں 74فٹ بتایاگیا ہے جوکہ ملکی سطح پر سب زیادہ ہے۔پاکستان کونسل برائے تحقیقاتی آبی وسائل یا پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹرریسویسز(PCRWR) کے خیبر پختونخوا میں سربراہ ڈاکٹر منیب خٹک نے کہاکہ موجودہ وقت میں حیات آباد اور خیبر میں زیر زمین پانی کے ذخائر خطرناک حدتک کم ہوچکے ہیں اور زیر زمین پانی کی سطح مسلسل نیچے جارہاہے۔اُنہوں نے کہاکہ مذکورہ علاقوں میں موجودہ وقت میں 290فٹ گہرے پانی کی سطح پر موجود ہے جبکہ نوے کے دہائی میں یہ 150فٹ تھا۔ اُنہوں نے کہا کہ زیر زمین پانی سالانہ چار سے پانچ میٹر نیچے جارہاہے جس کی بنیادی وجہ ضرورت سے زیادہ پانی نکلنا اور اُن کا بے دریغ استعمال ہے۔ اُنہوں نے بتایاکہ ایک فیصد سے بھی کم زیر زمین پانی کے مقدار بڑھنے کے لئے اقدامات کی جاتی ہے۔اُن کے بقول موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بارشوں کی مقدار میں کمی، کارخانوں اور رہائشی کالونیوں، کارخانوں اورسروس سٹیشنوں میں پانی کا بے دریغ استعمال کے ساتھ پانی کے ذخائر کو محفوظ بنانے کے لئے منصوبوں پرکام نہ ہونا وہ بنیادی مسائل ہے۔اُنہوں نے کہاکہ جبہ ڈیم کی تعمیر انتہائی اہم منصوبہ ہے جس کے تکمیل کے چند سال بعد زیر زمین پانی کے مقدار میں اضافہ ہونا شروع ہوجائیگاجبکہ مزید اس قسم کے چھوٹے بڑے منصوبوں پر کام کی ضرورت ہے۔
ڈیم کا تیکنکی جائزہ
دستاویز کے مطابق جبہ ڈیم کو 512مربع کلومیٹر کے علاقے سے بارش کے پانی ذخائر ہ ہونے کے لئے جمع ہونگے۔ ڈیم میں 4629ہیکٹرمیٹر پانی ذخیرہ ہونگے۔پینے کے لئے سال بھرپچاس کیوسک جبکہ زرعی زمینوں کو سیرا ب کرنے کے لئے تین کیوسک پانی دستیاب ہوگا۔بند کے لئے دیوار کی لمبائی 72میٹر جبکہ چوڑائی دس میٹر ہوگی۔اضافی پانی کے اخراج کے لئے سپل وے کے چوڑائی 53میٹر جبکہ پانی اخراج ایک لاکھ کیوسک سے زیادہ ہوگا۔ ڈیم کے تعمیر کے دوران پانی کا رخ موڑنے کے لئے 515میٹر طویل ٹنل تعمیر کیاجائیگا جن کاقطر یا ڈائی 7.64ہوگی۔
جبہ ڈیم کے تعمیر کے حوالے سے مقامی آبادی کے حدشات دور کرنے کے لئے علاقے کے ممبر صوبائی اسمبلی و مشئیر برائے سی این ڈبلیوسہیل آفریدی، صوبائی وزہرآپباشی عاقب اللہ خان، ڈپٹی کمشنر خیبر اور دیگر متعلقہ اداروں کے اعلی عہدیداروں نے جبہ کے علاقے میں مقامی لوگوں کے ساتھ جرگہ کیا اور اُن کے حدشات دور ہونے کے بعد ڈیم پر باقاعدہ کام شروع ہونے کی یقین دہانی کرائی۔ جرگے کے حوالے سے سہیل آفریدی نے بتایاکہ مقامی لوگوں کے ڈیم کے حدود میں اُن کے زمینوں کم رقبہ سروے میں شامل کرنا ا ور کم قیمت سمیت ڈیم کے پانی سے مقامی آبادی کے بجائے ضلع پشاو ر کے آبادی کو زیادہ سہولت دینے پر اعترضات تھے۔ اُنہوں نے کہاکہ جب تک مقامی لوگوں کے حدشات دور نہیں کیں جاتے تب تک ڈیم پر تعمیراتی کا م کا آغاز نہیں کیاجائیگا۔اُنہوں نے کہاکہ زمین کے مناسب ریٹ اوراصل رقبہ معلوم کرنے کے لئے تمام وسائل کو برائے کار لایاجائیگا۔
صوبائی وزیر آپباشی عاقب اللہ خان نے کہاکہ مقامی لوگوں کے جانب سے ایک کمیٹی تشکیل دیاجاچکا ہے اور اُن کے ساتھ بیٹھ کر تمام مسائل کے حل اور حدشات دور کرنے کے لئے اقدامات کیں جائینگے۔ اُنہوں نے کہا ڈیم کے منصوبے میں سولہ کیوسک آضافی پانی مقامی آبادی کو اُن کے مانگ اور ضرورت کے مطابق مہیا کیں جائینگے اور ڈیم کے تعمیر کے حوالے سے کوئی اقدام نہیں اُٹھایاجائیگا جوکہ مقامی آبادی کے مرضی اور حق کے خلاف ہوں۔